مت کہو کہ دھشت گرد کسی مذھب سے تعلق نہیں رکھتا
تحریر: سید ابو عماد حیدری
تاریخ پاکستان گواہ ہے کہ دھشت گردوں کا تعلق مسلک سے ہی تھا اور اسی مسلک کے مدرسوں میں ان کو دھشت گردی کی تربیت دی گئی ہے۔ اسی مسلک کے مفتیوں نے دھشت گردوں کے لئے 70 حوروں سے نکاح پڑھانے کی ذمہ داریاں لی ہیں
اسی مسلک کے پاگل نما مفتیوں نے کفر و تکفیر کے فتوے دئیے ہوئے ہیں۔
اسی مسلک کے پیروکاروں نے جو نہ مانے وہ بھی کافر کے نعرے لگاکر جان مال کے لوٹنے کو ثواب سمجھا ہے اور دوسروں کو اس کی تلقین کی ہیں۔
دھشت گردی کے بعد اسی مسلک کے مفتی خوش ہوتے ہیں اور مظلوموں کی حمایت میں ایک مذمتی بیان تک نہیں دیتے۔
کیا اب بھی کہو گے کہ دھشت گرد کا کوئی مذھب نہیں ہوتا؟؟
کبھی سوچا ہے آپ نے کہ آپ کی یہ بات شھدا کے خون سے کہیں خیانت تو نہ ہو؟؟
ٹارگٹ کرنے والے،
کفر کے فتوے لگانے والے،
کفر کے نعرے لگانے والے،
ملک خداداد پاکستان کو ناامن کرنے والے،
مساجد، امام بارگاہ، مزارات اور درگاہوں میں خون کی ندیاں بہانے والے،
عالمی استکبار کے اشاروں پر چلنے والے،
مظلوموں کے قتل پر خوشیاں منانے والے،
پوری دنیا میں اسلام کو ایک terrorist religion متعارف کروانے والے،
عبادت گاہوں میں قرآن مجید کو پارہ پارہ کرکے خون سے غلطاں کرنے والے
اور شدت پسندی کی ترویج کرنے والے ایک ہی مسلک، ایک ہی مذھب اور ایک ہی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔
کیا یہ وہی مکتب فکر نہیں جس کے نام لیواؤں نے پاکستان بنانے کی شدت سے مخالفت کی تھی؟
کیا یہ وہی مکتب فکر نہیں جس کے ماننے والوں نے قائد اعظم کو کافر اعظم کہا تھا؟
کیا یہ سب جاننے کے باوجود بھی یہ کہنا درست ہے کہ دھشتگردوں کا کوئی مذھب نہیں ہوتا؟
اگر اس سوال کا جواب میں آپ ہاں کہیں گے تو آپ یا سادہ اور بے وقوف ہیں یا ملت مظلوم کو بے وقوف بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔
کوئی تحریر کنندہ کی ان باتوں سے یہ ہرگز نہ سمجھے کہ مسلک دیوبند کے تمام پیروکار دھشت گرد ہیں۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے، دیوبند مکتب فکر کے پیروکاروں میں منصف مزاج، امن پسند اور بھائی چارے کی دعوت دینے والے بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں۔
البتہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پیارے پاکستان میں موجود مختلف مسالک بالخصوص شیعہ مکتب فکر کے مساجد اور پیروکاروں کو بے گناہ قتل کرنے والے دھشت گردوں کا تعلق صرف اور صرف دیوبند سے ہیں۔
سارے دیوبند دھشت گرد نہیں لیکن تمام دھشت گرد دیوبندی ضرور ہیں۔
🛑سید ابو عماد حیدری🛑