معاویہ بن ابی سفیان ،متقدمین کی نظر میں
معاویہ بن ابی سفیان ،متقدمین کی نظر میں
معاویہ ، مولا علی علیہ السلام کی نظر میں :
امام علی علیہ السلام نے فرمایاکہ
وخلاف معاویة الذی لم یجعل الله عز و جل له سابقة فی الدین ولا سلف صدق فی الإسلام طلیق ابن طلیق حزب من هذه الأحزاب لم یزل لله عز و جل ولرسوله صلى الله علیه و سلم وللمسلمین عدوا هو وأبوه حتى دخلا فی الإسلام کارهین
وہ معاویہ میرا مخالف ہے کہ جس کو اللہ تبارک و تعالی نے دین اسلام میں سبقت لانے والوں میں سے قرار نہیں دیا ہے طلیق بن طلیق اور احزاب میں حزب ۔ معاویہ اور اس کا باپ {ابوسفیان} اللہ تبارک و تعالی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ اور مسلمانوں کے دشمن رہے یہاں تک کہ اسلام میں مجبور ہوکر داخل ہوئے۔ [1]
اس روایت میں طلیق کا لفظ استعمال ہوا ہے کہ جس کا جمع طلقاء ہے ۔ طلقاء کا معنی لسان العرب میں بیان ہوا ہے کہ
و الطُّلَقاء: الذین ادخلوا فی الإِسلام کرهاً
طلقاء ان کو کہا جاتا ہے کہ جو اسلام میں مجبور ہوکر داخل ہوئے تھے.
إبن أبی الحدید معتزلی لکھتے ہیں کہ
لما نظر علی علیه السلام إلى رایات معاویة وأهل الشام ، قال : والذی فلق الحبة ، وبرأ النسمة ، ما أسلموا ولکن استسلموا ، وأسروا الکفر ؛ فلما وجدوا علیه أعواناً ، رجعوا إلى عداوتهم لنا
جب امام علی علیہ السلام نے معاویہ اور اہل شام کے پرچم دیکھے تو فرمایا
خدا کی قسم جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور جاندار اشیاء کو پیدا کیا یہ لوگ کبھی اسلام نہیں لائے لیکن تسلیم ہوئے اور کفر کو چھپا رکھا ، جب ان کو ساتھی مل گئے تو ہماری عداوت پر لوٹ گئے۔[2]
وقعۃ صفین میں لکھا ہے کہ
فقیل لعلی حین أراد أن یکتب الکتاب بینه وبین معاویة وأهل الشام: أتقر أنهم مؤمنون مسلمون ؟ فقال على: ما أقر لمعاویة ولا لأصحابه أنهم مؤمنون ولا مسلمون،
مولا علی نے جب معاویہ کو خط لکھ لکھنے کا ارادہ کیا تو پوچھا گیا کہ کیا آپ اقرار کرتے ہیں کہ معاویہ اور اھل شام مومنین اور مسلمان ہیں تو مولا علی نے کہا کہ میں اقرار نہیں کرتا کہ معاویہ اور اس کے ساتھی مومنین اور مسلمان ہیں۔[3]
تاریخ طبری میں ہے کہ جب عمروبن عاص نے مصر پر لشکر کشی کرنا چاھا تو مصر کے والی محمد بن ابی بکر نے مولا علی علیہ السلام کو مدد کے لئے خط لکھا کہ جس کے جواب میں مولا علی علیہ السلام نے خط لکھا جس میں مولا علی نے فرمایا کہ
وقد قرأت کتاب الفاجر ابن الفاجر معاویة والفاجر ابن الفاجر عمرو المتحابین فی عمل المعصیة والمتوافقین المرتشیین فی الحکومة المنکرین فی الدنیا قد استمتعوا بخلاقهم کما استمتع الذین من قبلهم بخلاقهم فلا یهلک إرعادهما وإبراقهما[4]
میں نے فاجر بن فاجر معاویہ اور فاجر بن فاجر عمروعاص کا خط پڑھا یہ دونوں خدا کی نافرمانی کو محبوب رکھتے ہیں اور حکومت میں رشوت لینے والوں کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں اور دنیا میں منکر کام کرتے ہیں انہوں نے اپنی فطرت کے مطابق دنیا سے فائدہ حاصل کیا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں نے بھی اپنی فطرت کے مطابق اپنا فائدہ حاصل کیا تھا تم ان کی دھمکیوں اور ان کی لالچ سے اپنے آپ کو ھلاک نہ کرنا۔
۲۔ معاویہ، حسن بصری کی نظر میں:
معاویہ کے بارے میں امام حسن بصری کا قول طبری نے نقل کیا ہے
أن الحسن کان یقول : أربع خصال کن فی معاویة و لو لم یکن فیه منهن إلا واحدة لکانت موبقة :
انتزاؤه على هذه الأمة بالسفهاء حتى ابتزها أمرها بغیر مشورة و فیهم بقایا الصحابة و ذوو الفضیلة ،
و استخلافه ابنه بعده سکیرا خمیرا یلبس الحریر و یضرب الطنابیر ،
و ادعاؤه زیادا ، و قد قال رسول الله : الولد للفراش و للعاهر الحجر ،
و قتله حجرا و أصحابه ویل له من حجر و أصحابه ، ویل له من حجر و أصحابه
حسن بصری کہا کرتے تھے کہ معاویہ میں چار صفات ایسی تھیں کہ اگر ان میں سے اس میں ایک بھی ہوتی تو بھی تباہی کے لئے کافی تھی۔
1:- امت کے دنیا طلب جہال کو ساتھ ملاکر اقتدار پر قبضہ کیا جبکہ اس وقت صاحب علم و فضل صحابہ موجود تھے ۔
2:- اپنے شرابی بیٹے یزید کو ولی عہد بنایا جو کہ ریشم پہنتا تھا اور طنبور بجاتا تھا ۔
3:- زیاد کو اپنا بھائی بنایا ۔ جب کہ رسول خدا کا فرمان ہے کہ لڑکا اس کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہو اور زانی کے لئے پتھر ہیں ۔
4:- حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کو ناحق قتل کیا۔[5]
بلاذری انساب الأشراف میں امام حسن بصری سے رسول اللہ کی حدیث نقل کرتے ہیں کہ
حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ مُوسَى، وَأَبُو مُوسَى إِسْحَاقُ الْفَرْوِیُّ، قَالا: حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ، وَالأَعْمَشُ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص): " إِذَا رَأَیْتُمْ مُعَاوِیَةَ عَلَى مِنْبَرِی فَاقْتُلُوهُ ". فَتَرَکُوا أَمْرَهُ فَلَمْ یُفْلِحُوا وَلَمْ یَنْجَحُوا.
حسن بصری سے نقل ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ : «کہ جب معاویہ کو میرے منبر پر دیکھو تو اسے قتل کردو» لوگوں نے رسول اللہ کے اس حکم پر عمل نہیں کیا اسی لئےناکام رہے اور نجات نہ پا سکے .[6]
۳۔معاویہ،عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی نظر میں:
جناب حضرت عمار بن یاسر سے ذیل کی روایت مختلف سندوں سے نقل کی گئی ہے کہ
قال واللہ ما اسلموا ولکن استسلموا و اسروا الکفر [7]
عماربن یاسر فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم معاویہ اور اسکے ہمکاروں نے اسلام نہیں لایا تھا بلکہ تسلیم ہوئے تھے اور کفر کو چھپا رکھا تھا ۔
یہی حدیث امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے بھی نقل ہے جو کہ اسی کتاب کے صفحہ ۸ پر بیان ہوئی ہے۔ یہ حدیث بالکل انہیں الفاظ کے ساتھ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل سے بھی نقل ہے کہ جب مروان نے مدینہ میں یزید کی بیعت کے لئے سعید کو طلب کیا تو سعید نے یہی کہا کہ أمرنی مروان أن أبایع لقوم ضربتهم بسیفی حتى أسلموا ولکن استسلموا مجھے مروان نے حکم دیا ہے کہ میں اس قوم کی بیعت کروں جن سے میں اسلام کی خاطر بہت لڑا ہوں یہاں تک کہ انہوں نے اسلام نہیں لایا بلکہ تسلیم ہوئے۔
عمار بن یاسر جب صفین میں مقابلے کے لئے نکلا تو مقابلے کے لئے عمروبن عاص آیا کہ جس نے معاویہ کو حکومت دلوائی تھی اور دومۃ الجندل میں معاویہ کے خلافت کا اعلان کیا تھا اور صفین میں معاویہ کی جان بچانے کے لئے قرآن کو نیزوں پر بلند کرنے کا حکم دیا تھا۔ جب عمار یاسر نے مقابلے میں آنے والے عمروبن عاص کو دیکھا تو لوگوں کو مخاطب کرکے کہا کہ
یقول یا أهل العراق أتریدون أن تنظروا إلى من عادى الله ورسوله وجاهدهما وبغى على المسلمین وظاهر المشرکین فلما رأى الله عز و جل یعز دینه ویظهر رسوله أتى النبی صلى الله علیه و سلم فأسلم وهو فیما نرى راهب غیر راغب ثم قبض الله عز و جل رسوله صلى الله علیه و سلم فوالله إن زال بعده معروفا بعداوة المسلم وهوادة المجرم فاثبتوا له وقاتلوه فإنه یطفئ نور الله ویظاهر أعداء الله عز و جل[8]
کہ اے اھل عراق کیا تم اس شخص کو نہیں دیکھتے کہ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی دشمنی کی اور اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کی اور مسلمانوں کے مخالف رہا اور مشرکین کا مددگار رہا ۔ لیکن جب اس نے دیکھا کہ اللہ نے اپنے دین کو غالب فرمایا ہے اور اپنے رسول کی مدد کی ہے تو اس نے اسلام قبول کیا ۔ ہمارے نزدیک اس کا اسلام رغبت و شوق سے نہیں تھا بلکہ خوف کی وجہ سے اسلام لایا تھا پھر اللہ نے اپنے رسول کو ہم سے لے لیا تو حضور کے بعد اللہ کی قسم ہمیشہ یہ شخص مسلمانوں کی عداوت اور مجرموں کی ہمدردی میں مصروف رہا اس کے مقابلے میں ثابت قدم رہو اور اس سے لڑو کیونکہ یہ شخص اللہ کے نور کو بجھاتا ہے اور اللہ کے دشمنوں کی مدد کرتا ہے۔
۴۔معاویہ ،محمد بن ابی بکر کی نظر میں:
محمد بن ابی بکر کا خط معاویہ کے نام بہت مشہور ہے کہ جس میں محمد بن ابی بکر نے لکھا ہے
انت اللعین بن اللعین لم تزل انت و ابوک تبغیان لرسول الله الغوایل و تجهدان فی اطفاء نور الله و تجمعان علی ذالک المجموع و تبذلان فیه المال ۔۔۔ و علی ذالک مات ابوک ۔
اے ملعون اور ملعون کے بیٹے تو اور تیرا باپ ابھی بھی رسول اللہ سے بغاوت کر چکے ہو اور اللہ کے نور کو بجھانے کی کوشش کرتے ہو اور تم اور تمھارے باپ نے ایک گروہ کو اس پر جمع کیا ہے اور مال خرچ کرتے ہو ۔۔۔۔ اور تمھارا باپ اسی پر مرا ۔ [9]
معاویہ نے محمد بن ابی بکر کو خط لکھا تھا جس کے جواب میں محمد بن ابی بکر نے خط لکھ کر کہا کہ
أما بعد فقد أتانی کتابک تذکرنی من أمر عثمان أمرا لا أعتذر إلیک منه وتأمرنی بالتنحی عنک کأنک لی ناصح وتخوفنی المثلة کأنک شفیق وأنا أرجو أن تکون لی الدائرة علیکم فأجتاحکم فی الوقعة وإن تؤتوا النصر ویکن لکم الأمر فی الدنیا فکم لعمری من ظالم قد نصرتم وکم من مؤمن قتلتم ومثلتم به وإلى الله مصیرکم ومصیرهم وإلى الله مرد الأمور وهو أرحم الراحمین والله المستعان على ما تصفون والسلام[10]
اما بعد تمھارا خط مجھے ملا جس میں تم نے عثمان کے معاملہ کا ذکر کیا ہے میں عثمان کے قتل کا تم سے کوئی عذر نہیں کرتا تم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمھارے مقابلے سے گریز کروں گویا تم مجھے نصیحت کرنا چاھتے ہو اور تم نے مجھے مثلہ کرنے سے خوف دلایا ہے گویا تم مجھ پر بہت مہربان ہو میری تو آرزو ہے کہ میں تجھ پر لشکر کشی کروں اور تمھیں مصیبتوں میں مبتلا کروں اگر چہ تمھاری کتنی ہی امداد نہ کی جائے اور پوری دنیا میں تمھاری حکومت ہی کیوں نہ ہو میری عمر کی قسم کتنے ظالم لوگوں کی تم نے مدد کی ہے اور کنتے مومنوں کو تم نے قتل کیا ہے اور مثلہ کیا ہے اور اللہ ہی کے پا س تم بھی لوٹ کر جاوگے اور یہ لوگ بھی لوٹ کر جائیں گے وہ ارحم راحمین ہے اور جو کچھ تم کہتے ہو ان پر اللہ ہی سے مدد طلب کی جاسکتی ہے ۔والسلام
۱۰۔معاویہ احمد بن حنبل کی نظر میں:
احمد بن حنبل کے بیٹے عبداللہ سے روایت ہے کہ
کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ آپ علی علیہ السلام اور معاویہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
تو احمد بن حنبل نے جواب دیا کہ
اعلم ان علیا کثیر الاعداء ففتش لہ اعداءہ عیبا فلم یجدوا فجاءوا الی رجل قد حاربہ و قاتلہ فوضعوا لہ فضائل
اے میرے بیٹے میں جانتا ہوں کہ علی کے دشمن زیادہ تھے ان دشمنوں نے حضرت علی میں عیب ڈھونڈنا شروع کئے لیکن حضرت علی میں کوئی عیب نہیں ڈھونڈا { چونکہ مولا علی میں کوئی عیب ہے ہی نہیں } تو انھوں نے اس شخص کے فضائل گڑھے جو حضرت علی سے لڑا تھا اور جنگ کی تھی[11]۔{یعنی معاویہ کے فضائل بنائے}
اسی روایت کو جناب سیوطی نے بھی انہیں الفاظ کے ساتھ کتاب تاریخ الخلفاء میں نقل کی ہے۔
۵۔معاویہ، امام نسائی کی نظر میں :
مورخین نے لکھا ہے کہ محدث کبیر صاحب السنن نسائی کہ جو اھل سنت کےچھ مشہور کتابوں میں سے ایک ہے۔ نے اپنی آخری عمر میں مصر کو چھوڑ کر دمشق چلے گئے جناب نسائی نے جب اھل شام کی علی دشمنی دیکھی تو اس نے ایک کتاب " خصائص علی رضی اللہ عنہ " مولا علی علیہ السلا م کے فضائل پر لکھی اس نیت سے تاکہ اھل شام علی دشمنی چھوڑ دےاور راہ حق کی طرف جو کہ مولا علی سے محبت کا راستہ ہے کی طرف آجائے اور پھر اسی کتاب سے مسجد میں درس دینا شروع کیا اور لوگوں کی اصلاح کے لئے مسجد میں لوگوں کو مولا علی کے فضائل بیان کرنا شروع کیا تو تو ایک شخص نے امام نسائی سے معاویہ کے فضائل کے بارے میں پوچھا ، انہوں نے جواب دیاکہ
ما اعرف لہ فضیلہ الا لا اشبع اللہ بطنک
میں معاویہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا مگر یہ ایک حدیث جو کہ رسول اللہ کی ہے ، کہ معاویہ کا پیٹ بھر نہ جائے،
تو اھل شام نے نسائی پر حملہ کیا اور اس کو مسجد سے زخمی حالت میں نکالا ، تو نسائی نے کہا کہ مجھے مکہ لے چلو اور آخرکار مکہ میں ہی فوت ہوئے۔[12]
فتح الباری فی شرح البخاری میں علامہ ابن حجر عسقلانی نے ذکر کیا ہے کہ امام نسائی کے استاد اسحاق بن راھویہ معاویہ کے کسی ایک فضیلت کا قائل بھی نہیں تھا اور امام نسائی بھی اپنے استاد والا نظریہ رکھتے تھے۔
۷۔معاویہ ، امام اعمش کی نظر میں :
سلیمان بن مہران اعمش اھل سنت کے ہاں انتہائی قابل قبول ہے اور جناب ذھبی نے اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء میں ان کو امام اور شیخ الاسلام کے القاب دئیے ہیں
انساب الاشراف میں جناب بلاذری لکھتے ہیں کہ
ذکر معاویة عند الأعمش فقالوا: کان حلیماً، فقال الأعمش: کیف یکون حلیماً وقد قاتل علیاً وطلب زعم بدم عثمان من لم یقتله، وما هو ودم عثمان، وغیره کان أولى بعثمان منه؟[13]
سلیمان بن مہران اعمش کے ہاں معاویہ کا تذکرہ ہوا اور لوگوں نے کہا کہ معاویہ حلیم {بردبار} تھا تو اعمش نے کہا کہ وہ کیسے حلیم ہے حالانکہ وہ حضرت علی سے لڑا ہے اور عثمان کے خون کا بدلہ مولا علی سے طلب کرتا تھا جس نے قتل ہی نہیں کیا ہے { اور نہ قتل میں شریک ہے} اور پھر معاویہ کا عثمان کے خون سے کیا لینا دینا حالانکہ اس سے زیادہ عثمان کے قریب ترین لوگ موجود تھے ۔ { یعنی عثمان کے بیٹے }
۸۔معاویہ ، حافظ جریر بن عبدالحمید کی نظر میں :
حافظ جریر بن عبدالحمید صحاح الستہ کے راوی ہیں یعنی بخاری مسلم ابی داود ابن ماجہ الترمذی اور نسائی سب کے سب نے جریر سے روایت لی ہے ۔ ان کو اھل سنت کی رجالی کتب نے ثقہ متفق علیہ اور عادل کے القاب دئیے ہیں جب کہ ذھبی نے اپنی کتاب سیر اعلام النبلائ میں ان کو امام حافظ اور قاضی کے القاب سے نوازا ہے اور ان کی کنیت ابوعبداللہ الضبی ہے ۔
جیسا کہ ابن حجر عسقلانی نے خلیلی سے نقل کیا ہے کہ جریر ثقہ متفق علیہ ہے
اور قتیبہ سے نقل کیا ہے کہ ہم نے جریر سے روایت لی ہیں لیکن
ولکنی سمعتہ یشتم معاویۃعلانیہ[14]
میں نے جریر کو معاویہ پر علا نیہ سب و شتم کرتے ہوئے سنا ہے ۔
۹۔معاویہ عبدالرزاق الصنعانی کی نظر میں :
امام عبدالرزاق الصنعانی کبار علماء میں سے ہیں اور جریر بن عبدالحمید کی طرح یہ بھی رجال الستہ میں سے ہیں یعنی بخاری مسلم ترمذی ابوداود ابن ماجہ اور نسائی سب کے سب کے راوی ہے ۔
ابن حجر عسقلانی نے ابوداود سے روایت کی ہےکہ
کان عبدالرزاق یعرض بمعاویہ
عبد الرزاق ہمیشہ معاویہ کو اپنے تنقید کا نشانہ بناتا تھا اور اس پر اشکالات کرتا تھا۔
ذھبی نے مخلد الشعیری سے روایت کی ہے کہ
میں عبدالرزاق کے پاس تھا کہ ایک شخص نے معاویہ کا ذکر ہے تو عبدالرزاق نے کہا کہ
لا تقذر مجلسنا بذکر ابن ابی سفیان
ہماری مجلس کو ابوسفیان کے بیٹے کے ذکر سے گندا مت کرو۔[15]
عبد الرزاق اور جریر بن عبدالحمید دونوں کے دونوں اھل سنت کے ہاں قابل احترام ہیں اور اھل سنت کے اماموں میں سے ہیں ۔ اور دونوں صحاح الستہ جیسی اھل سنت کی معتبر کتابوں کے راوی بھی ہیں ۔ نہیں پتہ کیوں اھل سنت معاویہ کے بارے میں ان دونوں بزرگوں کے راستے پر نہیں چلتے ؟
۱۱۔معاویہ، علامہ تفتازانی کی نظر میں:
سعد الدین مسعود بن عمر بن عبد الله التفتازانی المتوفی 791 ہجری قمری نے اپنی کتاب شرح المقاصد فی علم کلام میں لکھا ہے کہ
ذهب الأکثرون إلى أن أول من بغى فی الإسلام معاویة ۔۔۔۔۔إذ لیس کل صحابی معصوما ولا کل من لقی النبی صلى الله علیه وسلم بالخیر موسوما
اکثر علماء یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں سب سے پہلے بغاوت معاویہ نے کی ہے ۔۔۔۔ کیونکہ تمام صحابی معصوم نہیں ہے اور نہ ہی ضروری ہے کہ جس نے بھی رسول اللہ کو دیکھا ہو تو اس کا ذکر خیر کے ساتھ ہوجائے۔ [16]
۱۲۔معاویہ ، جاحظ الکنانی کی نظر میں:
أبو عثمان عمرو بن بحر بن محبوب بن فزارة اللیثی البصری المتوفی 255 ھجری کاتب اور ادیب رہے ہیں ۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھی ہیں ان میں سے کتاب البیان و التبیین اور کتاب الحیوان بہت معروف ہیں ۔ یہ معاویہ پر شدید طعن کرتے تھے۔
جاحظ نے لکھا ہے کہ
جب معاویہ حکومت پر چھا گیا اور شوری کو پاوں نیچے دبا دیا اور انصار اور مہاجرین پر قبضہ کیا اس سال کو سال جماعت کا نام دیا گیا ہے جبکہ حقیقت میں وہ سال جماعت نہیں بلکہ تفرقہ کا سال تھا قہر کا سال تھا جبر و غلبہ کا سال تھا ۔ اسی سال میں امامت ایک کسروی حکومت بنی اور خلافت قیصری منصب بنی اور اس کے جرم بڑھتے گئے حتی کہ رسول اللہ کے مشہور و معروف احکام کی مخالفت شروع ہوگئی اور زیاد بن ابیہ کو جو کہ ولد الفراش کے حکم میں ہے زنا کے طریقے سے اپنا بھائی قرار دیا کہ جس پر امت کا اجماع ہے کہ سمیہ نے ابوسفیان کے ساتھ فرش پر رات نہیں گزاری ہے ، تو ایسے کاموں کی وجہ سے معاویہ فاجرین کے حکم سے کافرین کے حکم میں داخل ہوا۔[17]
شہیر جاحظ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی جنگوں میں وہ قوانین استعمال کرتے تھے کہ جو قرآن و سنت کے مطابق تھے اور معاویہ دھوکوں اور چلاکیوں سے کام لیتا تھا اور جنگ میں ھندوستان کے بادشاہوں خاقان اور فنغور کے راستے پر چلتا تھا ۔
اور حضرت علی اپنی لشکر کو فرمایا کرتے تھے کہ کبھی بھی جنگ کا آغاز مت کرنا اور زخمی پر حملہ مت کرنا اور بند دروازوں کو مت کھولنا۔[18]
اور جناب شہیر جاحظ نے مزید وہ کچھ لکھا ہے کہ اگر انسان اس کو پڑھے تو حیران ہوجائیگا کہ کس طرح کے انسان کو آج مسلمان رضی اللہ کہتے ہیں ۔
فرماتے ہیں کہ
کان معاویۃ یوتی بالجاریۃ فیجردھا من ثیابھا بحضرۃ جلسائہ ویضع القضیب علی رکبھا
معاویہ ایک لونڈی کے ساتھ دربار میں حاضر ہوتا تھا اور پھر سب کے سامنے لونڈی کو عریان کرتا تھا اور اپنے ذَ کر کو اس کی ران پر رکھتا تھا ۔[19]
۱۳۔معاویہ، علی بن جعد کی نظر میں:
علی بن جعد کسی تعارف کا محتاج نہیں اھل سنت کے ہاں اس کو امام حافظ اور حجت کا لقب دیا گیا ہے اور یہ بخاری اور ابو داود کے راوی بھی ہیں
کتاب مسائل الامام احمد بن حنبل میں اسحاق بن ابراھیم بن ھانی النیشاپوری نے یہ روایت نقل کی ہے
سمعت اباعبداللہ قال لہ دلویہ سمعت علی بن جعد یقول :
مات واللہ معاویہ علی غیر الاسلام
اسحاق بن ابراھیم بن ھانی النیشاپوری احمد بن حنبل کے توسط سے علی بن جعد سے روایت نقل کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم معاویہ کی موت غیر اسلام پر ہوئی ہے
۱۴۔معاویہ، ابن عباس کی نظر میں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے چچا زاد عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی نظر میں معاویہ حمار ہے یعنی گدھا۔
حدثنا قال ثنا عبد الوهاب عن [بن] عطاء قال أنا عمران بن حدیر عن عکرمة أنه قال کنت مع بن عباس عند معاویة نتحدث حتى ذهب هزیع من اللیل فقام معاویة فرکع رکعة واحدة فقال بن عباس من أین ترى أخذها الحمار
عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ میں ابن عباس کے ساتھ معاویہ کے پاس تھا ہمیں باتیں کرتے رات کا ایک حصہ گزر گیا پس معاویہ نے کھڑے ہوکر ایک رکعت پڑھی تو ابن عباس نے کہا کہ اس گدھے نے یہ چیز کہاں سے لی ہے۔[20]
تاریخ یعقوبی میں ذکر ہے کہ جب معاویہ حج کے لئے مکہ چلا گیا تو اس نے وہاں بنی ھاشم سے ملاقات کی اور بنی ھاشم کو کہا کہ میں نے تم لوگوں کو چھوڑا ہے حالانکہ تم لوگ عثمان کے قاتل ہو،
عبد اللہ بن عباس نے جواب دیا کہ اے معاویہ جو کچھ تو نے کہا یہ سب تمھارا شر ہے اے معاویہ اللہ کی قسم ان باتوں کا تم ہی اھل ہو کیونکہ تم نے عثمان کو قتل کیا ہے اور پھر لوگوں کو تم نے دھوکہ دیا اور خون عثمان کے قصاص کا مطالبہ کرنے لگے ۔[21]
۱۵۔معاویہ، معاویہ بن یزید کی نظر میں:
ابن حجر نے صواعق المحرقہ میں لکھا ہے کہ
یزید کے مرنے کے بعد جب یزید کے بیٹے معاویہ بن یزید کو یزید کے تخت پر بٹھایا گیا تو اس نے ممبر پر جاکر ایک خطبہ دیا اور کہا کہ
یہ خلافت اللہ کی رسی ہے اور میرے دادا معاویہ بن ابی سفیان نے اسی خلافت پر اس سے لڑائی کی جو خلافت کے لئے اھل تھا اور کون علی بن طالب سے زیادہ اس خلافت کا حقدار ہے ؟ { یعنی فقط مولا علی ہی حق دار ہیں] اور میرے دادا نے تم لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا یہاں تک کہ وہ اپنی آرزو تک پہنچ گیا اور پھر اس دنیا سے چل بسا ایسی حالت میں کہ اپنے سارے گناہ اپنے ساتھ قبر لے گیا اور اس کے بعد میرے باپ { یزید بن معاویہ} نے اس خلافت پر قبضہ کیا حالانکہ وہ اس خلافت کا لائق نہیں تھا اور رسول اللہ {صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} کی بیٹی { فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا} کے بیٹے سے نزاع اور جنگ کی اسی جنگ کی وجہ سے اس کی عمر کم ہوئی اور وہ بھی اپنے گناہ اپنے ساتھ قبر لے گیا ۔ اس کے بعد معاویہ بن یزید رویا اور کہا کہ ہم نے یزید کا غلط راستہ دیکھا کیونکہ اس نے عترت رسول اللہ کو قتل کیا اور شراب کو مباح قرار دیا اور کعبہ کی حرمت کو پامال کیا ۔ لیکن میں نے خلافت کا ذائقہ بھی نہیں چکھا اور میں تو ان کے راستے پر نہیں چلوں گا تم سمجھو اور تمھاری حکومت ۔ اللہ کی قسم اگر یہ دنیا خیر ہے تو ہم نے اپنا حصہ اس سے لے لیا ہے اور یہ دنیا شر ہے تو آل ابی سفیان کے لیے کافی ہے وہ کچھ جو انہوں نے انجام دیا ۔
اس کے بعد معاویہ بن یزید اپنے گھر چلا گیا اور باہر کے لوگوں سے لا تعلق ہوا یہاں تک کہ چالیس دن بعد فوت ہوا۔[22]
۱۶۔معاویہ، شریک بن عبداللہ کی نظر میں:
ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عثمان الذھبی نے اپنی کتاب میزان الاعتدال فی نقد الرجال جلد ۲ ص ۲۷۳ چاپ دار المعرفہ بیروت میں لکھا ہے کہ
قال له الناس یقولون انک شاک قال یا احمق کیف اکون شاکا لوددت انی کنت مع علی فخضبت یدی بسیفی من دمائهم
لوگوں نے شریک کو کہا کہ کہا جاتا ہے کہ تم علی اور معاویہ کے بارے میں شک میں مبتلا ہو { یعنی تم ان دونوں کے بارے میں اپنا موقف نہیں رکھتے }
تو شریک نے کہا کہ اے احمق : کیسے میں شک میں مبتلا ہوں ۔ میری تو خواھش ہے کہ میں علی علیہ السلام کے زمانے میں ہوتا تو اپنا ہاتھ ان کے { معاویہ اور اس کے ساتھیوں} خون سے اپنی تلوار کے ذریعے سے رنگین کرتا۔
ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عثمان الذھبی نے اپنی کتاب میزان الاعتدال فی نقد الرجال جلد3 ص 376 چاپ دارالکتاب بیروت میں لکھا ہے کہ
وروی أن قوما ذکروا معاویة عند شریک فقیل کان حلیما
فقال شریک لیس بحلیم من سفه الحق وقاتل علیا
لوگوں نے شریک کے ہاں معاویہ کا تذکرہ کیا ، اور کہا گیا کہ معاویہ حلیم انسان تھا تو شریک نے جواب دیا کہ وہ شخص حلیم نہیں جس کو حق کی معرفت نہ ہو اور مولا علی علیہ السلام سے لڑے۔
۱۷۔معاویہ، ابن حجر عسقلانی کی نظر میں:
علامہ ابن حجر عسقلانی صحیح بخاری کی شرح میں اسحاق بن راھویہ سے نقل کرتے ہیں کہ
لم یصح فی فضائل معاویہ شئ
یعنی معاویہ کے فضائل میں کوئی حدیث یا روایت صحیح نہیں ہے ۔
اور اسی صفحے پر یہ بھی لکھا ہے کہ
قد ورد فی فضائل معاویہ احادیث کثیرہ و لکن لیس فیھا ما یصح من طریق الاسناد
معاویہ کے فضائل میں احادیث زیادہ ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی سند کے اعتبار سے درست نہیں ہے۔[23]
ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب تھذیب التھذیب میں لکھتے ہیں کہ
کان بنو أمیة إذا سمعوا بمولود اسمه على قتلوه[24]
جب بنی امیہ کسی بچہ کے بارے میں سنتے تھے کہ اس کا نام علی ہے تو اس بچے کو قتل کرتے تھے ۔
صحیح بخاری میں جناب بخاری نے ایک باب معاویہ کے نام سے لکھا ہے کہ جس کو باب ذکر معاویہ کا نام دیا ہے اس کے بارے میں ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ
عبر البخاری فی هذه الترجمة بقوله ذکر ولم یقل فضیلة ولا منقبة لکون الفضیلة
کہ بخاری نے معاویہ کے بارے میں جو باب باندھا ہے وہ ذکر معاویہ کے نام سے ہے نہ کہ فضیلت معاویہ یا مناقب معاویہ کے نام سے۔ کیونکہ بخاری کے استاد اسحاق بن راھویہ نے کہا ہے کہ
عن إسحاق بن راهویه انه قال لم یصح فی فضائل معاویة شیء فهذه النکتة فی عدول البخاری عن التصریح بلفظ منقبة اعتمادا على قول شیخه[25]
معاویہ کے فضائل میں کوئی ایک فضیلت بھی صحیح نہیں ہے بخاری نے اپنے استاد کے قول پر اعتماد کرتے ہوئے مناقب کے لفظ کے بجائے "ذکر" کا لفظ استعمال کیا ہے ۔
۱۹۔معاویہ، ابن تیمیہ کی نظر میں:
تمام تعصب کے باوجود ابن تیمیہ نے یہ مانا ہے کہ معاویہ امام علی ابن ابی طالب کو گالیاں دلواتا تھا
ابنِ تیمیہ منہاج السنۃ میں تحریر کرتے ہیں:
بہر کیف سعد (بن ابی وقاص) والی حدیث کہ معاویہ نے انہیں حضرت علی کو برا بھلا و گالیاں دینے کا کہا تو انہوں نے انکار کر دیا، اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کی شان میں تین ایسی باتیں کیں،میں کبھی گالی و برا بھلا نہ کہوں۔ اگر ان میں سے مجھے ایک فضیلت بھی مل جاتی تو سرخ اونٹوں سے زیادہ عزیز ہوتی۔ یہ حدیث صحیح ہے، اسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔[26]
۲۰۔معاویہ، ابن ابی الحدید کی نظر میں :
اہل سنت عالم ابن ابی الحدید لکھتے ہیں : معاویہ کا ایک دوست تھا جس سے ملاقات کرنے کیلئے وہ روزانہ اس کے پاس جاتا تھا اور وہ معاویہ کا رازداربھی تھا و ہ کہتا ہے : حضرت علی (علیہ السلام) اور امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کی شہادت کے بعدجب معاویہ پورے جہان اسلام پر قابض ہوگیا تو میں نے اس سے کہا : معاویہ ! توجو چاہتا تھا وہ تجھے مل گیا اور پورے جہان اسلام پر قابض ہوگیاہے ، اب بنی ہاشم پر ظلم نہ کر اور حکم دے کہ آج کے بعد منبر سے علی پر لعنت نہ کی جائے ، معاویہ نے کہا : تم غلطی کر رہے ہو ! میں تو ایسا کام کرنا چاہتا ہوں جس سے گلدستہ اذان پر کوئی پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کا نام نہ لے ۔ لہذا مجھے اس وقت تک سکون نہیں ملے گا جب تک گلدستہ اذان سے سے محمد کا نام ختم نہ کردوں ۔ [27]
ایک اور جگہ پر معاویہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
معاویۃ مطعون فی دینہ عند شیوخنا رحمھم اللہ یرمی بالزنادقہ
معاویہ ہمارے علماء کے ہاں اس کے دین مین مطعون ہے کیونکہ ہمارے علمائ نے اس کو زنادقہ کی طرف نسبت دی ہے ۔ [28]
نیز یہ بھی فرمایا ہے کہ
معاویۃ عند اصحابنا مطعون فی دینہ منسوب الی الالحاد قد طعن فیہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
معاویہ ہمارے اصحاب کے ہاں مطعون ہے اس کے دین میں اس کو الحاد کی طرف نسبت دی گئی ہے او ر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے بھی طعن کیا ہے ۔[29]
[1] تاریخ طبری جلد ۳ ص ۸۰
[2] شرح نهج البلاغة ، ج 4 ص 18 ، وقعۃ صفین جلد ۱ ص ۲۱۵
[3] وقعۃ صفین جلد ۱ ص ۵۰۹
[4] تاریخ الأمم والملوک جلد ۳ ص ۱۳۱ الناشر : دار الکتب العلمیة - بیروتالطبعة الأولى ، 1407
[5] الطبری محمد بن جریر تاریخ الرسل والملوک ج5 ص279، دار المعارف ، الکامل فی التاریخ جلد ۳ ص ۳۳۷ ، المنتظم جلد ۲ ص ۴۰۸
[6] البلاذری، أحمد بن یحیی بن جابر (متوفاى279هـ)، أنساب الأشراف، ج 2 ص 121 ،
[7] ھیثمی مجمع الزوائد و منھج الفوائد جلد اول صفحہ ۳۱۳ ، تاریخ ابن ابی خیثمہ جلد ۲ ص ۹۹۱
[8] الطبری تاریخ الأمم والملوک جلد ۳ ص ۸۳ دار الکتب العلمیة – بیروت الطبعة الأولى ، 1407
[9] مروج الذھب جلد ۱ صفحہ ۳۵۲
[10] تاریخ الأمم والملوک جلد ۳ ص ۱۳۱ محمد بن جریر الطبری أبو جعفر الناشر : دار الکتب العلمیة – بیروت الطبعة الأولى ، 1407
[11] ابن جوزی ، کتاب المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم جلد ۵ صفحہ ؟؟؟؟ سیوطی ، تاریخ الخلفاء ص ۱۵۹ دار ابن حزم بیروت لبنان
[13] انساب الاشراف باب جواب الحسین جلد ۲ ص ۱۲۱
[14] تھذیب التھذیب جلد ۱ ص ۲۹۸
[15] میزان الاعتدال ج ۲ ص ۶۱۰
[16] شرح المقاصد فی علم الکلام جلد 2 ص 306
[17] رسائل الجاحظ ص ۲۴۱ باب معاویہ و عام الجماعۃ
[18] رسائل الجاحظ ص ۳۶۵
[19] رسائل الجاحظ صفحہ ۷۰
[20] شرح معانی الاثار المعروف الطحاوی شریف تالیف ابی جعفر احمد بن محمدالازدی الطحاوی ، مترجم مولانا شمس الدین ۔ جلد ۱ صفحہ ۸۲۸ : ناشر مکتبہ العلم اردو بازار لاھور پاکستان
[21] تاریخ یعقوبی جلد ۱ ص ۱۹۷ مکتبہ شاملہ کے مطابق
[22] إبن حجر الهیتمی الصواعق المحرقة جلد ۲ ص ۲۵۴ الناشر : مؤسسة الرسالة – بیروت الطبعة الأولى ، 1997تحقیق : عبدالرحمن بن عبدالله الترکی وکامل محمد الخراط ، تاریخ یعقوبی الناشر منشورات الشریف الرضی الطبعة اولی
[23] فتح الباری جلد 7 صفحہ 131
[24] تهذیب التهذیب جلد ۷ ص ۲۸۰ أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی دار الفکر –بیروت الطبعة الأولى ، 1404 - 1984
[25] فتح الباری شرح صحیح البخاری جلد ۷ ص ۱۰۴ دار المعرفة - بیروت ، 1379
[26] منہاج السنۃ، جلد ۵، صفحہ ۴۲
[27] شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۵، ص ۱۳۰
[28] شرح نھج البلاغہ جلد ۱ ص ۳۴۰ تحقیق محمد ابو الفضل ابراھیم
[29] شرح نھج البلاغہ جلد ۱۰ ص ۱۰۱