سید ابوعماد حیدری

اہل سنت اور وھابیت کے شبھات کے جوابات، مذھب اہل بیت کی حقانیت ، کتب سے سکین پیجز

سید ابوعماد حیدری

اہل سنت اور وھابیت کے شبھات کے جوابات، مذھب اہل بیت کی حقانیت ، کتب سے سکین پیجز

آخرین نظرات

معاویہ کے دو غیر حقیقی القاب کے بارے میں بحث

معاویہ کاتب وحی

 

وھابی جب بھی معاویہ کے مناقب بیان کرنا شروع کرتے ہیں تو ہمیشہ کاتب وحی کا لقب دےکر معاویہ کے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے اور اس کی بے شمار گناہوں کو پوشیدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور  لفظ کاتب وحی اس لئے استعمال کرتے ہیں تاکہ کوئی معاویہ کے کرتوتوں پر اعتراض نہ کرے اور اگر کوئی اعتراض کرے بھی تو فورا جواب دے کہ معاویہ تو کاتب وحی تھا قرآن لکھتا تھا کیا ہوسکتا ہے کہ کوئی کاتب وحی ہو اور وہ جھنم جائے؟ بلکہ اس کی ساری غلطیاں اجتھادی ہیں اور اللہ تبارک و تعالی اس کی غلطیوں کے عوض اس کو اجر دے گا۔

لہذا اس لئے ضرورت محسوس کی کہ اھل سنت کی طرف سے  معاویہ کے لئے اس خود ساختہ لقب کو واضح کیا جائے ۔

 

اھل سنت کے ہاں معاویہ کے کاتب وحی ہونے پر سب سے اہم ترین منبع کہ جہاں معاویہ کو کاتب وحی کا لقب دیا گیا ہے وہ مسلم نیشاپوری کی روایت ہے جو کہ اس نے اپنی صحیح میں لکھی ہے ،

وہ روایت یہ ہے۔

(2501) حدثنى عَبَّاسُ بْنُ عَبْد العَظِیم العَنْبَرىُّ وَأحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ المَعْقِرِى ، قَالا : حَدثنا النَّضْرُ - وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدَ الیَمَامِى – حَدَثنا عکْرِمَةُ ، حَدثنا أبُو زُمَیْلٍ ، حَدثنی ابْنُ عبَّاس ، قَالَ : کَانَ المُسْلًمُونَ لا یَنْظُرونَ إِلَىَ ابِى سُفْیَانَ وَلاَ یُقَاعِدُونَهُ .

فَقَالَ للنَّبِىِّ ( صلى الله علیه وسلم ) ! : یَا نَبِىَّ اللّهِ ، ثَلاث! أَعْطِنِیهِنَّ .

قَالَ : (نَعَمْ) .

قَالَ : عِنْدى أحْسَنُ العَرَب وَأجمَلُهُ ، أُمُّ حَبِیَبةَ بِنْتُ أَبِى سُفْیَانَ ، ازَوِّجُکَهَا .

قَالَ : (نَعَمْ) .

قَالً : وَمُعَاوِیَةُ ، تَجعَلُهُ کَاتئا بَیْنَ یَلَیْکَ .

قَالَ : (نَعَمْ (.

قَالَ : وَتُؤَمِّرُنِى حَتَى اقَاتِلَ اهُفارَ ، کَمَا کنْتُ أَقَاتِلُ المُسلِمِینَ .

قَالَ : (نَعَمْ) .

قَالَ أَبُو زُمَیْلٍ : وَلَوْلا أنَّهُ طَلَبَ ذَلِکَ مِنَ الئبِىِّ ( صلى الله علیه وسلم ) مَا أَعْطَاهُ ذَلِکَ ؛ لأنهُ لَمْ یَکُنْ یُسْالُ شَیْئًا إِلا قَالَ : (نَعَمْ) .[1]

ابن عباس سے روایت ہے کہ مسلمان ابوسفیان کا احترام نہیں کرتے تھے اور اس کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے ۔ تو ابو سفیان نے رسول اللہ سے کہا کہ یا نبی اللہ میں آپ سے تین چیزوں کا طلبگار ہوں ۔  رسول اللہ نے فرمایا کہو ۔ ابوسفیان نے کہا کہ میرے پاس عرب کی خوبصورت ترین عورت ہے میں اس کی شادی آپ سےکراتا ہوں ۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ قبول ہے ۔ اور معاویہ کو اپنے لئے کاتب قرار دو ۔ آپ ص نے فرمایا کہ ٹھیک ہے ۔ اور مجھے اجازت دو کہ میں کفار سے لڑوں یعنی جھاد پر جاوں جس طرح باقی مسلمان لڑتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے ۔

ابو زمیل نے کہا کہ اگر ابوسفیان رسول اللہ سے تقاضا نہ کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ اس کو عطا نہ کرتے اس لئے کہ رسول اللہ کسی سوال کو رد نہیں کرتے تھے ۔

اب نظر ڈالتے ہیں کہ یہ روایت کہاں تک حقیقت کے مطابق ہے۔

صحیح مسلم کا إکمال المعلم شرح صحیح مسلم   کے نام سے شرح لکھنے والے قاضی عیاض نے اس روایت کی شرح میں یوں لکھا ہے کہ

وقول فبى سفیان حین سأل النبى - علیه السلام - بعد إسلامه - أن یزوجه ابنته أم حبیبة ، کذا ذکره مسلم من روایة أبى زمیل عن ابن عباس .والمعروف أن تزویج النبى ( صلى الله علیه وسلم ) لها کان قبل الفتح .

ابو سفیان کا رسول اللہ سے اپنی بیٹی ام حبیبہ کی شادی کے بارے میں سوال اس  کے اسلام لانے کے بعد کا ہے جیسا کہ مسلم نے ابی زمیل کی روایت کہ جو ابن عباس سے ہے میں ذکر کیا ہے ۔ حالانکہ معروف یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی ام حبیبہ سے شادی فتح مکہ سے پہلے ہوئی تھی۔

 

جناب نووی نے شرح صحیح مسلم میں اس روایت کے ذیل میں کہا ہے کہ

 واعلم أن هذا الحدیث من الاحادیث المشهورةبالاشکال ووجه الاشکال أن أبا سفیان أنما أسلم یوم فتح مکة سنة ثمان من الهجرة وهذا مشهور لا خلاف فیه وکان النبی صلى الله علیه و سلم قد تزوج أم حبیبة قبل ذلک بزمان طویل

قال أبو عبیدة وخلیفة بن خیاط وبن البرقی والجمهور تزوجها سنة ست وقیل سنة سبع

 

قال القاضی والذی فی مسلم هنا أنه زوجها أبو سفیان غریب جدا وخبرها مع أبی سفیان حین ورد المدینة فی حال کفره مشهور

وقال بن حزم هذا الحدیث وهم من بعض الرواة لانه لا خلاف بین الناس أن النبی صلى الله علیه و سلم تزوج أم حبیبة قبل الفتح بدهر وهی بأرض الحبشة وأبوها کافر وفی روایة عن بن حزم ایضا أنه قال موضوع قال والآفة فیه من عکرمة بن عمار الراوی عن أبی زمیل

 

یہ حدیث ان مشہور احادیث میں سے ہے جو مورد اشکال ہیں اور وہ اشکال یہ ہے کہ یقینا ابوسفیان نے فتح مکہ کے دن آٹھ ہجری کو اسلام قبول کیا تھا ۔ یہی مشہور ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ اور بنی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے ام حبیبہ سے شادی فتح مکہ سے بہت پہلے کی تھی ۔

ابوعبیدہ، خلیفہ بن خیاط ، ابن برقی  اور جمھور نے کہا ہے کہ رسول اللہ نے ام حبیبہ سے شادی چھ ہجری کو کی تھی اور کہا گیا ہے کہ سات ہجری کو کی تھی ۔

قاضی نے کہا ہے کہ جو کچھ مسلم میں وارد ہوا ہے کہ ابوسفیان نے اپنی بیٹی کی شادی کرائی تھی انتہائی عجیب و غریب ہے کیونکہ ابوسفیان کا حالت کفر میں مدینے آنا مشہور ہے ۔

ابن حزم نے کہا ہے کہ یہ حدیث بعض راویوں کا وھم ہے  کیونکہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے ام حبیبہ سے شادی فتح مکہ سے کافی  پہلے کی تھی اور وہ اس وقت حبشہ میں تھی اور اس کا باپ اس وقت کافر تھا ۔ ابن حزم کی ایک دوسری روایت میں بھی ہے کہ یہ حدیث جعلی ہے کیونکہ ابن حزم کی مشکل اس حدیث کے راوی سے ہے جو کہ عکرمہ بن عمار ہے کہ جس نے ابی زمیل سے یہ روایت کی ہے۔

 

شمس الدین الذھبی نے میزان الاعتدال میں لکھا ہے کہ

وفی صحیح مسلم قد ساق له أصلا منکرا عن سماک الحنفی عن ابن عباس فی الثلاثة التی طلبها أبو سفیان وثلاثة أحادیث أخر بالإسناد[2]

یہ حدیث کہ جس میں ابو سفیان نے طلب کی ہے  اور اس کے بعد والے تین حدیثیں منکرات میں سے ہیں۔

 

 

 

ابن تیمیہ کے شاگرد اور اھل سنت کے ہاں شیخ إمام عالم علامة  کے القاب پانے والے شمس الدین أبو عبد الله محمد بن أبی بکر بن أیوب الزرعی الحنبلی  المعروف بابن قیم الجوزی نے اپنی کتاب  جلاء الأفهام فی فضل الصلاة والسلام على محمد خیر الأنام میں اس حدیث کے بارے میں تفصلی گفتگو کی ہے ۔ لکھا ہے کہ

 

وقد أشکل هذا الحدیث على الناس فإن أم حبیبة تزوجها رسول الله قبل إسلام أبی سفیان کما تقدم زوجها إیاه النجاشی ثم قدمت على رسول الله قبل أن یسلم أبوها فکیف یقول بعد الفتح أزوجک أم حبیبة فقالت طائفة هذا الحدیث کذب لا أصل له قال ابن حزم کذبه عکرمة بن عمار وحمل علیه

 واستعظم ذلک آخرون وقالوا أنى یکون فی صحیح مسلم حدیث موضوع وإنما وجه الحدیث أنه طلب من النبی أن یجدد له العقد على ابنته لیبقى له وجه بین المسلمین وهذا ضعیف فإن فی الحدیث أن النبی وعده وهو الصادق الوعد ولم ینقل أحد قط أنه جدد العقد على أم حبیبة ومثل هذا لو کان لنقل ۔۔۔۔فحیث لم ینقله أحد قط علم أنه لم یقع

ولم یزد القاضی عیاض على استشکاله فقال والذی وقع فی مسلم من هذا غریب جدا عند أهل الخبر وخبرها مع أبی سفیان عند وروده إلى المدینة بسبب تجدید الصلح ودخوله علیها مشهور

 

 

وقالت طائفة لم یتفق أهل النقل على أن النبی تزوج أم حبیبة رضی الله تعالى عنها وهی بأرض الحبشة بل قد ذکر بعضهم أن النبی تزوجها بالمدینة بعد قدومها من الحبشة حکاه أبو محمد المنذری وهذا من أضعف الأجوبة لوجوه

أحدها أن هذا القول لا یعرف به أثر صحیح ولا حسن ولا حکاه أحد ممن یعتمد على نقله

 الثانی أن قصة تزویج أم حبیبة وهی بأرض الحبشة قد جرت مجرى التواتر کتزویجه خدیجة بمکة وعائشة بمکة وبنائه بعائشة بالمدینة وتزویجه حفصة بالمدینة وصفیة عام خیبر ومیمونة فی عمرة القضیة ومثل هذه الوقائع شهرتها عند أهل العلم موجبة لقطعهم بها فلو جاء سند ظاهره الصحة یخالفها ۔۔۔۔۔لم یلتفتوا إلیه

 الثالث أنه من المعلوم عند أهل العلم بسیرة النبی وأحواله أنه لم یتأخر نکاح أم حبیبة إلى بعد فتح مکة ولا یقع ذلک فی وهم أحد منهم أصلا

الرابع أن أبا سفیان لما قدم المدینة دخل على ابنته أم حبیبة فلما ذهب لیجلس على فراش رسول الله طوته عنه فقال یا بنیة ما أدری أرغبت بی عن هذا الفراش أم رغبت به عنی قالت بل هو فراش رسول الله قال والله لقد أصابک یا بنیة بعدی شر وهذا مشهور عند أهل المغازی والسیر

الخامس أن أم حبیبة کانت من مهاجرات الحبشة مع زوجها عبید الله بن جحش ثم تنصر زوجها وهلک بأرض الحبشة ثم قدمت هی على رسول الله من الحبشة وکانت عنده ولم تکن عند أبیها وهذا مما لا یشک فیه أحد من أهل النقل ومن المعلوم أن أباها لم یسلم إلا عام الفتح فکیف یقول عندی أجمل العرب أزوجک إیاها وهل کانت عنده بعد هجرتها وإسلامها قط فإن کان قال له هذا القول قبل إسلامه فهو محال فإنها لم تکن عنده ولم یکن له ولایة علیها أصلا وإن کان قاله بعد إسلامه فمحال أیضا لأن نکاحها لم یتأخر إلى بعد الفتح

 

 وقال أبو الفرج بن الجوزی فی هذا الحدیث هو وهم من بعض الرواة لا شک فیه ولا تردد وقد اتهموا به عکرمة بن عمار راوی الحدیث قال وإنما قلنا إن هذا وهم لأن أهل التاریخ أجمعوا على أن أم حبیبة کانت تحت عبید الله بن جحش وولدت له وهاجر بها وهما مسلمان إلى أرض الحبشة ثم تنصر وثبتت أم حبیبة على دینها فبعث رسول الله إلى النجاشی یخطبها علیه فزوجه إیاها وأصدقها عن رسول الله أربعة آلاف درهم وذلک فی سنة سبع من الهجرة وجاء أبو سفیان فی زمن الهدنة فدخل علیها فثنت بساط رسول الله حتى لا یجلس علیه ولا خلاف أن أبا سفیان ومعاویة أسلما فی فتح مکة سنة ثمان

وقال أبو محمد بن حزم هذا حدیث موضوع لا شک فی وضعه والآفة فیه من عکرمة بن عمار ولم یختلف فی أن رسول الله تزوجها قبل الفتح بدهر وأبوها کافر

وبالجملة فهذه الوجوه وامثالها مما یعلم بطلانها واستکراهها وغثاثتها ولا تفید الناظر فیها علما بل النظر فیها والتعرض لابطالها من منارات العلم والله تعالى اعلم بالصواب

 فالصواب أن الحدیث غیر محفوظ بل وقع فیه تخلیط والله اعلم

یہ حدیث عوام کے ہاں مورد اشکال و اعتراض ہے کیونکہ ام حبیبہ کا نکاح رسول اللہ سے ابو سفیان کے اسلام لانے سے پہلے ہوا ہے  اور یہ شادی حبشہ میں نجاشی نے کروائی تھی اور ام حبیبہ ابوسفیان کا مسلمان ہونے سے پہلے  رسول اللہ کے پا س آئی تھی ۔ پس کیسے ممکن ہے کہ  ابوسفیان رسول اللہ کو فتح مکہ کے بعد کہے کہ میں ام حبیبہ کی شادی آپ سے کراتا ہوں { یعنی یہ ممکن ہی نہیں کہ شادی فتح مکہ سے پہلے ہوئی ہو اور ابو سفیان نے فتح مکہ کے بعد آکر رسول اللہ کو یہ کہا ہو} اور ایک جماعت نے کہا ہے کہ یہ حدیث جھوٹی ہے اور ابن حزم نے کہا ہے کہ یہ عکرمہ بن عمار نے رسول اللہ پر جھوٹ باندھا ہے۔

اور بعض نے آکر اس حدیث کا دفاع کیا ہے کہ صحیح مسلم میں موضوع { من گھڑت } حدیث نہیں ہوسکتی اور اس حدیث کی توجیہ یہ کی ہے کہ ابوسفیان نے آکر رسول اللہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس کی بیٹی سے دوبارہ نکاح کرے تاکہ مسلمانوں کے درمیان اس کی عزت ہو ۔ لیکن یہ توجیہ بھی ضعیف ہے کیونکہ حدیث میں نبی اکرم نے ابوسفیان کے ساتھ وعدہ کیا ہے اور نبی اکرم صادق الوعد ہیں { یعنی رسول اللہ نے ابوسفیان کی درخواست کو قبول کیا تھا} اور کسی نے نقل نہیں کیا ہے کہ رسول اللہ نے ام حبیبہ سے دوبارہ نکاح کیا ہو اور اگر ایسا ہوتا تو ضرور نقل ہوتا حالانکہ کسی نے نقل نہیں کیا ہے پس یہ واقعہ حقیقت نہیں رکھتا۔

جب کہ قاضی عیاض نے فقط یہی اعتراض کیا ہے کہ مسلم میں یہ حدیث اھل خبر کے ہاں  انتہائی عجیب و غریب ہے کیونکہ ابو سفیان کہ مدینہ آنا صلح کی تجدید کے لئے اور پھر ام حبیبہ کے پاس جانا مشہور ہے { تجدید صلح کے وقت ابو سفیان کافر تھا کیونکہ اس وقت مکہ فتح نہیں ہوا تھا}

اور ایک جماعت نے  کہا ہے کہ محدثین و مورخین نبی اکرم کی ام حبیبہ سے شادی حبشہ میں ہونے پر متفق نہیں ہیں  بلکہ بعض نے ذکر کیا ہے کہ یہ شادی مدینہ میں ہوئی تھی اس وقت جب ام حبیبہ حبشہ سے مدینہ آئی اور یہ کہنے والا ابو محمد منذری ہے

یہ قول بھی ضعیف ہے اور اس کے ضعیف ہونے کے یہ دلائل ہیں ۔

پہلا جواب  : اس توجیہ کو کہیں پر نہیں دیکھا گیا اور نہ ہی ایک مورد اطمینان شخص نے نقل کیا ہے

دوسرا جواب : ام حبیبہ کی حبشہ میں شادی تواتر سے ثابت ہے جیسا کہ خدیجہ اور عائشہ کی مکہ میں اور حفصہ کی مدینہ میں اور صفیہ کی خیبر کے سال { جس سال خیبر فتح ہوا} ۔۔۔۔۔۔ اور یہ اھل علم کے ہاں اتنا مشہور ہے کہ اس کی شہرت قطع اور یقین تک پہنچ گیا ہے  اگر کوئی خبر اس کے خلاف آئے تو اس کی طرف توجہ بھی نہیں کرنا چاھئے 

تیسرا جواب :  سیرت النبی کے علماء کو یہ بات واضح اور روشن ہے کہ ام حبیبہ کا نکاح فتح مکہ کے بعد نہیں ہوا ہے  اور اس یقینی بات کو کسی ایک شخص کا وھم رد نہیں کرسکتا ۔

چوتھا جواب:  جب ابو سفیان مدینے آیا تو وہ اپنی بیٹی ام حبیبہ کے گھر گیا اور جب چاھا کہ رسول اللہ کی مسند پر بیٹھے تو ام حبیبہ نے مسند رسول کو ہٹایا تو ابو سفیان نے کہا کہ بیٹی میں نہیں جانتا  یہ مسند میرے شایان شان نہیں یا میں اس مسند کا لائق نہیں ؟ تو ام حبیبہ نے جواب دیا کہ یہ رسول اللہ کی مسند ہے ۔ { یعنی تم کافر ہو اور تم اس کے لائق نہیں ہو} تو ابو سفیان نے کہا کہ تم میرے بعد شر میں چلی گئی ہو۔

اور یہ واقعہ علماء سیرت کے ہاں مشہور ہے۔

پانچواں جواب : ام حبیبہ اور اس کا  شوھر عبید اللہ بن جحش حبشہ کے مہاجروں میں سےتھے اور اس کا شوھر عیسائی ہوگیا تھا اور حبشہ میں ہی مرگیا تھا پھر ام حبیبہ حبشہ سے رسول اللہ کے پاس آئی تھی نہ کہ ابوسفیان کے گھر ۔ اور اس ماجرہ میں کسی کو کوئی شک نہیں ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ ابوسفیان نے فتح مکہ کے دوران اسلام لایا تو پھر کیسے ہوسکتا ہے کہ ابوسفیان کہے کہ میرے پاس عرب کی حسین ترین عورت ہے میں اسے آپ کے نکاح میں دیتا ہوں۔

 کیا ام حبیبہ  حبشہ کے بعد اور اسکے مسلمان ہونے سے پہلے اپنے ابوسفیان کے گھر تھی ؟ جو کہ محال ہے کیونکہ ام حبیبہ اس کے پاس نہیں تھی اور نہ ہی ابوسفیان کو ام حبیبہ پر ولایت حاصل تھی اور اگر کوئی یہ کہے کہ ابو سفیان کے اسلام لانے کے بعد ام حبیبہ اس کے پاس تھی تو یہ بھی ناممکن ہے کیونکہ ام حبیہ کا رسول اللہ سے نکاح فتح مکہ کے بعد نہیں ہوئی تھی ۔

ابو فرج بن جوزی نے کہا ہے کہ یہ حدیث بعض راوی کی طرف سے ایک وھم ہے  یعنی یہ ایک بلا شبہ اشتباہ ہےجو کہ عکرمہ بن عمار سے ہوا ہے کیونکہ مورخین کا اجماع ہے کہ ام حبیبہ عبد اللہ بن جحش کی بیوی تھی اور اس سے ایک اولاد بھی تھی اور دونوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور دونوں مسلمان تھے پھر عبد اللہ بن جحش عیسائی ہوا لیکن ام حبیبہ اسلام پر باقی رہی ۔ رسول اللہ نے نجاشی کو پیغام بھیجا کہ ام حبیبہ کا نکاح مجھ سے کرادو اور مہر میں چہار ہزار درہم رکھے ۔ اور یہ ساتویں ھجری کا واقعہ ہے اور ابو سفیان صلح کے زمانے میں مدینہ آیا تھا اور ام حبیبہ کے گھر گیا تو ام حبیبہ نے مسند رسول ہٹا دی تاکہ ابوسفیان اس پر نہ بیٹھے ۔  ابوسفیان اور معاویہ دوںوں کا فتح مکہ کے دوران اسلام لانے میں کوئی اختلاف نہیں ، 

ابومحمد بن حزم نے کہا کہ بلا شک یہ حدیث موضوع ہے  اور من گھڑت ہونے کی وجہ عکرمہ بن عمار ہے ۔ اور رسول اللہ کا فتح مکہ سے کافی عرصہ پہلے ام حبیبہ سے شادی کرنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور ام حبیبہ کی شادی کے وقت ابو سفیان کافر تھا۔

لہذا وہ تمام توجیھات کہ جو اس حدیث کے بارے میں ہیں تمام کے تمام باطل ہیں اور بے بنیاد ہیں اور علمی لحاظ سے اس کی کوئی قیمت نہیں ۔

نتیجہ یہ کہ یہ حدیث محفوظ نہیں اور اس میں اور دیگر باتوں کو مخلوط کیا ہے۔[3]

 

معاویہ کو کاتب وحی لکھنے والی روایات میں سے اہم ترین روایت مسلم سے پیش کی گئی اور اس روایت کی رد بھی بیان ہوئی۔

اھل سنت جن روایتوں سے استدلال کرتے ہیں کہ معاویہ کاتب وحی تھا اے کاش ان روایات کے بارے میں کچھ بحث کرتے اور تعصب سے کام نہ لیتے ۔ اھل سنت نے کبھی بھی زید بن ثابت کے مناقب پر کوئی کتاب نہیں لکھی اور نہ ہی انہوں نے اپنے تقریروں اور خطبوں میں کبھی زید بن ثابت کا تذکرہ کیا ہے حالانکہ اھل سنت کے منابع کے مطابق زید بن ثابت اور امام علی علیہ السلام یقینا کاتب وحی ہیں اور یہ اھل سنت کی کتابوں سے ثابت ہے اور اھل سنت ان کو مانتے ہیں کہ یہ دونوں کاتب وحی ہیں لیکن بڑھ چڑھ کر کاتب وحی کا لفظ فقط معاویہ کے لئے استعمال کرتے ہیں مناقب معاویہ پر اھل سنت نے جو کتابیں لکھی ہے ان کو پڑھنے سے انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ شاید معاویہ رسول اللہ کے ساتھ غار حرا میں بھی موجود  تھا اور وحی لکھتا تھا لیکن اھل سنت کے اصل منابع میں معاویہ کا کاتب وحی ہونا مردود ہے جیسا ابن جوزی اور باقی علما نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ ابو سفیان نے جو تقاضا کیا وہ اسلام لانے کے بعد کیا ہے اور تین تقاضوں میں سے ایک تقاضا ام حبیبہ کی نکاح کا ہے کہ جس سے صاف ظاھر ہوتا ہے کہ یہ حدیث من گھڑت ہے کیونکہ ام حبیبہ کا رسول اللہ کے ساتھ نکاح فتح مکہ سے پہلے ہوا تھا اور ابو سفیان فتح مکہ پر رسول اللہ کے سامنے تسلیم ہوا ہے ۔

اب کوئی بھی اگر تعصب کی عینک اتار لیں تو اس کو معلوم ہوگا کہ یہ حدیث موضوع ہے ۔

اور اگر اس حدیث کو بالفرض درست مان لی جائے تو بھی اس سے معاویہ کے لئے کوئی فضیلت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ اسی حدیث میں خود راوی نے ذکر کیا ہے کہ اگر ابو سفیان رسول اللہ سے مطالبہ نہ کرتا تو رسول اللہ کبھی بھی ابو سفیان کے خواھش پوری نہ کرتے ۔ یعنی معاویہ کو کبھی بھی کاتب قرار نہ دیتے ، لیکن یہ تو رسول اللہ کی عادت تھی کہ رسول اللہ کسی کے مطالبے اور سوال کو رد نہیں کرتے تھے۔

 

کاتب وحی اور ذھبی و ابن حجر عسقلانی کی نظر:

 

شمس الدین الذھبی نے اپنی کتاب سیر اعلام النبلا میں لکھا ہےکہ

ونقل المفضل الغلابی عن أبی الحسن الکوفی قال کان زید بن ثابت کاتب الوحی وکان معاویة کاتبا فیما بین النبی صلى الله علیه وسلم وبین العرب[4]

مفضل الغلابی نے ابی الحسن کوفی سے نقل کیا ہے کہ زید بن ثابت کاتب وحی تھے اور معاویہ عربوں کو  رسول اللہ کے  خطوط لکھتا تھا

یعنی معاویہ کا کاتب وحی ہونا ثابت نہیں ۔

 

ابن حجر عسقلانی نے  لکھا  ہے  کہ

وقال المدائنی کان زید بن ثابت یکتب الوحی وکان معاویة یکتب للنبی صلى الله علیه و سلم فیما بینه وبین العرب [5]

مدائنی کہتے ہیں کہ زید بن ثابت وحی لکھا کرتے تھے اور معاویہ عربوں کو رسول اللہ کا خط لکھتا تھا ۔

 پس معلوم ہوا کہ ابن حجر عسقلانی کے ہاں بھی معاویہ کاتب وحی نہیں ہے ۔

 

اھل سنت کے مطابق کاتب وحی کی فضیلت:

                                                                                                           ابن حجر عسقلانی اور ذھبی نے جو نظر دی ہے اس کے مطابق معاویہ کاتب وحی نہیں بلکہ رسول اللہ کی طرف سے عربوں کو خط لکھا کرتا تھا ۔ ان دو عالموں کے مطابق معاویہ کاتب وحی نہیں ۔ اب وھابیوں کو معاویہ کے اور القاب کے بارے میں سوچنا چاھئیے کیونکہ معاویہ کا لقب تو سراسر باطل نکلا اور جو حدیث ہے وہ بھی من گھڑت ہے ۔

لیکن ہم اگر فرض کرے  کہ معاویہ کاتب وحی تھا ۔ تو ایسی صورت میں ایک اور سوال ذھن میں اٹھتا ہے کہ کیا اھل سنت کے ہاں کتابت وحی انسان کو معصوم بناتی ہے  ؟

جواب یہ ہے کہ اھل سنت کےہاں کتابت وحی انسان کو معصوم نہیں بناتی کیونکہ ہمارے پاس بہت سارے شواھد ہیں کہ جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ کتابت وحی سے انسان کے گناہ معاف نہیں ہوتے اور عذاب میں بھی کوئی کمی نہیں آتی ۔

مثلا عبد اللہ بن ابی سرح اھل سنت کے اتفاقی قول کے مطابق یہ کاتب وحی تھا لیکن پھر یہ مرتد ہوا اور کفار و مشرکین سے جا ملا ۔

جیسا کہ علامہ سمرقندی نے اپنی تفسیر بحر العلوم میں لکھا ہے کہ۔

فکان النبی صلى الله علیه وسلم إذا أملى علیه { سَمِیعاً عَلِیماً } یکتب علیماً حکیماً . وإذا أملى علیه علیماً حکیماً ، کتب هو سمیعاً بصیراً وشکّ وقال : إن کان محمد صلى الله علیه وسلم یوحى إلیه فقد أوحی إلیّ ، وإن کان ینزل إلیه فقد أنزل إلیّ مثل ما أنزل إلیه فلحق بالمشرکین وکفر[6]

 

کہ جب نبی اکرم سمیعا علیما کا املا لکھواتے تھے تو عبد اللہ بن ابی سرح علیما حکیما لکھتا تھا اور جب علیما حکیما لکھواتے تھے تو وہ سمیعا بصیرا لکھتا تھا اور کہتا تھا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ پر وحی نازل ہوتی ہے تو مجھ پر بھی وحی نازل ہوتی ہے ۔ اور وہ مشرکین اور کفار سے ملحق ہوا ۔

 

پس عبد اللہ بن ابی سرح بھی ایک کاتب وحی تھا لیکن کفار و مشرکین سے جا ملا اور کافر و مشرک ہوا ۔ اب اسی کاتب وحی کے بارے میں رسول اللہ کا کیا قول ہے ملاحظہ فرمائیں ۔

مصنف میں ابن ابی شیبہ نے  یہ حدیث ذکر کی ہے کہ

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُفَضَّلٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ ، قَالَ : زَعَمَ السُّدِّیُّ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیهِ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ فَتْحِ مَکَّةَ أَمَّنَ رَسُولُ اللهِ ( النَّاسَ إلاَّ أَرْبَعَةَ نَفَرٍ وَامْرَأَتَیْنِ ، وَقَالَ : اُقْتُلُوهُمْ وَإِنْ وَجَدْتُمُوهُمْ مُتَعَلِّقِینَ بِأَسْتَارِ الْکَعْبَةِ : عِکْرِمَةَ بْنَ أَبِی جَهْلٍ ، وَعَبْدَ اللهِ بْنَ خَطَلٍ , وَمِقْیَسَ بْنَ صُبَابَةَ ، وَعَبْدَ اللهِ بْنَ سَعْدِ بْنِ أَبِی سَرْحٍ ,

فتح مکہ پر رسول اللہ نے سب کو امان دیا سوائے چار آدمیوں اور دو عورتوں کے ، کہا کہ جہاں بھی ان کو پاو قتل کردو چاھے یہ غلاف کعبہ میں کیوں نہ چھپے ہوں ۔ عکرمہ بن ابو جھل ، عبداللہ بن حنظل ، مقیس بن صبابہ، اور عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح

اور یہ حدیث اس کے علاوہ بھی اھل سنت کے بہت سارے منابع میں ذکر ہے ۔

عبد اللہ بن ابی سرح بھی کاتب وحی تھا لیکن رسول اللہ نے اس کے قتل کا حکم دیا ۔

 

اور صحیح مسلم میں ایک حدیث کتاب صفات المنافقین و احکامہم میں آئی ہے کہ رسول اللہ کے ایک کاتب کو اس کے اعمال کی وجہ سے زمین نے قبول نہیں کیا ۔

حدثنی محمد بن رَافِعٍ حدثنا أبو النَّضْرِ حدثنا سُلَیْمَانُ وهو بن الْمُغِیرَةِ عن ثَابِتٍ عن أَنَسِ بن مَالِکٍ قال کان مِنَّا رَجُلٌ من بَنِی النَّجَّارِ قد قَرَأَ الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ وکان یَکْتُبُ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله علیه وسلم فَانْطَلَقَ هَارِبًا حتى لَحِقَ بِأَهْلِ الْکِتَابِ قال فَرَفَعُوهُ قالوا هذا قد کان یَکْتُبُ لِمُحَمَّدٍ فَأُعْجِبُوا بِهِ فما لَبِثَ أَنْ قَصَمَ الله عُنُقَهُ فِیهِمْ فَحَفَرُوا له فَوَارَوْهُ فَأَصْبَحَتْ الْأَرْضُ قد نَبَذَتْهُ على وَجْهِهَا ثُمَّ عَادُوا فَحَفَرُوا له فَوَارَوْهُ فَأَصْبَحَتْ الْأَرْضُ قد بَذَتْهُ على وَجْهِهَا ثُمَّ عَادُوا فَحَفَرُوا له فَوَارَوْهُ فَأَصْبَحَتْ الْأَرْضُ قد نَبَذَتْهُ على وَجْهِهَا فَتَرَکُوهُ مَنْبُوذًا

انس بن مالک کہتے ہیں:بنو  نجار کا ایک شخص جس نے سورہ بقرہ اور آل عمران کو پڑھا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ کے لئےلکھا ، بھاگ گیا اور اہل کتاب سے جا ملا اہل کتاب کا اس شخص کو پناہ دینا فائدہ مند تھا اسی لئے اسکا احترام کرتے اور اسے عزت دیتے تھے کچھ عرصے میں ہی اس کا انتقال ہو جاتا ہے قبر بنائی جاتی ہے اور اسے دفن کر دیتے ہیں  لیکن  لاش فورا باہر واپس آجاتی در حقیقت اسکی لاش کو زمین قبول نہیں کر رہی تھی  تین مرتبہ کوشش کی گئی لیکن ناکام ہوئے اور لاش کو ایسے ہی چھوڑ دیا۔

 

پس ہمیں معلوم ہوا کہ کاتب وحی ہونا انسان کو گناہوں سے پاک نہیں کرتا ۔ کتابت وحی نے عبد اللہ بن ابی سرح کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا کیونکہ وہ رسول اللہ کا دشمن تھا اور رسول اللہ نے خود اس کے قتل کا حکم دیا ۔

بلکہ تاریخ نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ شروع شروع میں مسلمان کاتبین وحی کم تھے تو رسول اللہ وحی کو کچھ کافروں سے لکھواتے تھے۔

اب سوال یہ ہے ۔

  • کیا کاتب وحی ہونا اجازت دیتا ہےکہ خلیفہ راشد کے خلاف بغاوت کرے اور خلیفہ راشد سے جنگ کے لئے لوگوں کو میدان میں لائے؟
  • کیا کاتب وحی ہونا اجازت دیتا ہے کہ خلیفہ راشد پر منبروں سے سب و شتم کرے اور لوگوں کے دلوں میں خلیفہ کی نسبت نفرت ڈال دے ؟
  • کیا کاتب وحی ہونا اجازت دیتا ہے  کہ زنا کے ذریعے سے پیدا ہونے والے کو اپنا بھائی قرار دے؟
  • کیا کاتب وحی ہونا اجازت دیتا ہے کہ رسول اللہ کے صحابہ کو قتل کرے ؟
  • کیا کاتب وحی ہونا اجازت دیتاہے کہ جنت کے سردار حسن بن علی علیہما السلام کو شہید کرے ؟
  • کیا کاتب وحی ہونا اجازت دیتا ہے کہ گھر میں زنا اور شراب عام کی جائے؟
  • کیا کاتب وحی ہونا اجازت دیتا ہے کہ امت مسلمہ پر یزید جیسے فاسق فاجر زانی اور شرابی کو مسلط کرے ؟

 

 

[1] صحیح مسلم کتاب فضائل صحابہ باب من فضائل ابی سفیان ابن حرب حدیث ۲۵۰۱

 

[2] میزان الاعتدال فی نقد الرجال ، ج 5 ، ص 116 ، تحقیق : الشیخ علی محمد معوض والشیخ عادل أحمد عبدالموجود ، ناشر : دار الکتب العلمیة - بیروت ، الطبعة : الأولى ، 1995م

 

[3] کتاب جلاء الافہام فی فضل الصلاۃ علی خیر انام  صفحہ  ۲۴۳ ۔ ۲۵۲    تحقیق : شعیب الأرناؤوط - عبد القادر الأرناؤوط   ۔  الطبعة الثانیة ، 1407 - 1987  الناشر : دار العروبة – الکویت

 

[4] کتاب سیر اعلام النبلا جلد ۳ ص ۱۲۲

[5] کتاب الاصابہ جلد ۶ ص ۱۵۳ 

[6] بحر العلوم میں سورہ انعام آیہ ۹۳

موافقین ۰ مخالفین ۰ 20/03/23

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی