شیخ مفید رضوان الله علیه کا قاضی عبد الجبار کے ساتھ مناظرہ
شیخ مفید رضوان الله علیه کا قاضی عبد الجبار کے ساتھ مناظرہ
حدیث غدیر وحقانیت امیر المومنین علیه السلام
🔹 آیت الله نمازی شاهرودی قدس سره لکھتے ہیں کہ :
✍ وقال القاضی فی المجالس نقلا عن مصابیح القلوب قال: بینما القاضی عبد الجبار ذات یوم فی مجلسه فی بغداد ومجلسه مملو من علماء الفریقین، إذ حضر الشیخ وجلس فی صف النعال، ثم قال للقاضی: إن لی سؤالا فإن أجزت بحضور هؤلاء الأئمة. فقال له القاضی: سل. فقال: ما تقول فی هذا الخبر الذی ترویه طائفة من الشیعة: " من کنت مولاه فعلی مولاه " أهو مسلم صحیح عن النبی (صلى الله علیه وآله) یوم الغدیر ؟ فقال: نعم خبر صحیح. فقال الشیخ: ما المراد بلفظ المولى فی الخبر ؟ فقال: هو بمعنى خبر صحیح. فقال الشیخ: ما المراد بلفظ المولى فی الخبر ؟ فقال: هو بمعنى أولى. فقال الشیخ: فما هذا الخلاف والخصومة بین الشیعة والسنة ؟ فقال الشیخ: أیها الأخ هذه روایة وخلافة أبی بکر درایة، والعادل لا یعادل الروایة بالدرایة. فقال الشیخ: ما تقول فی قول النبی (صلى الله علیه وآله) لعلی (علیه السلام): حربک حربی وسلمک سلمی. قال القاضی: الحدیث صحیح. فقال: ما تقول فی أصحاب الجمل ؟ فقال القاضی: أیها الأخ إنهم تابوا. فقال الشیخ: أیها القاضی الحرب درایة والتوبة روایة، وأنت قررت فی حدیث الغدیر أن الروایة لا تعارض الدرایة. فبهت الشیخ القاضی ولم یحر جوابا، ووضع رأسه ساعة ثم رفع رأسه وقال: من أنت ؟ فقال خادمک محمد بن محمد بن النعمان الحارثی. فقام القاضی من مقامه وأخذ بید الشیخ وأجلسه على مسنده، وقال: أنت المفید حقا. فتغیرت وجوه علماء المجلس فلما أبصر القاضی ذلک منهم، قال: أیها الفضلاء إن هذا الرجل ألزمنی وأنا عجزت عن جوابه. فإن کان أحد منکم عنده جواب عما ذکره فلیذکر، لیقوم الرجل ویرجع مکانه الأول.
🔸 علامہ نور الله شوشتری رضوان الله علیه نے کتاب مجالس المومنین میں کتاب مصابیح القلوب سے نقل کیا ہے کہ
⭕ایک دن قاضی عبد الجبار ( اهل سنت عالم) بغداد میں ایک محفل میں موجود تھے۔ اس مجلس میں شیعه و سنی علماء موجود تھے ، اسی اثناء میں شیخ مفید وارد ہوئے اور کچھ دیر بعد شیخ مفید نے قاضی کو مخاطب کرکے کہا کہ:
📖ان تمام علماء کی موجودگی میں ، میں تجھ سے ایک سوال پوچھنا چاھتا ہوں.
🔲 قاضی نے کہا کہ پوچھو.
👈شیخ مفید نے فرمایاکہ:
آپ اس حدیث کی صحت کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔«من کنت مولاہ فعلی مولاہ».
کیا یہ حدیث، مسلم و صحیح ہے که پیامبر صلی الله علیه و آله نے روز غدیر فرمایا ہے؟
☑قاضی نے کہا کہ ہاں، حدیث صحیح ہے.
👈 شیخ مفید نے فرمایا:
مولا سے کیا مراد ہے ؟
👈 قاضی نے کہا: مولا کا معنی اولی اور بهتر ہے.
🔶شیخ مفید نے فرمایا: پس یہ
اختلاف اور خصومت شیعه و سنی کے مابین کیوں ؟ (جبکہ پیامبر صلی الله علیه و آله نے امیر المومنین علیه السلام کو بهتر از دیگران معرفی کیا ہے).
🔲قاضی نے کہا: یی حدیث، روایت ہے، اور حضرت ابو بکر کی خلافت درایت ہے ، اور ایک عادل انسان روایت کو درایت جیسا قرار نہیں دیتا۔ (یعنی درایت مقدم ہے).
❤👈 شیخ مفید نے فرمایا: آپ کی رائے اس حدیث کے بارے میں کیا ہے۔ کہ حضرت پیامبر صلی الله علیه و آله نے امیر المومنین علی علیه السلام کو فرمایا: «تجھ سےجنگ، مجھ سے جنگ ہے؛ اور تیرے ساتھ صلح میرے ساتھ صلح ہے ».
✔☑قاضی نے کہا کہ:
یہ حدیث صحیح ہے.
⭕شیخ مفید نے فرمایا:
اصحاب جمل (وہ لوگ جو مولا علی سے لڑنے بصرہ گئے تھے یعنی عایشه و طلحه و زبیر ) کے بارے میں کیا کہتے ہو؟
✖✖ قاضی نے کہا:
اے بھائی انہوں نے توبہ کیا تھا .
👈شیخ مفید نے فرمایا: اے قاضی ان کا جنگ درایت ہے اور ان کا توبه روایت ہے۔
🎅🎅تم نے حدیث غدیر کے بارے میں کہا کہ روایت کو درایت کے معادل نہیں سمجھنا چاھئیے۔
😀😏قاضی شیخ مفید کو جواب دینے سے عاجز ہوا۔ اور پوچھا کہ تم کون ہو،
شیخ مفید نے جواب دیا کہ میں محمد بن محمد بن نعمان حارثی ہوں.
قاضی نے شیخ مفید کو اپنی جگہ بیٹھایا
📚 مستدرک سفینة البحار، تالیف سبخ علی نمازی شاهرودی، جلد ۸، صفحه ۳۴۹-۳۵۰، چاپ موسسه النشر الاسلامی