سمرۃ بن جندب
ویڈیو دیکھنے کے لئے اس لینک پر کلیک کریں
https://www.youtube.com/watch?v=wUOEZx8JB2I&t=630s
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
ناظرین ایک ایسے صحابی کے بارے میں آج بیان کرنے جا رہے ہیں جس کی موت کے بارے میں کچھ صحابہ ضرور پوچھا کرتے تھے کہ وہ مرے ہیں یا زندہ ہیں اور اس صحابی کے بارے میں رسول خدا نے کیا فرمایا ہے اس صحابی کی موت کا کیسے واقع ہوئی ہے یہ آج بتانے جا رہے ہیں سب سے پہلے ہم اہل سنت کے بہت بڑے حافظ اور محدث حافظ شمس الدین ذہبی کی طرف جاتے ہیں وہ تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں کہ سمرۃ ابن جنت کون ہیں صحابی ہیں ، رسولِ خدا سے روایات نقل کی ہیں۔ زیاد بن ابیہ یعنی ابن زیاد کا جو باپ تھا امام حسین علیہ السلام کا قاتل ،ابن زیاد کے باپ کے جانشینی میں اس نے بصرہ اور کوفہ کی ولایت بھی سنبھالی ہے۔ بصرہ اور کوفہ کی گورنری بھی کی ہے کس کی جانشینی میں؟ زیاد بن ابی کی جانشینی میں پھر خود ہی لکھتے ہیں سمرۃ نے بہت زیادہ انسانوں کو قتل کیا ہے۔ بہت زیادہ انسانوں کا قاتل وہ ہے۔ اب آتے ہیں کہ اس کے بارے میں جناب بیہقی نے کیا لکھا ہے اہلسنت کے بہت بڑے عالم ہیں جناب بیہقی وہ دلائل نبوت میں لکھتے ہیں
دیکھیں دلائل النبوہ خود یہ ٹائٹل بہت important ہیں چونکہ جناب بیہقی نے اس کتاب دلائل نبوت میں وہ روایات اور وہ احادیث نقل کی ہیں جو رسول خدا نے آنے والے زمانے کے بارے میں بتائی ہیں کہ آنے والے زمانے میں فلاں واقعہ ہو گا فلاں کچھ متحقق ہو گا اور وہ واقع ہو چکا ہے ۔رسول خدا کی پیشنگوئیاں سچ ثابت ہوئی ہیں وہ روایات دلائل النبوہ میں جناب بیہقی نے نکل کی ہیں تو جناب بیہقی نے دلائل النبوہ میں ایک باب قائم کی ہیں یہاں پہ یہ لکھتے ہیں کہ یہ باب ان روایات کے بارے میں ہیں جس میں رسول خدا نے کچھ اصحاب کے بارے میں کہا تھا کہ ان میں سے سب سے آخر میں مرنے والا وہ جہنمی ہے ۔اب روایت نقل کرتے ہیں جناب ابو ہریرہ سے ابو نضرۃ سے اور ابو نضرہ نے ابو ہریرہ سے نقل کی ہیں کہ رسول خدا نے اپنے اصحاب میں سے دس صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا:
تم میں سے سب سے آخری میں آخر میں مرنے والا ، تم میں سب سے آخر میں جو مرے گا وہ جہنمی ہوگا۔ یہ دس صحابہ میں سے ایک کون تھا؟ سمرۃ ابن جندب بھی ہے ابو نضرۃ جس نے ابو ہریرہ سے روایت لی ہے وہ کہتے ہیں تو سمرۃ جو ہے وہ سب سے آخر میں فوت ہوا ہے، سب سے آخر میں مرا ہے۔ لیکن جناب بیہقی نے جب دیکھا کہ یہ روایت ایک صحابی کے بارے میں ہے اور صراحت کے ساتھ رسول خدا نے کہا ہے کہ یہ صحابی جہنمی ہے تو یہاں پہ انہوں نے کوشش کی ہے کہ اس روایت کو ضعیف ثابت کریں لہذاخود ہی کہا ہے :اس روایت کے سارے کے سارے راوی ثقہ ہیں لیکن مشکل یہاں پہ یہ پیش آتی ہے کہ ابو نضرہ کا ابو ہریرہ سے سماعت ثابت نہیں ہے
چونکہ ان کو پتہ ہے کہ سارے کے سارے راوی ثقہ ہیں اور اس کی سند میں کوئی قد کوئی جرح نہیں ہے تو ظاہر ہے ان کو ماننا پڑے گا کہ یہ سمرہ جہنمی ہے۔ تو اس سے بچنے کے لیے کہ وہ صحابہ کو جو کہتے ہیں کہ سارے صحابہ عادل ہیں سارے صحابہ جنتی ہیں اس کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ یہاں پہ ابو نضرۃ کا جناب ابو ہریرہ سے سماعت ثابت نہیں ہے۔
سب سے پہلے ہم اس سند کے اوپر جو اعتراض کیا گیا ہے اس کا جواب دیتے ہیں وہ یہ کہ اہلسنت کے دیگر علماء نے جہاں بھی ابو ہریرہ سے ابو نذرا نے روایت لی ہے وہاں پہ کوئی قد کوئی اعتراض نہیں کیا ہے بلکہ وہاں پہ اس سند کو اس روایت کو انہوں نے صحیح کہا ہے جیسا کہ صحیح ابن حبان میں شعیب ارناووط نے بارہویں جلد صفحہ نمبر تین سو پر شعیب ارناووط نے یہاں پہ اس حدیث کے بارےمیں ۔ دیکھیں راوی بالکل وہی آئے ہیں اب اس روایت کے end پہ شعیب ارناووط نے اس روایت پر تحقیق کی ہے حکم لگایا ہے کیا کہا ہے بخاری اور مسلم کے شرائط کے مطابق یہ حدیث بالکل صحیح ہے یعنی اگر دیگر راوی بخاری اور مسلم کے شرائط کے مطابق ہوں تو وہاں ابو نضرۃنے جو ابو ہریرہ سے روایت لی ہے وہ بھی بخاری اور مسلم کے شرائط کے مطابق قرار پائے گی۔ یہاں پہ کوئی اشکال نہیں کیا ہے کہ ابو نضرہ کی سماعت اس سے ثابت نہیں ہے جناب ابو ہریرہ سے ثابت نہیں ہے یہاں پہ بیہقی کا جو اعتراض ہے وہ اعتراض یہاں پہ وارد نہیں ہے۔
اب دوبارہ پلٹتے ہیں جناب بیہقی کی طرف کہ انہوں نے دیگر کیا لکھا ہے تو وہیں پر اسی صفحے پر دلائل النبوہ صفحہ نمبر چار سو اٹھاون پہ انہوں نے روایت نقل کی ہے انس ابن حکیم سے انس ابن حکیم کہتے ہیں کہ جب بھی میں مدینے سے گزرتا تو میری ملاقات جناب ابو ہریرہ سے ہوتی تو جیسے ہی میری ملاقات حضرت ابو ہریرہ سے ہوتی تو ابو ہریرہ سب سے پہلے مجھ سے یہی سوال پوچھتے کہ سمرہ کا کیا ہوا ہے یعنی وہ مرا ہے یانہیں مرا ہے ؟تو وہ کہتے ہیں کہ جب میں حضرت ابو ہریرہ کو بتاتا کہ سمرہ زندہ ہے صحت مند ہے اور وہ با حیات ہے باقید حیات ہے تو فَرِح تو ابو ہریرہ خوش ہو جاتے ۔کیوں؟ تو خود یہ وجہ بھی جناب ابو ہریرہ نے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ ہم دس افراد ایک گھر میں موجود تھے کہرسول خدا نے آ کر ہم سب کے چہروں کی طرف دیکھا اور پھرفرمایا: آخر کم موتا فی النار، تم میں سے سب سے آخر میں جو مرے گا وہ جہنمی ہے۔اب یہاں پہ چونکہ واضح ہے حضرت ابو ہریرہ اور سمرہ یہ دو ہی ہیں اور ایک اور روایات میں ایک تیسرے صحابی ہیں ابو محذورہ کے نام سے کہ یہ تین بچ گئے تھے ان دس میں سے یا ان تینوں کو مخاطب کرکے رسول خدا نے فرمایا ہے کہ تم میں سے آخری وہ جو مرے گا وہ جہنمی ہوگا تو یہ ایک دوسرے کے بارے میں ضرور پوچھا کرتے تھے کہ کون زندہ ہے کون مرا ہے تاکہ پتہ چلے کہ کون زندہ ہے اور کس کے بارے میں رسول خدا نے جو بتایا ہے وہ پیشنگوئی رسول خدا کی سچ ثابت ہوتی ہے اور کس کے بارے میں ہے وہ پیشنگوئی؟
یہاں پہ اس کا دفاع کرتے ہوئے کہ دفاع کریں جناب بیہقی نے کہا ہے:میں کہتا ہوں: ہم رسول خدا کی صحبت کی وجہ سے ان کے لیے امید رکھتے ہیں کہ وہ جنتی ہے ،جہنمی نہیں ہے۔
تعجب ہے رسول خدا کہتے ہیں تم میں سے سب سے آخر میں مرنے والا جہنمی ہے۔ جناب بیہقی صاحب! آپ کیسے کہتے ہیں کہ وہ جنتی ہیں؟ سوال یہ کہ آپ یہاں پہ رسول خدا کے نص کے مقابلے میں آ رہے ہیں۔ تو لہذا بہتر یہ ہے کہ آپ ان تاویلات کے بجائے رسول خدا کی بات کو مان لیں۔
اب ایک اور تاویل بھی کی ہے یہاں پر جس کی کوئی دلیل نہیں ہے بغیر دلیل کے ایسی ہی باتیں بیان کی ہیں کہ جس کی دلیل آپ کو کہیں بھی قرآن و سنت میں نظر نہیں آئے گی کہ جو تاویلیں یہ لوگ پیش کر رہے ہیں۔ تو خود جناب کہتے ہیں کہ بعض اہل علم اوربعض علماء نے کہا ہے کہ جب ہم نے دیکھا کہ سمرہ آگ میں مرا ہے تو رسول خدا کا وہ قول سچ ثابت ہوا۔ البتہ اس میں یہ احتمال ہے کہ ثمرا کو جہنم میں ڈالا جائے گا اس کے گناہوں کی وجہ سے (دیکھیں یہ علماء مانتے ہیں کہ ثمرہ گناہ گار ہے )پھر اس کے ایمان کی وجہ سے اس کو نجات دی جائے گی شفاعت کرنے والے اس کی شفاعت کریں گے اور اسے نجات مل جائے گی۔ جنت میں آئے گا۔ یعنی پہلے جہنم جائے گا گناہوں کی وجہ سے اس نے گناہ ہی اتنے کیے ہیں کہ خود کہتے ہیں بہت زیادہ انسانوں کو قتل کیا ہے ۔اب یہاں پہ یہ کوئی راستہ نہیں ہے مان رہے ہیں کہ گناہ بڑے کیے ہیں لیکن کہتے ہیں گناہ کیے ہیں ، جہنم میں جائے گا لیکن شفاعت کرنے والے آ کر اس کی شفاعت کریں گے اور یہ وہاں سے پھر جنت میں داخل ہو جائے گا اس کے ایمان کی وجہ سے یہ پھر جنتی قرار پائے گا
اسی کتاب میں next صفحے پر جناب بہقی نے ایک اور روایت نقل کی ہے اوس بن خالد سے وہ کہتے ہیں کہ جب بھی میں ابو محذورہ کے پاس جاتا تو وہ مجھے سے سمرہ کے بارے میں سوال کرتا اور جب میں سمرہ کے پاس جاتا تو وہ مجھے مجھ سے ابو محذورہ کے بارے میں سوال پوچھتا میں نے ابو محذورہ سے کہا :کیا ماجرا تیرے پاس آتا ہوں تو تو سمرہ کے بارے میں پوچھتا ہے۔ سمرہ کے پاس جاتا ہوں تو وہ تیرے بارے میں پوچھتا ہے۔ بتائیں تو سہی کیا ماجرہ ہے؟اب ابو محذورہ نے کہا کہ میں ،سمرہ اور ابو ہریرہ ہم ایک گھر میں تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے نبی کریم نے فرمایا: تم میں سے سب سے آخر میں مرنے والا جہنمی ہے سب سے پہلے حضرت ابو ہریرہ فوت ہوئے پھر ابو محذورہ فوت ہوئے اور پھر سمرہ مر گیا ۔
تو یہاں پہ دیکھیں واضح ہیں کہ سب سے آخر میں جن صحابہ کو مخاطب کر کے رسول خدا نے کہا ہے کہ تم میں سب سے آخر مرنے والا جہنمی ہیں ان صحابہ میں سے سب سے آخر میں مرنے والا کون ہے وہ ہے سمرۃ۔
اب اس کے بارے میں ہم مزید دیکھتے ہیں کہ مزید علماء نے اس کے بارے میں کیا کہا ہے تو آتے ہیں جناب مقریزی کی کتاب اس کے جلد نمبر بارہ اور صفحہ نمبر دو سو چوبیس میں جناب مقریزی نے ابن عبدالبر یعنی علامہ ابن عبدالبر جو ہیں جنہوں نے استیعاب لکھی ہیں اور خود استیعاب ب میں بھی یہ عبارت موجود ہے، وہاں پر انہوں نے لکھا ہے کہ سمرۃ مرا ہے۔ کدھر مرا ہے؟ بصرہ میں، فی خلافۃ معاویہ ،معاویہ کے دور میں یعنی اٹھاون ہجری میں اٹھاون ہجری میں معاویہ کا دور حکومت تھا اور اسی کے دور حکومت میں وہ مرا ہے ایک ایسے دیگ پر کہ جو پانی سے بھرا تھا اور گرم پانی تھا اس میں یہ گر گیا ہے اور اس میں گر کے یہ مرا ہے ۔
کیوں؟ وہ دیگ کیا کر رہا تھا؟
اسے ایک بیماری لاحق ہوئی تھی کہ اس کا علاج یہ تھا کہ یہ کسی گرم دیگ پر بیٹھ جائیں اور اپنا علاج کریں تو یہ ایک گرم دیگ میں پانی گرم کر کے پھر اسی گرم پانی کے دیگ کے اوپر بیٹھ جاتا تھا اور اپنے علاج کی خاطر وہاں بیٹھا رہتا تھا اب کیا کہتے ہیں؟ کہتے ہیں یہ اسی دیگ میں گر گیا جو کہ بہت ہی گرم تھا اور یہ مر گیا پھر خود ابن عبدالبر کیا کہتے ہیں رسول اللہ کی اس بات کے بارے میں یہ رسول خدا کی وہ پیشنگوئی یہ اس کی تصدیق ہے کہ جو رسول خدا نے کہا ہے تم میں سے سب سے آخر جو مرے گا وہ جہنمی ہو گا۔
یہ عجیب بات ہے کہ یہاں پہ انہوں نے نار کا مطلب یہ لیا ہے کہ کوئی گرم پانی میں مرے گا
سر! گرم پانی کو نار نہیں کہتے گرم پانی کو نار نہیں کہا جاتا ۔ رسول خدا نے فرمایا ہے: تم میں جو سب سے آخر میں مرے گا وہ جہنمی ہوگا۔ نہ کہ گرم پانی میں مرے گا اگر گرم پانی میں بھی مرا ہے تو مطلب یہ نہیں ہے کہ رسول خدا نے گرم پانی کو نار کہا ہے۔ نہیں، رسول خدا نے جہنم کے بارے میں کہا ہے کہ وہ جہنمی ہوگا وہ اس دنیا میں بے شک ایک گرم پانی میں گر کے مرا ہے لیکن آخرت میں اس کا ٹھکانہ کیا ہوگا ؟جہنم ہوگا ۔یہ آپ کی اپنی کتابیں ہیں آپ کی اپنی احادیث ہیں آپ کی اپنی روایات ہیں آپ کے اپنے محدثین ہیں انہوں نے یہ احادیث اور یہ روایات نقل کی ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ سمرۃ سب سے آخر میں مرا ہے۔ ان صحابہ میں جن کو رسول خدا نے مخاطب کر کے پیشنگوئی کی ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ مرنے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
تو یہ اہل سنت کی خود اپنی کتابوں کے مطابق ہے پس آپ کا جو یہ دعوی ہے آپ کا جو یہ نعرہ ہے کہ سارے صحابہ جنتی ہیں ہر صحابی نبی جنتی جنتی۔ یہ تو رسول خدا کے ان اقوال کے مکمل تضاد اور مخالفت میں ہیں اگر رسول خدا کی بات موجود ہو اگر رسول خدا کی حدیث موجود ہو وہاں اپنا نعرہ بنانا وہاں اپنی کوئی بات کرنا وہاں رسول کی مخالف بات کرنا ظاہر ہے یہ رسول کی مخالفت ہے اور کوئی بھی مسلمان سوچ ہی نہیں سکتا کہ وہ رسول کی مخالفت کریں تو آپ کا جو نعرہ ہے ہر صحابی نبی جنتی جنتی یا سارے صحابہ عادل ہیں سارے جنتی ہیں اس کے اوپر ایک دفعہ نظر ثانی کرے۔