کیا شیخ مفید حضرت زہراء س کی شہادت کے منکر تھے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
ناظرین ایام فاطمیہ سلام اللہ علیہا کی مناسبت سے آپ تمام کی خدمت میں تعزیت و تسلیت عرض ہے اسی مناسبت سے ہم حضرت زہرہ کی شہادت کے متعلق جو شبہات اٹھائے جاتے ہیں ان میں سے ایک شُبہہ کا جواب آج اس ویڈیو میں دینے جا رہے ہیں ۔
نہ فقط اہل سنت حضرات اس شبہہ کو اٹھاتے ہیں بلکہ بعض شیعہ بھی کم آگاہی اور کم علمی کی بنیاد پر یہی شبہہ اٹھاتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ شیعوں کے بہت ہی بڑے محدث اور عالم شیخ مفید رحمتہ اللہ علیہ المتوفی چار سو تیرہ ہجری حضرت زہرہ کی شہادت کے منکر ہیں۔
اس شبہ کے لیے وہ لوگ شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب کی طرف استناد کرتے ہیں جو کہ بہت ہی مشہور ہیں الارشاد کے نام سے شیخ مفید کی کتاب ہیں "الارشاد فی معرفت حجج اللہ علی العباد" ۔شیخ مفید کی وہاں پہ ایک عبارت ہے۔ اس کو پڑھ کر اسی سے استناد کرتے ہیں۔ کہ شیخ مفید رحمتہ اللہ علیہ وہ حضرت زہرہ کی شہادت کے منکر ہیں۔ اب آتے ہیں خود اس عبارت کی طرف اور اس عبارت کو پڑھتے ہیں۔ پھر اس عبارت کا جواب دیتے ہیں۔ اور ایک نہیں بلکہ کئی جوابات دیتے ہیں۔
شیخ مفید رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب الارشاد میں، وہ جلد اول صفحہ تین سو پچپن پہ لکھتے ہیں: شیعوں میں کچھ لوگ ذکر کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا ایک بیٹا نبی کریمؐ کی رحلت کے بعد سقط ہوا ہے۔ اس کا نام رسول خداؐ نے محسنؑ رکھا تھا۔ ایسی روایات اہل سنت کی کتب میں بھی موجود ہیں کہ امیرالمومنین کے بیٹوں یعنی امام حسن، امام حسین اور حضرت محسن علیہم الصلاۃ والسلام کے نام خود رسول اللہ نے رکھے ہیں۔ اس طائفہ اور اس گروہ کے کے اس قول کے بنا پر اولاد امیر المومنین امیر المومنین علی علیہ الصلاۃ والسلام کی اولاد کی تعداد پھر اٹھائیس ہے۔ دراصل یہاں پہ شیخ مفید رحمتہ اللہ علیہ امیرالمومنین کے اولاد کا تذکرہ کرتے ہیں اور شیخ مفید نے شروع میں لکھا ہے کہ امیر المومنین کی اولاد وہ ستائیس ہیں ستائیس فرزندان ہیں امیر المومنین کے یہاں پہ اس قول کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اگر اس قول کو بھی لے لیا جائے تو پھر امیر المومنین کی اولاد کی تعداد وہ اٹھائیس ہیں ۔
اب دیکھتے ہیں کیا جو شبہہ اٹھایا جاتا ہے کہ شیخ مفید حضرت زہرہؑ کی شہادت کے منکر ہیں کیا واقعی درست ہے یا نہیں؟
تو سب سے پہلے ہم آتے ہیں اس عبارت میں جو لکھا ہے "فی شیعہ"دیکھتے ہیں کہ یہاں پہ شیعوں سے مراد کیا ہے اس عبارت سے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دیکھیں خود شیخ مفید حضرت زہراء کی شہادت یا حضرت محسن کے وجود کے قائل نہیں ہیں۔ اگر خود قائل ہوتے تو یہاں پہ لکھتے کہ ہاں میں بھی قائل ہوں۔ انہوں نے نہیں لکھا ہے کہ میں بھی قائل ہوں۔ تو یہیں سے وہ استنباط کرتے ہیں یہیں سے یہ بات اور یہ شبہہ اٹھاتے ہیں کہ شیخ مفید خود حضرت زہرا کی شہادت یا حضرت محسن کے وجود کے قائل نہیں ہیں ۔
تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں پہ شیخ مفید نے جو کچھ لکھا ہے اس سے مراد کیا ہے ۔ اس کے جواب کے لئے ہم کہیں اور نہیں جاتے بلکہ شیخ مفید کی اسی کتاب کی طرف رجوع کرتے ہیں یعنی خود الارشاد کی طرف رجوع کرتے ہیں شیخ مفید کی کتاب ہیں الارشاد اسی کتاب کے جلد دوم صفحہ نمبر بائیس پہ شیخ مفید نے شیعہ کے لفظ کو explain کیا ہے۔شیخ مفید لکھتے ہیں کہ شیعہ دو طرح کے لوگ ہیں امامی یعنی جو اماموں کو مان لیں جو بارہ امام کی امامت کو مان لیں اور زیدی شیعہ۔ جو شیعہ امامی ہیں وہ امامت میں نصوص کی اتباع کرتے ہیں نصوص کی پیروی کرتے ہیں وہ احادیث اور آیات کو دیکھتے ہیں جو آیات اور حدیث ان کو کہیں انہی کی پیروی کر کے وہ امام کی معرفت حاصل کرتے ہیں اور امام کی اطاعت کرتے ہیں نیز امام کو ہی اپنے لیے ہدایت کا مرکز سمجھتے ہیں لیکن زیدی حضرات اس شخص کو امام کہتے ہیں جو جہاد کی طرف دعوت دے جو تلوار اٹھائے لوگوں کو جہاد کی طرف بلائے۔
سب سے پہلی بات تو ہے کہ یہاں پہ شیعہ کو واضح کیا شیخ مفید نے کہ شیعہ کا لفظ امامی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور زیدی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے تو ہم پوچھتے ہیں کہ وہاں پہ جو ذکر کیا ہے کہ شیعوں میں افراد، ایک طائفہ یا ایک گروہ کہتے ہیں کہ حضرت محسن سقط ہوئے ہیں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ایک بیٹا سقط ہوا ہے اور ان کا نام رسول اللہ نے محسن رکھا ہے تو کون سا طائفہ مراد ہے؟ زیدی طائفہ ہیں یا امامی ہیں ؟
دیکھیں ظاہر ہے امامی ہیں ہم امامی ہی یہی کہتے ہیں کہ شیعہ اثنا عشری کا عقیدہ ہے کہ حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا ان کا ایک بیٹا شہید ہوا ہے تو یہاں پہ مراد جو شیخ مفید نے لی ہے وہ کون سا طائفہ ہے امامی ہیں ۔ شیخ مفید خود کہتے ہیں کہ شیعہ زیدی ہیں یا امامی ہیں۔اب شیخ مفید کی عبارت میں شیعہ سے مراد کون سے شیعہ ہیں۔ زیدی شیعہ یا امامی شیعہ؟ تو واضح ہے اورہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ وہاں پہ مراد امامی ہیں۔ یعنی شیعوں میں جو امامی طائفہ ہیں۔ جو امامی مذہب کے لوگ ہیں۔ جو اثناء عشری لوگ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہ کا ایک بیٹا وہ سقط ہوا ہے۔ یعنی حضرت محسن شہید ہوئے ہیں۔
اب دوسرا سوال جو اسی عبادت سے لیا گیا ہے کہ شیخ مفید نے تو خود وہاں پہ اپنے آپ کو add نہیں کیا ہے کہ میں بھی یہی کہتا ہوں ، اگر شیخ مفید خود قائل ہوتے تو ضرور کہتے کہ ہاں شیعوں کا ایک طائفہ بھی کہتا ہے اور میں بھی کہتا ہوں ۔
اس کا جواب یہ ہے: جہاں پہ شیخ مفید نے شیعہ کے لفظ کو بیان کیا ہے explain کیا ہے کہ شیعہ کن کو کہا جاتا ہے دوبارہ ہم رجوع کر ہیں اسی عبارت کی طرف شیخ مفید کہتے ہیں امامی ہیں اور زیدی ہیں امامی کون ہیں جو نصوص کی اتباع کریں امامت کے مسئلے میں جو نصوص کی طرف دیکھیں جو نصوص کی پیروی کریں جو قرآن اور حدیث کی پیروی کریں تو یہاں پہ کیا شیخ مفید نے کہا ہے کہ میں بھی یہی کہتا ہوں؟کیا اس عبارت سے استدلال کر کے کوئی کہہ سکتا ہے کہ شیخ مفید امامی مذہب کے قائل ہی نہیں ہیں؟ وہ امامی مذہب کے پیروکار ہی نہیں ہیں؟ وہ امام ی مذہب کا ماننے والا ہی نہیں ہے؟ کیا کوئی ایسا کہہ سکتا ہے ؟ ہرگزنہیں ۔ ظاہر ہے یہاں پہ شیخ مفید رحمتہ اللہ علیہ ایک مسئلے کو بیان کر رہے ہیں یہاں پہ ضروری نہیں کہ وہ کہیں کہ میں بھی اس کا قائل ہوں یا قائل نہیں ہوں یا اس عبارت سے آپ یہ نتیجہ نہیں لے سکتے کہ شیخ مفید خود قائل نہیں ہیں جس طرح یہاں پہ آپ اس عبارت سے یہ نتیجہ نہیں لے سکتے کہ شیخ مفید امامت کے یا اس عشری مذہب کے قائل ہی نہیں ہیں، ویسے ہی وہاں پہ بھی آپ یہ نتیجہ نہیں لے سکتے کہ شیخ مفید حضرت زہرہ کے بیٹے حضرت محسن کے سقط ہونے کے قائل ہی نہیں ہیں ۔ اگر آپ وہاں پہ یہ نتیجہ لیتے ہیں تو آپ کو یہاں پر بھی یہی نتیجہ لینا پڑے گا یعنی آپ کو پھر شیعہ کے مذہب سے یعنی شیعہ اسن عشری کے عقیدے سے شیخ مفید کو نکالنا پڑے گا آپ کو کہنا پڑے گا کہ شیخ مفید رحمتہ اللہ علیہ اثنا عشری مذہب کے پیروکار ہی نہیں ہیں۔ تو ظاہر ہے کہ شیخ مفید اعلام میں سے ایک عالم ہے اعلام میں سے شمار کیے جاتے ہیں بڑے علماء میں سے شمار کیے جاتے ہیں بڑے محدثین میں سے شمار کیے جاتے ہیں ۔ دوسرا جواب وہ یہ کہ یہاں پہ شیخ مفید رحمتہ اللہ علیہ خود یہ بیان نہیں کرتے کہ حضرت محسن سقط ہوئے ہیں یا نہیں۔ بلکہ شیخ مفید رحمتہ اللہ علیہ حضرت امیر المومنین علی علیہ الصلاۃ والسلام کی اولاد کی تعداد کو ذکر کرتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کی شروع میں ہی کہا ہے کہ امیرالمومنین کی اولاد کی تعداد ستائیس ہیں۔ پھر اس قول کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اس قول کے بنا پر حضرت امیر المومنین کی اولاد اٹھائیس ہیں۔ جیسا کہ خود اہل سنت عالم مطالب السوول میں اہلسنت کے بہت ہی بڑے عالم جناب شافعی وہ بھی لکھتے ہیں:" جان لو کہ لوگوں کے جو اقوال ہیں وہ امیر المومنین کے اولاد کے تعداد میں وہ مختلف ہیں یعنی مختلف ہیں اولاد کی تعداد۔اس میں لوگوں کے اقوال مختلف ہیں ۔کوئی کہتا ہے اٹھائیس ہیں کوئی کہتا ہے ستائیس ہیں۔ کیوں؟ وجہ کیا ہے بعض کہتے ہیں کہ زیادہ ہیں بعض کہتے ہیں کہ کم ہیں؟ چونکہ بعض سقط شدہ بچوں کو بھی گن لیتے ہیں اور بعض اُن کو نہیں گنتے۔وہ قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ امیرالمومنین کے بیٹے ہیں لیکن چونکہ سقط ہوئے ہیں اس دنیا میں نہیں آئے ہیں بلکہ آنے سے پہلے ہی وہ سقط ہوئے ہیں لہذا ان کو بیٹوں کی جو تعداد بیان جاتی ہیں وہاں شمار نہیں کرتے یعنی امیر المومنین کے بیٹے ہونے کے انکار نہیں کرتے یہ نہیں کہتے کہ حضرت محسن امیرالمومنین کا بیٹا ہے ہی نہیں، بلکہ کہتے ہیں کہ چونکہ یہ بیٹا ہے لہذا وہ اولاد کی تعداد میں شمار نہیں کرتے یہ خود اہل سنت عالم کہتے ہیں ۔
بہ الفاظ دیگر شیخ مفید یہاں پہلے ان لوگوں کا قول نقل کرتے ہیں کہ جو صقط شدہ بیٹوں کو ذکر نہیں کرتے اولاد میں، اور کہتے ہیں کہ امیرالمومنین کی اولاد کی تعداد ستائیس ہے پھر ایک ایک کا نام لیتے ہیں اور پھر ان کے قول کے مطابق کہ جو سقط شدہ بیٹے کو بھی اولاد کی تعداد میں شمار کرتے ہیں ذکر کر کے کہتے ہیں کہ اس قول کے مطابق امیر المومنین کی اولاد کی تعداد اٹھائیس ہیں۔ اب اس عبارت سے کہاں سے آپ یہ استنباط کرتے ہیں کہ شیخ مفید رحمتہ اللہ علیہ حضرت زہرہ کے بیٹے حضرت محسن کے وجود کے قائل نہیں ہیں؟ یا حضرت زہرہ کی شہادت کے قائل نہیں ہیں؟ یہ کہاں سے آپ نے نتیجہ لیا ہے۔یہ دوسرا جواب ۔
تیسرے جواب کی طرف آتے ہیں وہ یہ کہ خود اہل سنت علماء نے مانا ہے کہ شیخ مفید رحمتہ اللہ علیہ حضرت زہرہ کی شہادت کے قائل ہیں نہ فقط قائل ہیں بلکہ حضرت زہرہ کی شہادت کے نوحے پڑھتے ہیں حضرت زہرہ کی شہادت میں گریا کرتے ہیں روتے ہیں۔جیسا کہ اہل سنت عالم جناب عبدالجبار بہت ہی مشہور عالم ہیں یہ خود شیخ کے زمانے کے ہیں شیخ مفید چار سو تیرہ ہجری میں فوت ہوئے ہیں اور عبدالجبار چار سو پندرہ ہجری میں فوت ہوئے ہیں یعنی شیخ مفید رحمتہ اللہ علیہ کے وفات کے دو سال بعد یہ فوت ہوئے ہیں ان کے زمانے کے عالم ہیں اہلسنت کے ان کے زمانے کا عالم شیخ مفید کے معاصر عالم وہ اپنی کتاب تثبیت دلائل النبوۃ دوسرے جلد صفحہ پانچ سو چورانوے پہ علماء شیعہ علماء کے نام لیتے ہیں اور پھر دوسرے صفحے پہ کہتے ہیں محمد ابن نعمان ، شیخ مفید شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ کا نام محمد ابن نعمان ہے ۔ شیخ مفید سمیت یہ تمام کے تمام علماء یہ دعوی کرتے ہیں تشیع کا اور رسول اللہ اور ان کے اہل بیت کی محبت کا، نیز یہ حضرت فاطمہ اور ان کے بیٹے حضرت محسن کی شہادت میں روتے ہیں ان کا عقیدہ یہ ہے یعنی شیخ مفید سمیت تمام ان شیعہ علماء کے جن کے نام علامہ عبدالجبار نے لیے ہیں یہ تمام کے تمام عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا اور ان کے بیٹے حضرت محسن کو شہید کیا یعنی بالکل واضح لکھا ہے کہ شیخ مفید رحمہ اللہ حضرت محسن کے غم میں گریا کرتے ہیں حضرت محسن کی شہادت پہ گریا کرتے ہیں روتے ہیں اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت محسن کو شہید کیا ہے جب خود سنی عالم کہتے ہیں کہ شیخ مفید حضرت زہرہ کے شہادت میں اور حضرت محسن کی شہادت میں روتے ہیں تو اب کون سی دلیل ہے جس کے بنا پر آپ کہتے ہیں کہ شیخ مفید وہ حضرت زہرہ کی شہادت کے قائل نہیں ہیں یا حضرت محسن کی شہادت کے قائل نہیں ہیں ؟ وہ دلیل تو سامنے لائیں جب نہ فقط شیعہ بلکہ سنی علماء قائل ہیں کہ شیخ مفید حضرت زہرہ کی شہادت کو مانتے ہیں اور ان کی شہادت میں روتے ہیں تو یہاں شک کی گنجائش ہی کہاں ہے؟
ایک چوتھا جواب بھی دینے جا رہے ہیں چوتھا جواب یہ ہے کہ خود ہم شیخ مفید کے جو direct شاگرد ہیں ان کی کتابوں کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ کیا انہوں نے اپنی تحریروں میں اپنی کتابوں میں کوئی ایسی بات لکھی ہے جس سے یہ اندازہ ہو جائے کہ شیخ مفید رحمتہ اللہ علیہ حضرت زہرہ کی شہادت کے قائل نہیں تھے۔ یہ بات ہمیں دیکھنی پڑے گی کہ کیا ان لوگوں نے یعنی ان کے شاگردوں نے جن کے شاگرد اپنے زمانے کے بہت بڑے علماء میں شمار کیے جاتے تھے۔ اور ان کے بہت بڑے بڑے عظیم الشان شاگرد رہے ہیں۔ اور ان کے شاگرد بھی شیعوں کے اعلام علماء میں سے شمار کیے جاتے ہیں۔ بڑے محدثین میں سے شمار کیے جاتے ہیں۔ کیا انہوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ ہمارے استاد شیخ مفید حضرت زہرہ کے شہادت کے قائل نہیں تھے؟
تو سب سے پہلے ہم آتے ہیں شریف مرتضی یعنی سید مرتضی رحمتہ اللہ علیہ المتوفی چار سو چھتیس ہجری یہ اپنی کتاب الشافی فی الامامہ مشہور کتاب ہے اور یہ کتاب رد ہے اسی سنی عالم عبدالجبار کی ۔ جس کا حوالہ ہم نے پیش کیا جنہوں نے کہا ہے کہ شیخ مفید حضرت زہرہ کی شہادت میں روتے ہیں اس کے رد میں سید مرتضی نے یہ کتاب لکھی ہے الشافی فی الامامہ ۔الشافی فی الامامہ کے تیسری اور چوتھی جلد جو ساتھ چھپی ہیں اس کے صفحہ نمبر دو سو اکتالیس پہ وہ حضرت زہرا کی شہادت یعنی یہ جو گھر کے دروازے کو آگ لگانے کا جو واقعہ ہے اس کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں : شیعوں نے ان روایات کو کثرت سند یعنی کثرت سے نقل کیا ہے بہت ساری سندوں سے نقل کیا ہے یہ واقعہ کوئی ایک یا دو سندوں پر موقوف نہیں ہے کثرت اسناد کے ساتھ کئی اسناد کے ساتھ یہ روایت یہ واقعہ نقل ہوا ہے اور پھر کہتے ہیں اسی صفحہ میں روایت نقل کر کے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ امیرالمومنین نے بیعت نہیں کی خلیفہ کی یہاں تک کہ انہوں نے دیکھ لیا کہ امیر المومنین کے گھر سے دھواں نکل آیا یعنی دھوئیں کو جب دیکھ لیا آگ لگائی گئی جب آگ دیکھ لیا تو امیرالمومنین نے اس وقت تک بیعت نہیں کی۔
یعنی یہ واقعہ نقل کرتے ہیں خود شیخ مفید کے شاگرد اگر یہاں پہ کوئی مخالفت والی بات ہوتی تو کیا یہاں پہ سید مرتضی نہ لکھتے؟ جو ان کے direct شاگرد ہیں۔ ضرور لکھتے جب کہ سید مرتضی کی کتابیں خالی ہیں اس بات سے کہ شیخ مفید حضرت زہرہ کی شہادت کے قائل نہیں ہیں۔ یہاں پہ شیخ مفید کے بارے میں سید مرتضی نے نہیں لکھا ہے کہ وہ قائل نہیں ہے بلکہ لکھا ہے کہ یہ خبر حضرت زہرہ کی شہادت کا واقعہ گھر کو آگ لگانے کا واقعہ بہت ساری سندوں کے ساتھ شیعوں نے نقل کی ہے۔ ان کا دارومدار کوئی ایک یا دو سندوں پر نہیں ہے۔ بہت ساری سندوں سے یہ واقعہ شیعوں نے نقل کیا ہے۔ یہ ایک شاگرد ہیں شیخ مفید کے۔
اب دوسرے شاگرد شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہ۔ شیخ طوسی رحمتہ اللہ علیہ بہت بڑے علماء میں سے شمار کیے جاتے ہیں اور شیخ مفید کے شاگرد ہیں شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی چار سو ساٹھ ہجری انہوں نے اپنی کتاب تلخیص الشافی یعنی جو کتاب سید مرتضی نے لکھی ہے الشافی فی الامامہ اسی کتاب کو تلخیص لکھی ہے شیخ طوسی نے تلخیص الشافعی کے نام سے۔ اسی کتاب کے تیسری اور چوتھی جلد صفحہ نمبر ایک سو چھپن پہ یہ لکھتے ہیں :روایت ہوئی کہ ان لوگوں نے حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کو مورد ظلم و ستم قرار دیا ۔ یہ مشہور واقعہ ہے کہ جس میں کسی شیعہ کو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حضرت عمر نے حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کو مورد ظلم و ستم ٹھہرایا جس کے نتیجے میں حضرت محسن شہید ہوئے.
اگر شیخ مفید رحمتہ اللہ علیہ مخالف ہوتے تو وہ ضرور لکھتے کہ یہاں کچھ اختلاف موجود ہیں یا شیخ مفید نے اختلاف کیا ہے ۔ مزید لکھتے ہیں:شیعوں کے ہاں یہ روایت مشہور روایت ہے اور کسی کو حق نہیں ہے کہ اس روایت کا انکار کرے۔ کیونکہ ان روایات کو خود اہل سنت نے نقل کیا ہے اور شیعوں کی روایات بھی مستفید درجے میں ہیں ان روایات میں شیعوں کا کوئی اختلاف نہیں ہے سب مانتے ہیں کہ حضرت زہرا شہید ہوئی ہیں سب مانتے ہیں کہ حضرت محسن شہید ہوئے ہیں
تو شیخ مفید کے direct شاگردان وہ تو کہتے ہیں کہ یہ روایات مشہور ہیں شیعوں کی کوئی اختلاف نہیں ہے مستفید روایات ہیں ان روایات میں کوئی اختلاف شیعوں کی طرف سے سامنے نہیں آیا ہے۔ ایسی صورت میں آپ کس دلیل کی بنا پر کہتے ہیں کہ شیخ مفید حضرت زہرہ کی شہادت کے قائل نہیں ہیں؟
ایک اور جواب:وہ یہ کہ شیخ مفید کی خود کتب کی طرف ہم رجوع کرتے ہیں شیخ مفید کی دیگر کتابیں بھی موجود ہیں کیا شیخ مفید نے اپنی دیگر کتابوں میں ایسی روایات نقل کی ہیں کہ جو حضرت زہرہ یا حضرت محسن کی شہادت پہ دلالت کرتی ہیں یا نہ؟ شیخ مفید نے اس واقعہ کا انکار کیا ان روایات کو اپنی کتابوں میں نقل نہیں کی ہیں؟ تو ایک یادو کتابیں نہیں بلکہ کئی کتابوں میں شیخ مفید نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے جیسا کہ شیخ مفید کی مشہور کتاب المزار میں وہ لکھتے ہیں
کتاب المزار صفحہ ون سیونٹی نائن پہ حضرت زہرہ سلام اللہ علیہا کی زیارت نقل ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے: "ایتھا البتول الشہیدۃ الطاہرہ "سلام ہو آپ پر اے بتول کہ جو شہید ہوئی ہیں پاک دامن بی بی ہیں طاہرہ ہیں مطہرہ ہیں۔
ایک دیگر کتاب الامالی کے نام سے جو بہت ہی مشہور کتاب ہیں صفحہ نمبر چالیس پر ( اس کتاب میں بہت ساری جگہوں پہ حضرت زہرا کا یہ واقعہ انہوں نے نقل کیا ہے لیکن یہاں پہ جو انہوں نے نقل کیا صرف میں یہی صفحہ نمبر چالیس سے quote کرتا ہوں) روایت نقل کرتے ہیں کہ جب حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا سے فدک چھین لیا گیا فدک سے ان کو منع کیا گیا تو حضرت فاطمہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ کے روضہ مبارک پہ گئیں اور خود کو رسول خدا کے قبر مبارک پہ گرایا اور ان لوگوں نے جو کچھ کیا حضرت زہرہ کے ساتھ جو سلوک روا رکھا اس کا شکوہ کیا رسول خدا کی بارگاہ میں اور گریہ کیا ۔ اتنا گریا کیا کہ حضرت زہرہ کے آنسوؤں سے رسول خدا کی قبر مبارک کی مٹی گیلی ہوئی پھر شکوہ کیا ۔یہاں اشعار لکھے ہیں اور ایک شعر یہ ہے کہ اے رسول خدا! ہمارے اوپر وہ مصائب ڈھائے گئے.
وہ مشکلات ڈھائے گئے.
کہ نہ عجم میں سے کسی پر وہ مشکلات آئے ہیں. نہ عرب میں سے کسی پر وہ مشکلات آئے ہیں.
نہ کسی عرب نے ان مشکلات کا سامنا کیا ہے. نہ کسی عجمی نےان مشکلات کا سامنا کیا ہے. ان مشکلات کا سامنا ہم نے کیا. ایسے مشکلات ہم پہ ڈھائے گئے جو کسی بشر پر نہیں ڈھائے گئے جس کا سامنا کسی بشر نے نہیں کیا ۔یہ شکوہ کر رہی ہے کون حضرت فاطمۃ الزہرا ۔ رسول خدا کی بارگاہ میں آتی ہے وہاں روتی ہیں گریا کرتی ہیں نقل کون کر رہا ہے شیخ مفید رحمتہ اللہ علیہ۔
کیا اب بھی کہیں گے کہ شیخ مفید قائل نہیں ہیں؟
شیخ مفید کی ایک اور کتاب میں روایت نقل کرتے ہیں کہ جب خلیفہ اول کو خلافت ملی تو فدک سے حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے وکلاء کو نکالا حضرت زہرہ آئیں انہوں نے مطالبہ کیا اور مطالبے کی صورت میں ان سے کہا گیا کہ گواہ پیش کریں حضرت زہرہ نے امیرالمومنین امام حسن امام حسین اور ام کو گواہ کے طور پر پیش کیا.ان سب نے گواہی دی. تو خلیفہ اول نے فدک واپس کیا. یہ نقل کرنے والا کون ہے? شیخ مفید رحمتہ اللہ علیہ ہیں. فدک واپس کیا. اب اس روایت پہ پوری توجہ دیں.فدک واپس کرنے کے بعد ایک سند لکھ کے حضرت زہرہ کو دی کہ یہ فدک آپ کا ہی ہے. حضرت زہرہ جب واپس جا رہی ہے. تو دوسرے خلیفہ سے ان کا سامنا ہوا. دوسرے خلیفہ نے کہا یہ کیا ہے آپ کے ہاتھ میں? کہا ایک کتاب سند ہے کہ جو خلیفہ اول نے لکھ کے دیا ہے تو خلیفہ دووم نے کہا کہ مجھے دکھا دیں حضرت زہرہ نے انکار کیا خلیفہ نے زبردستی حضرت زہرہ کے ہاتھ سے وہ سند چھین لی اور پھر اس سند کو چھیننے کے بعد پھاڑ لیا یہ روایت شیخ مفید نے نقل کی ہے۔
اب اس روایت کو ایک اور کتاب میں اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کی ہے اور وہ ہے الاختصاص۔( اگرچہ الاحتساس کے بارے میں شیعہ علماء کے ہاں اختلاف ہے کہ یہ شیخ مفید کی کتاب ہے یا نہیں لیکن بہت سارے علماء ایسے موجود ہیں کہ جو کہتے ہیں کہ بالکل یہ شیخ مفید کی ہی کتاب ہے اس کی نسبت صحیح ہے یہ شیخ مفید نے ہی یہ کتاب لکھی ہے )تو الاختصاص میں پھر اس روایت کو صفحہ نمبر ایک سو پچاسی پر نقل کرنے کے بعد انہوں نے کچھ وضاحت بھی نقل کی ہیں وہ یہ ہیں کہ خلیفہ دوم نے وہ سند لے کر پھر اسے پھاڑا اور حضرت زہرہ کو مورد ظلم و ستم قرار دیا اسی ظلم ستم کی وجہ سے جو کچھ لوگوں نے انجام دیا حضرت محسن شہید ہوئے۔
یہ کون لکھ رہا ہے یہ شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ لکھ رہا ہے اپنی کتابوں میں کیا اب ان تمام کے تمام نصوص کو سامنے رکھ کر ان تمام کے تمام ادلۃ کو سامنے رکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ شیخ مفید حضرت زہرہ کی شہادت کا قائل نہیں ہے ؟کوئی کہہ سکتا ہے کہ شیخ مفید حضرت محسن کی شہادت کا قائل نہیں ہے ؟اگر آپ ان تمام اسناد کے باوجود بھی کہیں کہ شیخ مفید حضرت زہرہ کی شہادت یا حضرت محسن کی شہادت کے قائل نہیں ہیں تو پھر آپ دلائل لے کے آئیں۔ کن دلائل کے مطابق آپ کہتے ہیں۔
شیخ مفید نے کیا خود لکھا ہے خود کہا ہے کہ میں قائل نہیں ہوں ؟جن کے شاگرد خود کہتے ہیں کہ یہ مشہور روایت ہے کوئی اختلاف نہیں ہے جو واقعات شیخ مفید اپنی دیگر کتابوں میں لکھتے ہیں کیا ہو سکتا ہے کہ وہی شیخ مفید پھر اپنی کتاب میں کچھ ایسے عبارات لکھیں کہ جن سے آپ کو یہ نتیجہ ملیں کہ شیخ مفید حضرت زہرہ کی شہادت کا قائل نہیں ہے ؟تو بجائے اس کے کہ اپنے اندازے لگائیں عبارات سے غلط نتیجے لیں خود شیخ مفید کی ان عبارات کو بھی سامنے لائیں ان کے شاگردوں کی عبارات کو بھی سامنے رکھیں شیخ طوسی سید مرتضی کی عبارات کو بھی سامنے رکھیں اور نتیجہ یہی لیں اس کے علاوہ کوئی نتیجہ کوئی لے ہی نہیں سکتا شیخ مفید حضرت زہرہ کی شہادت کے قائل ہیں بلکہ حضرت زہرہ کی شہادت کے ایسی روایات ہیں کہ جن پر کسی شیعہ کو کوئی اختلاف نہیں تھا۔ شیخ طوسی نے کہا ہے کہ یہ مشہور روایات ہیں مستفید روایات ہیں اس واقعہ پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین