کیا حضرت ابوطالب ع نے رسول اللہ کو دودھ دیا ہے؟
کیا حضرت ابوطالب ع نے رسول اللہ کو دودھ دیا ہے؟
مخالفین کے پاس جب اعتراض کرنے کے لئے کچھ نہ ملے تو وہ ضعیف روایات سے تمسک کرنا شروع کرتے ہیں، جن میں سے ایک اعتراض یہ کرتے ہیں کہ شیعہ کتابوں میں روایت ہے کہ حضرت ابوطالب ع نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کو اپنے پستان سے دودھ دیا ہے،
جواب:
یہ روایت اصول کافی میں کچھ اس طرح کے سند کے ساتھ ذکر ہے
محمد بن یحیى، عن سعد بن عبدالله، عن إبراهیم بن محمد الثقفی، عن علی بن المعلى، عن أخیه محمد، عن درست بن أبی منصور، عن علی بن أبی حمزة عن أبی بصیر، عن أبی عبدالله علیه السلام قال: لما ولد النبی صلى الله علیه وآله مکث أیاما لیس له لبن، فألقاه أبوطالب على ثدی نفسه، فأنزل الله فیه لبنا فرضع منه أیاما حتى وقع أبوطالب على حلیمة السعدیة فدفعه إلیها
ترجمہ :
جب رسول اللہ پیدا ہوئے تو چند دن تک ان کی والدہ کے دودھ نہ اترا ۔ ابوطالب نے ان کو اپنی چھاتی سے لگایا خدا نے دودھ اتار دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی رضاعت اس سے ہوئی پھر ابوطالب نے ان کو حلیمہ سعدیہ کے سپرد کیا،
اصول کافی کتاب حجت باب مولد النبی و وفاتہ حدیث نمبر ۲۷
اس روایت میں دو راوی مجہول ہیں ،
۱: علی بن معلی،
علی بن المعلى : روى عدة روایات مجهول.
المفید من معجم رجال الحدیث،ص414
علی بن معلی نے کئی روایات نقل کی ہیں مجہول راوی ہے،
محمد بن معلی:
محمد بن المعلی : لم یذکروه.
مستدرکات علم رجال الحدیث،ج7،ص334
محمد بن المعلی : روى روایة فی الکافی ج 1 کتاب الحجة ، باب مولد النبی ( ص ) ووفاته ح 27 – مجهول.
المفید من معجم رجال الحدیث،ص579
محمد بن معلی کہ جس نے کافی کے کتاب حجت ، باب مولد النبی و وفاتہ میں ایک روایت نقل کی ہے، مجہول راوی ہے،
اسی طرح اصول کافی کا فارسی میں ترجمہ کرنے والے حجت الاسلام والمسلمین استاد صفوی لکھتے ہیں کہ
این روایت از لحاظ سند ضعیف و غیر قابل اعتماد است،
اصول کافی – ترجمه ی مصطفوی،ج2،ص339
یہ روایت سند کے لحاظ سے ضعیف اور قابل قبول نہیں ہے،
اسی طرح بحار الانوار کے محقق نے بھی لکھا ہے کہ
الحدیث لا تخلو عن غرابة، و فی إسناده جماعة لا یحتج بحدیثهم.
بحار الانوار،ج15،ص340
یہ حدیث غرابت سے خالی نہیں ، اس کی سند میں ایسے لوگ ہیں کہ جن کی روایات سے احتجاج نہیں کیا جاسکے گا۔
علامہ مجلسی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب مراۃ العقول میں اس روایت کو ضعیف لکھا ہے۔
مراۃ العقول ج ۵ ص ۲۵۲
پس یہ روایت ضعیف ہے اور ایسی روایات کو پیش کرکے کسی مذھب کو زیر سوال اٹھانا جہالت کے سوا کچھ نہیں۔
خادم اھل بیت علیہم السلام ۔۔۔۔۔۔۔۔ سید ابو عماد حیدری
البتہ اگر اہل سنت اپنی کتابوں کو پڑھتے تو ان کو معلوم ہوجاتا کہ یہ باتیں صحیح اسناد کے ساتھ خود ان کی کتابوں میں لکھی ہیں ، تاریخ بغداد میں روایت ہے کہ
أَخْبَرَنَاها أبو الحسن محمد بن أسد بن علی بن سعید الکاتب، والحسن بن أبی بکر قالا: أَخْبَرَنَا أبو عمرو عبد الملک بن الحسن بن یوسف المعدل، قَالَ: حَدَّثَنَا أحمد بن أبی عوف، قَالَ: سمعت أبی وعمی، یقولان کنا فی مجلس یزید بن هارون فی بستان أم جعفر، فرأینا فیه رجلا خلاسیا طوالا، وعلى یدیه صبی یرضع منه، فقال ذاک الرجل: إن أم هذا الصبی ولدته وتوفیت بأرض مفازة، أو أرض فلاة، فألقیته على ثدیی أعلله، فأجرى الله له هذا الرزق، فرأیناه والثدی یدر علیه
تاریخ بغداد،ج15،ص146و147 ط دار الغرب الاسلامی
احمد بن ابی عوف نے اپنے والد اور چچا سے روایت کی ہے وہ کہہ رہے تھے کہ ہم یزید بن ہارون کے ہاں ام جعفر کے باغ میں بیٹھے تھے ، کہ ہم نے بلند قد کا خلاسی[ مخلوط یورپی اور حبشی نسل] آدمی دیکھا کہ اس کے ہاتھوں میں ایک بچہ تھا اور وہ اس مرد کا دودھ پی رہا تھا، اس آدمی نے کہا کہ اس بچے کی ماں نے اس کو پیدا کیا اور پھر وہ مفازہ یا فلاۃ کی سرزمین پر فوت ہوئی، میں نے بہلاوے کے لئے اسے اپنے سینے کے قریب کیا تو اللہ نے اس کو یہ رزق دیا ، [راوی کہتے ہیں] ہم نے دیکھا کہ اس کے پستانوں سے دودھ بہہ رہا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خطیب بغدادی نے یہ واقعہ اس شخص پر اللہ کی طرف سے لطف و عنایت کے باب سے ذکر کیا ہے، کہ خود ان کی تصریح کے مطابق یہ شخص مکی بن مرزوق ہے ،
اب اس روایت کی سند کو ملاحظہ فرمائیں
أبو الحسن محمد بن أسد بن علی بن سعید الکاتب :
محمد بن أسد بن علی بن سعید أبو الحسن الکاتب المقرئ سمع أبا بکر أحمد بن سلمان النجاد وعلی بن محمد بن الزبیر الکوفی، وجعفر الخلدی، وعبد الملک بن الحسن السقطی، وجماعة من هذه الطبقة. کتبت عنه وکان صدوقا.
تاریخ بغداد،ج2،ص430 ط دار الغرب الاسلامی
الحسن بن ابی بکر :
الْحَسَن بْن أَحْمَد بْن إِبْرَاهِیم بْن الْحَسَن بن مُحَمَّد بن شاذان بْن حرب بْن مهران أَبُو عَلِیّ البزاز ..... کتبنا عنه، وکان صدوقا صحیح الکتاب ..... سمعت أبا الْحَسَن بن رزقویه، یقول: أَبُو عَلِیّ بن شاذان ثقة. وسمعت الأزهری، یقول: أَبُو عَلِیّ بن شاذان من أوثق من برأ اللَّه فِی الحدیث، وسماعی منه أحب إلی من السماع من غیره، أو کما قَالَ.
تاریخ بغداد،ج8،ص223 ط دار الغرب الاسلامی
أبو عمرو عبد الملک بن الحسن بن یوسف المعدل :
عبد الملک بن الحسن بن یوسف بن الفضل أبو عمرو المعدل، ویعرف بابن السقطی ..... حَدَّثَنَا عنه محمد بن أسد الکاتب، والحسن بْن أبی بَکْر، وأبو علی بن شاذان، وأبو نعیم الحافظ، وکان ثقة ..... سألت أبا نعیم الحافظ عن عبد الملک بن الحسن، فقال: ثقة .....
تاریخ بغداد،ج12،ص185 ط دار الغرب الاسلامی
احمد بن ابی عوف و پدر و عمویش :
قال السهمی: سألت الدَّارَقُطْنِیّ عن أبی عبد الله أحمد بن أبی عوف البزوری العدل؟ فقال: ثقة هو وأبوه وعمه وإنما یحکى عنه حکایة.
موسوعة أقوال أبی الحسن الدارقطنی فی رجال الحدیث وعلله،ج2،ص662 ط عالم الکتب
ابو محمد دلاصی کے لئے بھی اہل سنت نے یہی کچھ لکھا ہے،
ومنها أنه کان عنده طفل غابت أمه عنه، فبکى فدر ثدیه باللبن، فأرضع ذلک الطفل حتى سکت، وله کرامات أخرى کثیرة شهیرة.
مرآة الجنان،ج4،ص200 ط دار الکتب العلمیة
العقد الثمین فی تاریخ البلد الامین،ج5،ص198 ط موسسة الرسالة
ابومحمد دلاصی کے کرامات میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے بچے کی ماں غائب ہوئی تو وہ رونے لگا ، ابومحمد دلاصی کے پستانوں سے دودھ آنا شروع ہوا، بچے نے دودھ پیا اور خاموش ہوا، ابومحمد دلاصی کے اور بھی بہت زیادہ مشہور کرامات ہیں،
قارئین کرام ، آپ نے دیکھ لیا کہ یہ بات اگر شیعہ کی کتاب میں ضعیف سند کے ساتھ ہو تو شیعہ کا مزاق اڑایا جاتا ہے اور اسے خرافات کہا جاتا ہے لیکن اگر یہی باتیں اہل سنت کی کتابوں میں ہوں تو پھر یہ اہل سنت کے لئے کرامات ہوتی ہیں،
السلام علیکم!
شاہ صاحب اللہ تعالی آپ کو جزأ خیر عطا فرمائے آپ اہل بیت علیھم افضل صلوة کا دفاع کر رہے ہیں مالک کائنات آپ کو استقامت عطا فرمائے۔ آمین۔
حضور ایک مشکل حل فرمائیے کہ عللامہ مجلسی صاحب نے مذکورہ روایت کو ضعیف کہنے کے بعد جو تحریر ارشاد فرمائی ہے وہ اشکال پیدا کر رہی ہے۔ ثدیء جناب عم رسول سے دودھ کے جاری ہونے کو اعجاز کے قبیل سے کہنے اور پھر یوں اس عمل سے اخوة بین سیدنا علی المرتضیٰ علیہ السلام اور جناب رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم مزید پختہ کرنے اور پھر اس رضاعت کو سیدہ فاطمة بنت اسد کیطرف منسوب کر دینے سے بھی مشکل حل نہیں ہو رہی۔ اول تو روایت کو ضعیف کہنے کے بعد اس کو اعجاز کے قبیل سے بتانے پر صاحب شرح کے نزدیک اس واقعہ کی صداقت لازم آتی ہے پھر ضعف محض سند کی حد تک رہ جاتا ہے اور واقعہ مذکورہ سے مفر باقی نہیں رہتا۔ دوم اس واقعہ سے یا رضاعت کو سیدة فاطمة بنت اسد سلام اللہ علیہا کیطرف منسوب کر لینے کے بعد بھی مزید مشکل اس صورت میں درپیش ہیکہ یوں تو جناب سیدنا علی المرتضیٰ علیہ السلام اور جںاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مابین اخوت رضاعت لازم آتی ہے پھر جناب علی المرتضیٰ علیہ السلام اور سیدة فاطمة سلام الله علیها کے نکاح کی صورت سمجھ نہیں آتی۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا۔