امام باقر کے فضائل اور حضرت جابر بن عبداللہ پر ہذیان کی تہمت
محمد باقر علیہ الصلاۃ والسلام کی شان میں ایک بہت ہی جالب حدیث ہے کہ جو کئی حدیثیں کتابوں میں وارد ہوئی ہیں لیکن اس وقت میں پڑھ رہا ہوں وہ کافی سے ہیں
کافی جلد اول یعنی اصول کافی دو سو اٹھانوے صفحہ ہیں یہاں پہ یہ حدیث امام صادق علیہ الصلاۃ والسلام سے ہیں فرماتے ہیں
کہ جابر بن عبداللہ انصاری یہ آخری صحابی میں سے ہیں یعنی اصحاب میں سے جو سب سے آخر تک رہیں ان میں وہ جابر بن عبداللہ انصاری ہیں وہ مسجد رسول اللہ میں یہ بیٹھتے تھے اور ان کے سر پر ایک بلیک عمامہ ہوا کرتا تھا ایک بلیک عمامہ باندھ کر یہ مسجد میں بیٹھتے تھے مسجد نبوی میں ،اور پھر ندا دیا کرتے تھے بلند آواز سے پکارتے تھے یا باقر العلم ، یا باقر العلم ،یعنی شگافتہ کرنے والا یعنی دراڑ پیدا کرنے والا اور امام علیہ سلام کو امام باقر اس لیے کہا جاتا ہے کہ امام علیہ السلام نے مختلف علوم کو بیان کیا ہے مختلف علوم کی توضیح کی ہے ۔تو امام کو باقر العلم کہا جاتا ہے تو وہ کہا کرتے تھے یا باقر العلم۔
اب یہ اہل مدینہ جب سنتے تھے کہ جابر بن عبداللہ انصاری مسجد میں بیٹھ کر باقر العلم باقر العلم کی صدائیں دیا کرتے ہیں تو اہل مدینہ نےیہ کہنا شروع کیا کہ جابر بن عبداللہ ہذیان کہہ رہے ہیں اپنے حواس کھو بیٹھے ہیں یعنی صحابی رسول ہیں صحابی رسول کے بارے میں اہل مدینہ کہتے ہیں کہ جابر ہذیان کہہ رہے ہیں ۔ یہجر (ہذیان) کے کلمہ سے ہم زیادہ اشنا ہے رسول خدا کے بارے میں بھی یہی کلمہ استعمال ہوا تھا۔
حضرت جابر ان کے جواب میں کہا کرتے تھے :اللہ کی قسم! میں ہذیان نہیں کہہ رہا ہوں اور نہ ہی میں اپنے حواس کھو بیٹھا ہوں۔ میں اپنے ہوش میں یہ باتیں کر رہا ہوں چونکہ میں نے رسول اللہ کو سنا ہے ۔رسول اللہ نے مجھے فرمایا :اے جابر! تم ایک ایسے شخص سے ملو گے جو مجھ سےہوگا،وہ میرا ہم نام ہوگا جو میرا نام ہے وہی نام اس کا بھی ہوگا اور وہ ظاہری شکل و صورت میں بھی میرا شبیہ ہوگا، اوروہ علم کو بیان کرے گا علوم کی توضیح کرے گا علوم کی تبیین کرے گا۔
حضرت جابر ایک دفعہ انہوں نے مدینہ کی ایک گلی میں مدینہ کی گلی سے گزر رہے تھے کہ وہاں پہ انہوں نے کتاب دیکھے یعنی جو رائٹرز ہیں جو لکھتے ہیں اور ان میں سے امام محمد باقر بھی تھے جب انہوں نے امام محمد باقر علیہ السلام کو دیکھا تو حضرت جابر کہنے لگے: اے جوان! میری طرف بڑھیں میری طرف آئیں تو امام محمد باقر علیہ الصلاۃ والسلام حضرت جابر کی طرف آئے، پھر حضرت جابر نے کہا: اے جوان! اب واپس پلٹیں واپس جائیں تو امام واپس گئے؛ یعنی حضرت جابر دیکھا امام کا آنا بھی اور امام کا جانا بھی۔ دونوں کو دیکھنے کے بعد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے قدرت میں میری جان ہے! یہ تو رسول اللہ کے شمائل ہیں یہ تو رسول اللہ کی ظاہر ی شکل و صورت ہیں یہ تو بالکل رسول اللہ کے شبیہ ہیں ۔پھر کہا: اے جوان !آپ کا نام کیا ہے؟ توامام علیہ السلام نے فرمایا: میرا نام محمد بن علی ابن الحسین ہے یعنی میں امام زین العابدین کا بیٹا اور امام حسین علیہ الصلاۃ والسلام کا پوتا محمد ہوں ۔
تو حضرت جابر امام علیہ السلام کی طرف بڑھے ( دیکھیں صحابی رسول ہیں صحابی رسول ہیں اور سن کے لحاظ سے بھی بہت عمر رسیدہ ہیں) اب یہ ایک جوان کی طرف بڑھے اور کہا :میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں؛ آپ کے جد رسول خدا آپ کو سلام کہہ رہے ہیں۔ مجھے رسول اللہ نے بتایا ہے کہ آپ باقر العلم ہیں آپ علوم کو بیان کرنے والے ہیں آپ علوم کی توسیع کرنے والے ہیں
امام محمد باقر علیہ الصلاۃ والسلام گھر چلے گئے ہیں اور امام زین العابدین علیہ السلام کو یہ پورا قضیہ اور قصہ بتایا تو امام زین العابدین نے فرمایا کہ اے میرے بیٹے بس اپنے گھر میں ہی بیٹھیں۔ کیونکہ لوگوں کو معلوم ہوگا کہ آپ میرے بعد امام ہیں۔ پھر وہ مشکلات کھڑی کریں گے اور شاید ہی ان کے قتل اور ان کے شہادت منصوبہ بھی تیار کریں۔
حضرت جابر صبح و شام امام محمد باقر کے پاس آیا کرتے تھے اہل مدینہ کہا کرتے تھے : تعجب ہے جابر بن عبداللہ انصاری پر! صبح شام اس جوان کے پاس آتا ہے حالانکہ اے جابر بن عبداللہ انصاری! آپ رسول اللہ کے اصحاب میں سے ہیں آپ سن رسیدہ آدمی ہیں آپ ایک جوان کے پاس صبح و شام آتے ہیں؟
لکھا ہے اس حدیث میں کہ جب امام زین العابدین کی شہادت ہوئی تو امام محمد باقر علیہ الصلاۃ والسلام یہ بڑا زبردست جملہ یہاں پہ اس حدیث میں بیان ہوا ہے کہ جو واقعا خود ہمیں بھی اس پہ دینی چاہیے اور ہمارے جو مخالفین ہیں ان کو بھی توجہ دینی چاہیے تو امام محمد باقر علیہ الصلاۃ والسلام اپنے والد کی شہادت کے بعد حضرت جابر کے پاس آیا کرتے تھے اور حضرت جابر کے پاس ان کی عزت اور احترام کے لیے کیوں کیونکہ حضرت جابر رسول اللہ کے صحابی ہیں.
صحابی ہونے کی وجہ سے امام محمد باقر علیہ الصلاۃ والسلام حضرت جابر کے پاس آئے آتے ہیں حضرت جابر کی عزت اور احترام کے لیے تکریم کے لیے آتے ہیں
یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہم اصحاب کو نہیں مانتے. ہم تو صحابہ کے اتنے احترام کے قائل ہیں کہ ہمارے امام بھی ان کی عزت و احترام کے لیے جاتے ہیں. جن کے اوپر بھی صحابی کی جو تعریف ہے جو واقعا قرآن اور حدیث کو سامنے رکھ کر جو تعریف نکالی جائے جو تو قرآن کے تمام کے تمام آیات اور احادیث کو سامنے رکھ کر وہ تعریف جس پر بھی فٹ آئے اور جو بھی مصداق بنے، ظاہر ہے اس کے نام پر ہم جان بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہیں
امام محمد باقر علیہ الصلاۃ والسلام آتے تھے کن کی خدمت میں ؟ حضرت بن عبداللہ انصاری کی خدمت میں اور حدیث کے الفاظ ہیں کیوں آتے تھے؟ احترام کے لیے۔ کیوں احترام کے لیے؟ کیونکہ وہ رسول اللہ کے صحابی ہیں.
امام علیہ السلام بیٹھتے تھے امام علیہ السلام اہل مدینہ کے درمیان بیٹھ کر اہل مدینہ کو تعلیم دیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اللہ نے فرمایا ہے.
اب ظاہر ہے اہل مدینہ پھر یہ قبول نہیں کرتے تھے. جن کے پاس اہل بیت کی وہ معرفت نہ ہوں تو وہ تو سند کے مطالبے کرتے ہیں کہ ہمیں سند بتائیں تو انہوں نے کہا کہ امام محمد باقر علیہ الصلاۃ والسلام کیوں سند بیان نہیں کرتے؟ یہ نبی تو نہیں ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ نے فرمایا ہے۔ تو پہلے سند بیان کریں رسول اللہ تک پھر کہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے بتایا ہے۔
اب امام علیہ الصلاۃ والسلام نے اس اعتراض کی وجہ سے یہ کہنا شروع کیا کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے۔ جب کہا: رسول اللہ نے فرمایا ہے توپھر بھی اہل مدینہ نے کہا کہ یہ بھی نہیں ہو سکتا آپ نے رسول اللہ کو تو نہیں دیکھا ہے آپ نے کیسے رسول اللہ سے direct یہ حدیث سنی ہے direct یہ حدیث آپ رسول خدا سے نقل کر رہے ہیں حالانکہ آپ رسول اللہ کے زمانے میں نہیں گزرے ہیں؟
اس وجہ سے امام علیہ السلام مجبور ہو کر تاکہ لوگوں کو تعلیم دیں پھر امام علیہ السلام حدیث بیان کرتے تھے جابر بن عبداللہ سے کہ مجھے جابر عبداللہ انصاری نے بیان کیا ہے اور جابر بن عبداللہ انصاری کو رسول خدا نے بیان کیا ہے تو اب یہ سند ان لوگوں کے لیے متصل ہوئی۔
ظاہر ہے جن کے پاس وہ امامت کی معرفت اہل بیت کی معرفت نہ ہو تو پھر وہ سند کا مطالبہ کرتے ہیں اور یہ اسی وجہ سے بعض ہمارے مخالفین کہتے ہیں کہ آئمہ غیر معصومین کے پاس بھی گئے ہیں ان سے بھی حدیثیں لی ہیں حالانکہ بالکل غلط اور باطل موقف ہیں کیونکہ امام محمد باقر علیہ الصلاۃ والسلام نے جابر بن عبداللہ انصاری سے جو احادیث لی ہیں وہ اس وجہ سے لی ہیں کیونکہ لوگ سند کا مطالبہ کرتے تھے۔
جب امام علیہ الصلاۃ والسلام سند بیان کیا کرتے اور کہتے کہ مجھے جابر بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا ہے اور ان کو رسول اللہ نے تو پھر اہل مدینہ کہا کرتے تھے کہ ہاں بالکل اب یہ درست ہے ۔ اہل مدینہ تب تصدیق کرتے تھے
اس کے بعد جابر بن عبداللہ انصاری آیا کرتے تھے امام محمد باقر علیہ الصلاۃ والسلام کے پاس اور ان سے تعلیم لیتے ان سے سیکھتے تھے
پس جو حدیث حضرت جابر کے واسطے سے امام بیان کرتے ہیں تو یہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ رسول اللہ کی حدیث کا امام محمد باقر علیہ السلام کو پتا نہیں تھا اور حضرت جابر سے انہوں نے یہ حدیثیں سنی ہیں تب بیان کرتے ہیں۔ نہیں! بلکہ اہل مدینہ اعتراض کیا کرتے تھے کوئی حدیث سنتے ہی نہیں تھے اس لیے امام علیہ السلام نےحضرت جابر کے واسطے سے رسول اللہ کی احادیث بیان کی ہے ورنہ حضرت جابر تو خود امام کے قدموں میں بیٹھ کر سیکھتے تھے حضرت جابر نے تو امام محمد باقر علیہ السلام کی شاگردی اختیار کی ہے ۔