سید ابوعماد حیدری

اہل سنت اور وھابیت کے شبھات کے جوابات، مذھب اہل بیت کی حقانیت ، کتب سے سکین پیجز

سید ابوعماد حیدری

اہل سنت اور وھابیت کے شبھات کے جوابات، مذھب اہل بیت کی حقانیت ، کتب سے سکین پیجز

آخرین نظرات

سلسلة الاحادیث الهریریة

Friday, 17 July 2020، 07:06 PM

سلسلۃ الاحادیث الهریریة [1]

 

 

 

حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں جناب ابوھریرہ کی روایات۔

جناب بخاری اور مسلم دونوں نے حضرت ابوھریرہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ

وَقَالَ اللَّیْثُ حَدَّثَنِى جَعْفَرُ بْنُ رَبِیعَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَیْرَةَ - رضى الله عنه - عَنْ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله علیه وسلم - قَالَ « قَالَ سُلَیْمَانُ بْنُ دَاوُدَ - عَلَیْهِمَا السَّلاَمُ - لأَطُوفَنَّ اللَّیْلَةَ عَلَى مِائَةِ امْرَأَةٍ - أَوْ تِسْعٍ وَتِسْعِینَ - کُلُّهُنَّ یَأْتِى بِفَارِسٍ یُجَاهِدُ فِى سَبِیلِ اللَّهِ ، فَقَالَ لَهُ صَاحِبُهُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ . فَلَمْ یَقُلْ إِنْ شَاءَ اللَّهُ . فَلَمْ یَحْمِلْ مِنْهُنَّ إِلاَّ امْرَأَةٌ وَاحِدَةٌ ، جَاءَتْ بِشِقِّ رَجُلٍ ، وَالَّذِى نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ ، لَوْ قَالَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ ، لَجَاهَدُوا فِى سَبِیلِ اللَّهِ فُرْسَانًا أَجْمَعُونَ »

حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ کہ سلیمان بن داود علیہما السلام نے فرمایا آج رات اپنی سو یا ننانوے بیویوں کے پاوں گا اور ہر بیوی ایک ایک شہسوار جنے گی جو اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کریں گےان کے ساتھی نے کہا کہ ان شاء اللہ بھی کہہ لیجئے لیکن انہوں نے انشاء اللہ نہیں کہا چنانچہ صرف ایک بیوی حاملہ ہوئیں اور ان کے بھی آدھا بچہ پیدا ہوا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے اگر سلیمان علیہ السلام اس وقت انشاء اللہ کہہ لیتے تو [تمام بیویاں حاملہ ہوتیں اور] سب کے یہاں ایسے شہسوار بچے پیدا ہوتے جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتے۔

بخاری۔ حدیث نمبر2819, 3424,5242,6639,6720.7469   

 

اس روایت پر کچھ اعتراضات:

1: یہ حدیث بالکل ایک جھوٹی روایت ہے کیونکہ انسانی غریضہ اس قوت میں نہیں کہ ایک رات میں سو بیویوں کے پاس ہوکر آئے۔ پس حضرت ابوھریرہ کی نقل کردہ یہ روایت انسانی انسانی طبیعت کے قوانین کے خلاف ہے۔ کیونکہ انسان سے اس طرح کا فعل سرزد ہونا ناممکن ہے

2: انبیاء کے لئے جائز نہیں کہ وہ ان شاء اللہ کو ترک کرے ، کیونکہ ان شاء اللہ کہنا یعنی اللہ کو یاد رکھنا اور اللہ کی مشیت کو یاد رکھنا، اللہ کی یاد کو صرف اور صرف غافل لوگ ہی ترک  کرتے ہیں، پس ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک شخص اللہ کا نبی ہو اور وہ یاد خدا کو ترک کرتا ہو۔ خصوصا جب دوسرا اس کو یاد دلائیں پھر بھی اللہ کی یاد سے غافل رہے۔

۳: حضرت ابوھریرہ خود اس حدیث میں مضطرب دکھائی دیتے ہیں کیونکہ وہ کبھی سو بیویوں کا ذکر کتے ہیں کبھی نوے کبھی ستر اور کبھی ساٹھ، یا اگر اضطراب کو نہ مانا جائے تو پھر یہ کہنا ضروری ہے کہ جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے۔

 اس مضمون کے تمام روایات بخاری مسلم اور مسند احمد میں موجود ہیں۔

 

 

سلسلۃ الاحادیث الهریریة [2]

 

حضرت موسی علیہ السلام اور ابوھریرہ

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ

أُرْسِلَ مَلَکُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَیْهِ السَّلَام فَلَمَّا جَاءَهُ صَکَّهُ فَفَقَأَ عَیْنَهُ فَرَجَعَ إِلَى رَبِّهِ فَقَالَ أَرْسَلْتَنِی إِلَى عَبْدٍ لَا یُرِیدُ الْمَوْتَ قَالَ فَرَدَّ اللَّهُ إِلَیْهِ عَیْنَهُ وَقَالَ ارْجِعْ إِلَیْهِ فَقُلْ لَهُ یَضَعُ یَدَهُ عَلَى مَتْنِ ثَوْرٍ فَلَهُ بِمَا غَطَّتْ یَدُهُ بِکُلِّ شَعْرَةٍ سَنَةٌ قَالَ أَیْ رَبِّ ثُمَّ مَهْ قَالَ ثُمَّ الْمَوْتُ قَالَ فَالْآنَ فَسَأَلَ اللَّهَ أَنْ یُدْنِیَهُ مِنْ الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ رَمْیَةً بِحَجَرٍ

ابوھریرہ سے روایت ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے پاس ملک الموے آیا اور حضرت موسی سے عرض کرنے لگا اے موسی اپنے رب کی طرف چلئے حضرت موسی علیہ السلام نے اس فرشتے کو ایک تھپڑ مار کر اس کی آنکھ نکال دی موت کا فرشتہ واپس اللہ تعالی کی طرف لوٹا اور اس نے عرض کیا اے پروردگار تو نے مجھے ایک ایسے بندے کی طرف بھیجا ہے کہ جو موت نہیں چاھتا  اور اس نے میری آنکھ نکال دی ۔ اللہ تعالی نے اس کی آنکھ لوٹا دی اور فرمایا میرے بندے کی طرف دوبارہ جا اور ان سے کہہ کہ کیا آپ زندگی چاھتے ہیں؟ اگر آپ زندگی چاھتے ہیں تو اپنا ہاتھ بیل کی پشت پر رکھیں جتنے بال آپ کے ہاتھ کے نیچے آئیں گے اتنے سال آپ کی عمر بڑھا دی جائے گی، حضرت موسی کہنے لگے کہ پھر کیا ہوگا؟ انہوں نے کہا پھر موت ہے۔ حضرت موسی کہنے لگے کہ پھر موت ہے تو ابھی سہی اور حضرت موسی نے عرض کیا اے میرے پرودگار ارض مقدس سے ایک پتھر پھینکے جانے کے فاصلے پر میری روح نکالنا۔

صحیح مسلم کتاب _الفضائل_ باب_ من فضائل موسی

صحیح بخاری حدیث نمبر ۳۴۰۷، ۱۳۳۹

 

امام احمد بن حنبل نے اس روایت کو یوں نقل کیا ہے کہ

قَدْ کَانَ مَلَکُ الْمَوْتِ یَأْتِی النَّاسَ عِیَانًا قَالَ فَأَتَى مُوسَى فَلَطَمَهُ فَفَقَأَ عَیْنَهُ فَأَتَى رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَقَالَ یَا رَبِّ عَبْدُکَ مُوسَى فَقَأَ عَیْنِی وَلَوْلَا کَرَامَتُهُ عَلَیْکَ لَعَنُفْتُ بِهِ

ملک الموت پہلے سب کے سامنے آکر روح قبض کرنے کے لئے ان کے پاس پہنچے تو حضرت موسی نے ایک طمانچہ مارا ان کی آنکھ پھوڑ دی وہ پروردگار کے پاس واپس جاکر کہنے لگے کہ تیرے بندے نے میری آنکھ پھوڑ دی اگر آپ کی مہربانی ان پر نہ ہوتی تو میں بھی انہیں سخت جواب دیتا۔

مسند احمد بن حنبل حدیث ۱۰۴۸۴

 

اس روایت پر طائرانہ نظر

۱: یہ بات اللہ تعالی سے دور ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو نبوت کے لئے چنے کہ جو جابروں اور ظالموں کی طرح ظلم و تشدد کرتے ہوں۔

۲:  کیا ہوسکتا ہے کہ اللہ کے فرشتوں کو بندوں کی طرف سے کوئی نقصان پہنچے؟ یعنی اللہ جن ملائکہ کے ذریعے سے نظام کائنات چلا رہا ہے، جن ملائکہ کے ذریعے سے قبر میں ہر انسان سے سوالات پوچھے جائیں گے وہ ملائکہ خود بندوں کے عتاب و غضب کا نشانہ بنے؟

۳: کیا ہوسکتا ہے کہ انبیاء موت کو ناپسند کرتے ہوں؟ موت کا نام سن کر ظلم و بربریت پر اتر آتے ہوں؟

۴: کیا ہم اسی ظلم کی وجہ سے فرعون نمرود ابوجھل ابولہب سے برائت کا اظہار نہیں کرتے جنہوں نے انبیاء کرام کو طرح طرح اذیتیں دی ہیں؟ اگر اللہ کے رسل خود ایسے ظلم کا ارتکاب کرتے ہوں تو کیا وہ انبیاء باقی انسانوں کے لئے رول ماڈل بن سکتے ہیں؟

۵: ملک الموت یعنی موت کے فرشتے کا گناہ کیا ہے؟ حالانکہ ملک الموت تو اللہ کی جانب سے بھیجا گیا فرشتہ ہے۔ جب نبیوں میں سے کوئی نبی خود اللہ کی جانب سے بھیجے گئے فرشتے کی بات نہ مانتا ہو تو وہ نبی عام لوگوں سے کس بنیاد پر اپنی پیروی اور اتباع کا تقاضا کرسکتا ہے؟

۶: اس روایت میں بیل کے بالوں کی کیا حکمت ہے؟

۷: کیا اللہ نے نہیں فرمایا ہے کہ وَکَتَبْنَا عَلَیْهِمْ فِیهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَالْأَنْفَ بِالْأَنْفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ

ہم نے ان لوگوں کے لئے تورات میں یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے [المائدہ ۴۵]

تو اس صورت میں تو اللہ ضرور حضرت موسی سے قصاص لے لیتا مگر اس روایت میں تو بالکل الٹی منطق استعمال ہوئی ہے کہ موسی نے فرشتہ کی آنکھ نکالی اور بدلے میں اللہ نے اسے اور کئی سال زندگی دینے کی خوشخبری سنائی۔

۸: حضرت موسی سے پہلے ملک الموت سب کے سامنے آکر روح قبض کیا کرتے تھے اور تھپڑ اور طمانچہ کھانے کے بعد اب مخفی آنے لگا۔

کیا یہ بات دلیل نہیں کہ ملک الموت نعوذ باللہ ایک بزدل اور ڈرپوک ہستی ہے؟

 

اللہ کی عزت کی قسم یہ صرف اور صرف جھوٹ ہے ، ان روایات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ھریری روایات ہے کہ جو موصوف خود اپنی جیب سے نکال کر عوام میں لے کر آتے تھے۔

 

سلسلۃ الاحادیث الهریریة [3]

 

ابوھریرہ کی روایات میں انبیاء کی توھین [حضرت موسی کی توھین]

 

عَنْ أَبِى هُرَیْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله علیه وسلم - « إِنَّ مُوسَى کَانَ رَجُلاً حَیِیًّا سِتِّیرًا ، لاَ یُرَى مِنْ جِلْدِهِ شَىْءٌ ، اسْتِحْیَاءً مِنْهُ ، فَآذَاهُ مَنْ آذَاهُ مِنْ بَنِى إِسْرَائِیلَ ، فَقَالُوا مَا یَسْتَتِرُ هَذَا التَّسَتُّرَ إِلاَّ مِنْ عَیْبٍ بِجِلْدِهِ ، إِمَّا بَرَصٌ وَإِمَّا أُدْرَةٌ وَإِمَّا آفَةٌ . وَإِنَّ اللَّهَ أَرَادَ أَنْ یُبَرِّئَهُ مِمَّا قَالُوا لِمُوسَى فَخَلاَ یَوْمًا وَحْدَهُ فَوَضَعَ ثِیَابَهُ عَلَى الْحَجَرِ ثُمَّ اغْتَسَلَ ، فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ إِلَى ثِیَابِهِ لِیَأْخُذَهَا ، وَإِنَّ الْحَجَرَ عَدَا بِثَوْبِهِ ، فَأَخَذَ مُوسَى عَصَاهُ وَطَلَبَ الْحَجَرَ ، فَجَعَلَ یَقُولُ ثَوْبِى حَجَرُ ، ثَوْبِى حَجَرُ ، حَتَّى انْتَهَى إِلَى مَلإٍ مِنْ بَنِى إِسْرَائِیلَ ، فَرَأَوْهُ عُرْیَانًا أَحْسَنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ ، وَأَبْرَأَهُ مِمَّا یَقُولُونَ ، وَقَامَ الْحَجَرُ فَأَخَذَ ثَوْبَهُ فَلَبِسَهُ ، وَطَفِقَ بِالْحَجَرِ ضَرْبًا بِعَصَاهُ ، فَوَاللَّهِ إِنَّ بِالْحَجَرِ لَنَدَبًا مِنْ أَثَرِ ضَرْبِهِ ثَلاَثًا أَوْ أَرْبَعًا أَوْ خَمْسًا ، فَذَلِکَ قَوْلُهُ ( یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تَکُونُوا کَالَّذِینَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَکَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِیهًا )

 

صحیح بخاری کتاب: انبیاء علیہم السلام کا بیان حدیث نمبر: 3404

 

ترجمہ:

حضرت ابوھریرہ روایت کرتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام بڑے ہی شرم والے اور بدن ڈھانپنے والے تھے۔ ان کی حیاء کی وجہ سے ان کے بدن کو کوئی حصہ بھی نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ بنی اسرائیل کے جو لوگ انہیں اذیت پہنچانے کے درپے تھے ‘ وہ کیوں باز رہ سکتے تھے ‘ ان لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ اس درجہ بدن چھپانے کا اہتمام صرف اس لیے ہے کہ ان کے جسم میں عیب ہے یا کوڑھ ہے یا ان کے خصیتین بڑھے ہوئے ہیں یا پھر کوئی اور بیماری ہے۔ ادھر اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کی ان کی ہفوات سے پاکی دکھلائے۔ ایک دن موسیٰ علیہ السلام اکیلے غسل کرنے کے لیے آئے ایک پتھر پر اپنے کپڑے ( اتار کر ) رکھ دیئے۔ پھر غسل شروع کیا۔ جب فارغ ہوئے تو کپڑے اٹھانے کے لیے بڑھے لیکن پتھر ان کے کپڑوں سمیت بھاگنے لگا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا اٹھایا اور پتھر کے پیچھے دوڑے۔ یہ کہتے ہوئے کہ پتھر! میرا کپڑا دیدے۔ آخر بنی اسرائیل کی ایک جماعت تک پہنچ گئے اور ان سب نے آپ کو ننگا دیکھ لیا ‘ اللہ کی مخلوق میں سب سے بہتر حالت میں اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی تہمت سے ان کی برات کر دی۔ اب پتھر بھی رک گیا اور آپ نے کپڑا اٹھا کر پہنا۔ پھر پتھر کو اپنے عصا سے مارنے لگے۔ اللہ کی قسم اس پتھر پر موسیٰ علیہ السلام کے مارنے کی وجہ سے تین یا چار یا پانچ جگہ نشان پڑ گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان «یا أیها الذین آمنوا لا تکونوا کالذین آذوا موسى فبرأه الله مما قالوا وکان عند الله وجیها‏» "تم ان کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو اذیت دی تھی ‘ پھر ان کی تہمت سے اللہ تعالیٰ نے انہیں بری قرار دیا اور وہ اللہ کی بارگاہ میں بڑی شان والے اور عزت والے تھے۔" میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔

 

اس حدیث پر طائرانہ نظر:

۱: اس روایت میں کلیم اللہ حضرت موسی علیہ السلام کی توھین ہے کہ جس کا کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔

۲: اس روایت کا من گھڑت ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ اس میں ذکر ہے کہ حضرت موسی عریان ہوکر ایک پتھر کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔

۳: اس بات کو کہ حضرت موسی پر بنی اسرائیل کا اشکال تھا اور ان کے دفاع کے لئے یہ واقعہ پیش آیا کیا یہ واقعہ تحدی اور معجزہ کے مقام میں شمار کیا جائے گا؟

۴: اگر معجزہ اور تحدی کا مقام ہے تو یہاں تو حضرت موسی علیہ السلام نہا رہے تھے اور کہیں پر بھی اس روایت میں تذکرہ نہیں کہ حضرت موسی کو پہلے سے اس واقعے کا علم تھا اگر علم ہوتا تو وہ پتھر کے پیچھے نہ بھاگتے؟

۵: بالفرض اس واقعے کو مان لیا جائے تو جیسے پتھر حضرت موسی کے کپڑے لے کر بھاگتا حضرت موسی خود کو چھپانے کے لئے کوئی جگہ ڈھونڈتے ۔ کیونکہ ایسی حالت میں ہر صاحب عقل یہی کرتا ہے کہ یا کسی مخفی جگہ پر خود کو چھپاتا ہے یا پھر خود کو کسی چیز کے ذریعے سے ڈھانپ لیتا ہے۔

۶: یہ بات عقلی طور پر باطل ہے کہ ایک نبی کہ جو کلیم اللہ ہو جس کی عظمت کا تذکرہ قرآن جیسی کتاب کررہا ہو وہ ایک پتھر کے پیچھے ننگی حالت میں بھاگتا پھرے ایسے کہ سب ان کو ننگی حالت میں دیکھے۔

۷: اگر فرض کیا جائے کہ حضرت موسی کے جسم میں کوئی عیب و نقص تھا تو کیا مشکل ہے کیونکہ اور بھی ایسے نبی گزرے ہیں کہ جن کے جسم مبارک میں کوئی نہ کوئی عیب موجود تھا۔ جیسے حضرت شعیب کی بصارت، اور تمام کے تمام انبیا بیمار ہوا کرتے تھے وہاں تو نہ کوئی پتھر آیا اور نہ ہی کوئی ننگا دوڑا۔

۸: یہ بات کرنا کہ نبی اسرائیل یہ سمجھتے تھے کہ موسی علیہ السلام کو کوئی خاص عیب ہے صرف اور صرف ابوھریرہ سے مروی ہے اور کسی صحابی سے یہ بات منقول نہیں،

۹: اگر پتھر کا بھاگنا اللہ کے حکم سے تھا تو حضرت موسی علیہ السلام نے پتھر پر کیوں نکالا اور پتھر کو کیوں مارنے لگے کیا ان کو پتہ نہیں تھا کہ یہ پتھر اللہ کی طرف سے مامور ہے؟

۱۰: زیادہ تعجب کی بات تو یہ ہے بخاری اور مسلم سمیت اہل سنت کے اکثر محدثین نے اس روایت کو حضرت موسی علیہ السلام کی فضیلت میں ذکر کیا ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ اس واقعے میں کیا فضیلت ہے کیا حضرت موسی علیہ السلام کے کپڑوں کو پتھر کا لے جانا فضیلت ہے یا موسی علیہ السلام کا ننگا ہوکر سب کے سامنے آنا فضیلت ہے؟ پتھر کو مارنا فضیلت ہے یا بنی اسرائیل کی طرف سے حضرت موسی پر تہمت لگانا فضیلت ہے؟ یا حضرت موسی کی شرمگاہ کا مکشوف ہونا فضیلت ہے؟

11: البتہ یہ آیت ( یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تَکُونُوا کَالَّذِینَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَکَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِیهًا )

کہ جسے جناب ابوھریرہ نے اس واقعہ سے پر فٹ کی ہے بے بنیاد بات ہے کیونکہ امام علی علیہ السلام اور ابن عباس سے مروی ہے کہ یہ آیت بنی اسرائیل کی طرف سے حضرت موسی علیہ السلام پر حضرت ھارون علیہ السلام کے قتل کی تہمت کے بارے میں ہے۔

 

 

سلسلۃ الاحادیث الهریریة [4]

 

حضرت ابوھریرہ اور انبیاء کرام کی توھین

بخاری اور مسلم دونوں نے اپنی کتابوں میں کئی جگہ پر حضرت ابوھریرہ سے روایت نقل کی ہے۔

عَنْ أَبِى هُرَیْرَةَ  أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله علیه وسلم - قَالَ « نَحْنُ أَحَقُّ مِنْ إِبْرَاهِیمَ إِذْ قَالَ ( رَبِّ أَرِنِى کَیْفَ تُحْیِى الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَکِنْ لِیَطْمَئِنَّ قَلْبِى ) وَیَرْحَمُ اللَّهُ لُوطًا ، لَقَدْ کَانَ یَأْوِى إِلَى رُکْنٍ شَدِیدٍ وَلَوْ لَبِثْتُ فِى السِّجْنِ طُولَ مَا لَبِثَ یُوسُفُ لأَجَبْتُ الدَّاعِىَ » .

صحیح بخاری  حدیث نمبر: 3372 [أطرافه 3375 ، 3387 ، 4537 ، 4694 ، 6992 تحفة 13325 ، 15313]

ترجمہ:

ابوہریرہ  سے روایت کہ  رسول اللہ  نے فرمایا   ہم ابراہیم (علیہ السلام) کے مقابلے میں شک کرنے کے زیادہ مستحق ہیں جب کہ انہوں نے کہا تھا کہ میرے رب! مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا   کہا کیا تم ایمان نہیں لائے ‘ انہوں نے عرض کیا کہ کیوں نہیں ‘ لیکن یہ صرف اس لیے تاکہ میرے دل کو اور زیادہ اطمینان ہوجائے۔   اور اللہ لوط (علیہ السلام) پر رحم کر کہ وہ زبردست رکن کی پناہ لیتے تھے اور اگر میں اتنی مدت تک قید خانے میں رہتا جتنی مدت تک یوسف (علیہ السلام) رہے تھے تو میں بلانے والے کے بات ضرور مان لیتا۔

 

روایت پر طائرانہ نظر:

۱: اس روایت کے مطالعے سے ہر قاری کو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت ابوھریرہ نے اس روایت میں اللہ کا مردوں کو زندہ کرنے پر حضرت ابراھیم علیہ السلام کی جانب سے شک کو ثابت کیا ہے، یعنی نعوذ باللہ اللہ تبارک و تعالی کے اس فعل پر ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام کو بھی یقین نہیں تھا اور وہ بھی شک کے شکار ہوچکے تھے۔

 

۲: جب کہ اللہ تبارک و تعالی اپنی لا ریب کتاب میں فرماتا ہے کہ  وَکَذَلِکَ نُرِی إِبْرَاهِیمَ مَلَکُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِیَکُونَ مِنَ الْمُوقِنِینَ (انعام 75)  اور ہم اس طرح ابراھیم کو آسمانوں اور زمین کے عجائبات دکھانے لگے تاکہ وہ خوب یقین کرنے والوں میں ہوجائیں۔

زمین اور آسمانوں کے عجائبات پر حضرت ابراھیم کو یقین تھا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ ان کو پھر کوئی شک ہوجائے۔ اور عقل بذات خود ہر قسم کے شک کو انبیاء  سے نفی کرتی ہے۔

 

۳: یہ آیت کہ جس میں حضرت ابراھیم علیہ السلام نے کہا ہے کہ رَبِّ أَرِنِى کَیْفَ تُحْیِى الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَکِنْ لِیَطْمَئِنَّ قَلْبِى  اس آیت میں کہیں بھی شک نہیں ہے بلکہ شک کی نفی ہے کہ جب حضرت ابراھیم ع نے سوال کیا تو اللہ نے پوچھا کہ کیا تم اس پر ایمان نہیں رکھتے حضرت ابراھیم ع نے جواب دیا کہ میں ایمان رکھتا ہوں۔

 

۴: اس آیت میں حضرت ابراھیم ع نے اللہ سے تقاضا کیا ہے کہ مردوں کو کیسے زندہ کیا جائے گا یعنی وہ کیفیت کے بارے میں پوچھا ہے۔ حضرت ابراھیم زندہ کرنے کی وہ کیفیت دیکھنا چاھتے تھے۔ حضرت ابراھیم ع کے جملے میں ہی کیف کا استعمال ہے۔

 

۵: پس حضرت ابراھیم ع کو کسی قسم کا کوئی شک نہیں تھا، بلکہ وہ مردوں کو زندہ کرنے کی کیفیت دیکھنا چاھتے تھے، اگر ان کو شک ہوتا تو بعد جملے میں ان کا ایمان پر خود اعتراف موجود نہ ہوتا۔

 

۶: اس روایت میں رسول اللہ پر جھوٹ باندھا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ہم ابراھیم کے مقابلے میں شک کرنے کے زیادہ مستحق ہیں؟

سوال : کیوں مستحق ہیں؟ کیا رسول اللہ حضرت ابراھیم سے افضل نہیں؟ کیا رسول اللہ کو مردوں کو زندہ کرنے پر ایمان نہیں تھا؟  اگر اس روایت کو مان لی جائے تو اس کا لازمہ رسول اللہ کا عدم ایمان ہے، نعوذ باللہ

 

۷: اس روایت میں یہ بھی ذکر ہے کہ حضرت یوسف کی جگہ رسول اللہ ہوتے تو وہ بلانے والے کی آواز کو قبول کرتے اور قید سے نکلتے ۔

یہ بات بھی انتہائی توھین آمیز ہے۔ حضرت یوسف ع اس لئے نہیں نکلے تھے کیونکہ ان کے اوپر زلیخا اور مصر کی عورتوں کی طرف سے تہمت تھی، جب حضرت یوسف ع کو رہائی کا کہا گیا تو انہوں نے خود کہا کہ پہلے مجھ پر لگے گئے تہمت کے بارے میں جستجو اور جانچ پڑتال ہونی چاھئیے۔ اور نتیجہ بھی یہی ہوا کہ حضرت یوسف ع قید سے ایسی حالت میں نکلے کہ ان پر لگے گئے تہمت ختم ہوگئے تھے۔

 

۸: اگر اس روایت کو درست مان لیا جائے تو اس صورت میں حضرت ابراھیم اور حضرت یوسف ع دونوں کا نبی اکرم سے افضل ہونا لازم آئے گا۔

 

 

سلسلۃ الاحادیث الهریریة [5]

 

حضرت ابوھریرہ اور حضرت ایوب علیہ السلام کا بیان

بخاری اور مسلم  دونوں نے  حضرت ابوھریرہ سے روایت نقل کی ہے کہ    

عَنْ أَبِى هُرَیْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ - صلى الله علیه وسلم - قَالَ « بَیْنَا أَیُّوبُ یَغْتَسِلُ عُرْیَانًا فَخَرَّ عَلَیْهِ جَرَادٌ مِنْ ذَهَبٍ ، فَجَعَلَ أَیُّوبُ یَحْتَثِى فِى ثَوْبِهِ ، فَنَادَاهُ رَبُّهُ یَا أَیُّوبُ ، أَلَمْ أَکُنْ أَغْنَیْتُکَ عَمَّا تَرَى قَالَ بَلَى وَعِزَّتِکَ وَلَکِنْ لاَ غِنَى بِى عَنْ بَرَکَتِکَ » . وَرَوَاهُ إِبْرَاهِیمُ عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ عَنْ صَفْوَانَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ یَسَارٍ عَنْ أَبِى هُرَیْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ - صلى الله علیه وسلم - قَالَ « بَیْنَا أَیُّوبُ یَغْتَسِلُ عُرْیَانًا » .

بخاری حدیث 279

طرفاه 3391 ، 7493 - تحفة 14724 ، 14224

 

ترجمہ :

حضرت ابوھریرہ روایت کرتے ہیں کہ [ ایک بار] حضرت ایوب علیہ السلام ننگے غسل فرما رہے تھے کہ سونے کی ٹڈیاں آپ پر گرنے لگیں۔ ایوب علیہ السلام انہیں اپنے کپڑے میں سمیٹنے لگے۔ اتنے میں ان کے رب نے انہیں پکارا کہ اے ایوب کیا میں نے تمہیں اس چیز سے بے نیاز نہیں کردیا جسے تم دیکھ رہے ہو۔ ایوب علیہ السلام نے جواب دیا ہاں تیری بزرگی کی قسم! لیکن تیری برکت سے میرے لئے بے نیازی کیونکر ممکن ہے۔

 

حدیث پر طائرانہ نظر:

۱: اس روایت کو کوئی بھی قبول نہیں کرے گا سوائے اس کے کہ جو بصیرت کی نعمت سے خالی ہو اور جس کے حس تاریکیوں میں ہوں۔

 

۲: سونے کی ٹڈیاں کا گرنا ہر کسی کی بس کا کام نہیں بلکہ یہ کام صرف اللہ ہی کرتا ہے اور یہ کام اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی شمار ہوگی۔

 

۳:  اللہ کی اس طرح کی نشانی کبھی بھی عبث اور بے فائدہ نہیں بلکہ اس وقت اللہ ایسی نشانیاں دکھاتا ہے کہ جب اس کے نبی کی نبوت کا ثبوت اسی نشانی پر موقوف ہو۔ تاکہ اس نشانی سے نبی کی رسالت یا نبوت لوگوں کو اظہر من الشمس ہوجائے۔

 

۴: معلوم نہیں کہ یہاں ایسی حالت میں اس نشانی کا ظاہر ہونا کہ جب اللہ کا نبی تنہائی میں نہا رہے ہوں اور کوئی بھی ان کو دیکھنے والا نہ ہو ،  کس فائدے کا حامل ہے۔

 

۵: اگر اس روایت کو مان لیا جائے تو کیا اللہ کی یہ نشانی عبث اور بے مقصد نہیں ہوگی۔

 

۶: بالفرض اگر ہم اس واقعے کو مان لیں تو اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایک نبی نے مال جمع کر رہے تھے اور اللہ کو یہ فعل ناپسند ہوئی۔

نبی کا مال کو اکھٹا کرنا اللہ کو ناپسند ہونا ہی اس روایت کی کذب پر کافی ہے کیونکہ انبیا تو صرف اور صرف اس لئے مال جمع کرتے ہیں تاکہ غریبوں ، یتیموں اور حاجت مندوں و ضرورت مندوں پر انفاق کرسکے اور ان کی مدد کرسکے۔ ایسی صورت میں یہ فعل اللہ کو بہت محبوب ہے، پھر اللہ کیوں ناپسندی کا اظہار کرے۔

 

۷: حقیقت یہی ہے کہ حضرت ابوھریرہ کے بیان کردہ یہ مزعومہ قصے اللہ کے نبیوں کے لئے توھین کے سوا کچھ نہیں۔

 

 

 

سلسلۃ الاحادیث الهریریة [6]

حضرت ابوھریرہ اور انبیاء کی توھین

 

بخاری اور مسلم سمیت کئی اہل سنت محدثین نے یہ روایت نقل کی ہے کہ

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله علیه وسلم - یَقُولُ « قَرَصَتْ نَمْلَةٌ نَبِیًّا مِنَ الأَنْبِیَاءِ ، فَأَمَرَ بِقَرْیَةِ النَّمْلِ فَأُحْرِقَتْ ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَیْهِ أَنْ قَرَصَتْکَ نَمْلَةٌ أَحْرَقْتَ أُمَّةً مِنَ الأُمَمِ تُسَبِّحُ » .

بخاری حدیث نمبر 3019 - طرفه 3319 - تحفة 13319 ، 15307 - 76/4

 

ترجمہ :

حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ فرما رہے تھے کہ ایک چیونٹی نے ایک نبی [عزیر یا موسی علیہما السلام] کو کاٹ لیا تھا ۔ تو ان کے حکم سے چیونٹیوں کے سارے گھر جلا دئیے گئے ۔ اس پر اللہ تعالی نے ان کے پاس وحی بھیجی کہ اگر تمھیں ایک چیونٹی نے کاٹ لیا تھا تو تم نے ایک ایسی خلقت کو جلاکر خاک کردیا جو اللہ کی تسبیح بیان کرتی تھی۔

 

روایت پر طائرانہ نظر:

۱: حضرت ابوھریرہ نے ساری وہی باتیں انبیاء کی طرف منسوب کی ہیں کہ جن کو سننا کسی مسلمان کو پسند نہیں ہیں۔

 

۲: اس روایت کے جھوٹے ہونے کے لئے خود اسی روایت کا مطالعہ ہی کافی ہے۔ کیونکہ انبیاء کبھی بھی ظلم نہیں کرتے، نہ کسی انسان پر اور نہ ہی حیوان پر۔

 

۳: اسی روایت کے جھوٹے ہونے کے لئے امام علی علیہ السلام کا ایک ارشاد ہی کافی ہے جو کہ نھج البلاغہ میں درج ہے کہ والله لو أعطیت الاقالیم السبعة بما تحت أفلاکها على أن أعصی الله فی نملة أسلبها جلب شعیرة ما فعلت

اللہ کی قسم اگر ہفت اقلیم ان چیزوں سمیت جو آسمان کے نیچے ہیں مجھے دے دئیے جائیں صرف اللہ کی اتنی معصیت کے بدلے کہ میں چیونٹی سے جو کا ایک چھلکا چھین لوں تو کبھی بھی ایسا نہیں کروں گا ( نھج البلاغہ خطبہ ۲۲۱)

ایسے الہی تعلیمات کی صورت میں کیا اللہ کا بھیجا ہوا نبی کبھی کسی مخلوق پر ظلم کرسکتا ہے؟

 

۴: نہیں معلوم کہ حضرت ابوھریرہ کی اس روایت کو صحیح کہنے والے اس نبی کے بارے میں کیا کہتے ہیں کہ جس نے [نعوذباللہ] اللہ کی ایسی مخلوقات کو جلا ڈالی ہے کہ جو اللہ کی تسبیح کرتی تھی۔ حالانکہ یہ لوگ رسول اللہ کے اس قول کو مانتے  ہیں کہ آگ کے ذریعے سے صرف اللہ کو عذاب و عقاب دینے کا حق ہے۔

 

۵: ابوداود نے صحیح سند کے ساتھ روایت نقل کی ہے [ وہ روایت بخاری و مسلم کے شرائط کے مطابق صحیح ہے] کہ نبی اکرم نے چیونٹیوں کو مارنے سے منع کیا ہے۔

 

۶: انبیاء  پر ایسے جھوٹ باندھنے والوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔

 

 

 

سلسلۃ الاحادیث الهریریة [7]

 

نبی کی نبی سے مخالفت، حضرت ابوھریرہ کی روایت میں

 

6769 - حَدَّثَنَا أَبُو الْیَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَیْبٌ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِى هُرَیْرَةَ - رضى الله عنه - أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله علیه وسلم - قَالَ « کَانَتِ امْرَأَتَانِ مَعَهُمَا ابْنَاهُمَا ، جَاءَ الذِّئْبُ فَذَهَبَ بِابْنِ إِحْدَاهُمَا فَقَالَتْ لِصَاحِبَتِهَا إِنَّمَا ذَهَبَ بِابْنِکِ . وَقَالَتِ الأُخْرَى إِنَّمَا ذَهَبَ بِابْنِکِ . فَتَحَاکَمَتَا إِلَى دَاوُدَ - عَلَیْهِ السَّلاَمُ - فَقَضَى بِهِ لِلْکُبْرَى ، فَخَرَجَتَا عَلَى سُلَیْمَانَ بْنِ دَاوُدَ - عَلَیْهِمَا السَّلاَمُ - فَأَخْبَرَتَاهُ فَقَالَ ائْتُونِى بِالسِّکِّینِ أَشُقُّهُ بَیْنَهُمَا . فَقَالَتِ الصُّغْرَى لاَ تَفْعَلْ یَرْحَمُکَ اللَّهُ . هُوَ ابْنُهَا . فَقَضَى بِهِ لِلصُّغْرَى » . طرفه 3427

 

 

 

ترجمہ:

حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ دو عورتیں تھیں اور ان کے ساتھ ان کے دو بچے بھی تھے پھر بھیڑیا آیا اور ایک بچے کو اٹھا کر لے گیا اس نے اپنی ساتھی عورت سے کہا کہ بھیڑیا تیرے بچے کو لے گیا ہے ، دوسری عورت نے کہا کہ وہ تو تیرا بچہ لے گیا ہے۔ وہ دونوں عورتیں اپنا مقدمہ داود علیہ السلام کے پاس لائیں تو آپ نے فیصلہ بڑی کے  حق میں کردیا ۔ وہ دونوں نکل کر سلیمان بن داود کے پاس گئیں اور انہیں واقعہ کی اطلاع دی ۔ سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ چھری لاو میں لڑکے کے دو ٹکڑے کرکے دونوں کو ایک ایک دوں گا۔ اس پر چھوٹی عورت بول اٹھی کہ ایسا نہ کیجئے آپ پر اللہ رحم کرے یہ بڑی ہی کا لڑکا ہے پس آپ علیہ السلام نے فیصلہ چھوٹی عورت کے حق میں کیا۔

 

اس روایت پر طائرانہ نظر:

 

۱: سب سے پہلے تو قرآن کی ان آیات کو ملاحظہ فرمائیں:

یَا دَاوُدُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیفَةً فِى الأَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ

اے داود ہم نے تمھیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے لہذا تم لوگوں کے درمیان برحق فیصلے کرو، [ص 26 ]

وَاذْکُرْ عَبْدَنَا دَاوُودَ ذَا الْأَیْدِ إِنَّهُ أَوَّابٌ (17) إِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهُ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْإِشْرَاقِ (18) وَالطَّیْرَ مَحْشُورَةً کُلٌّ لَهُ أَوَّابٌ (19) وَشَدَدْنَا مُلْکَهُ وَآتَیْنَاهُ الْحِکْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ (20)

ہمارے بندے داود کو یاد کرو جو بڑے طاقتور تھے وہ بیشک اللہ سے بہت لو لگائے ہوئے تھے۔ ہم نے پہاڑوں کو اس کام پر لگا دیا تھا کہ وہ شام کے وقت اور سورج نکلتے وقت ان کے ساتھ تسبیح کیا کریں۔ اور پرندوں کو بھی جنہیں اکٹھا کرلیا جاتا تھا یہ سب ان کے ساتھ ملکر اللہ کا خوب ذکر کرتے تھے۔ اور ہم نے ان کی سلطنت کو استحکام بخشا تھا اور انہیں دانائی اور فیصلہ کن گفتگو کا سلیقہ عطا کیا تھا۔ [ص  17,18,19,20]

وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیِّینَ عَلَى بَعْضٍ وَآتَیْنَا دَاوُودَ زَبُورًا (اسراء 55)

اور ہم نے کچھ نبیوں کو دوسرے نبیوں پر فضیلت دی ہے اور ہم نے داود کو زبور عطا کی تھی۔

 

وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِکَ هُمُ الْکَافِرُونَ (المائدہ 44)

اور جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرے وہ لوگ کافر ہیں

وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِکَ هُمُ الظَّالِمُونَ (المائدہ 45)

اور جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرے وہ لوگ ظالم ہیں

وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِکَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (المائدہ 47)

اور جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرے وہ لوگ فاسق ہیں

 

۲: پس حضرت داود کو اللہ نے زبور کے ذریعے فضیلت دی ہے وہ یقینا معصوم عن الخطا ہیں بالخصوص قضاوت کے دوران۔

اور حضرت سلیمان بھی معصوم عن الخطا ہیں اور اپنے والد کا علم اور حکمت  میں وارث ہیں۔

کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ کا نبی حضرت داود علیہ السلام غلط فیصلہ کرے اور حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داود کے فیصلے کو ٹھکراے اور اپنا فیصلہ سنائے؟ اگر اس روایت کو مان لی جائے تو حضرت سلیمان کو یہ حق نہیں کہ وہ ایک حاکم کہ جو نبی ہیں اور بافضیلت نبی ہیں کا فیصلہ نہ مانے اور جدید فیصلہ سنائے۔

 

۳:  یہ حدیث یقینا ایک جھوٹی حدیث ہے اگر اس کو صحیح مانا جائے تو ان دو معصوم عن الخطا نبی میں سے ایک کے فیصلہ کو خطا پر ماننا پڑے گا۔ اور امکان نہیں رکھتا کہ انبیا خود گناہ اور خطا کا شکار ہوں۔

 

۴: اگر اس روایت کو صحیح مان لیا جائے تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ ان دو نبیوں میں سے ایک نعوذ باللہ فاسق ظالم اورکافر ہیں کیونکہ قرآن کی رو سے کافر فاسق اور ظالم ہی اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا۔

 

۵: زیادہ تعجب تو یہ ہے کہ سکین( چھری) کا لفظ حضرت ابوھریرہ  نے سنا ہی نہیں تھا حالانکہ عرب کے ہا لفظ مدیہ سے زیادہ سکین کا لفظ زیر استعمال ہے، لگتا نہیں کہ اس وقت کوئی شخص سکین کے لفظ نا اشنا ہو، اس کے علاوہ بھی کیا حضرت ابوھریرہ نے قرآن کی آیت نہیں پڑھی تھی کہ جس میں واضح طور پر سکین کا لفظ آیا ہوا ہے، سورہ یوسف کی آیت ہے کہ وَآتَتْ کُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ سِکِّینًا سورہ یوسف آیت ۳۱

اور سورۃ یوسف پوری کی پوری مکے میں نازل ہوئی ہے سوائے پہلے تین آیتیں اور چوتھی آیت لقد کان یوسف و اخوتہ آیات للسائلین۔

 

۶: سکین کے لفظ حضرت ابوھریرہ واقف نہیں تھے جیسے انہوں نے خود ایسی کوئی روایت نقل ہی نہ کی ہو کہ جس میں سکین کا لفظ ہو، حالانکہ وہ خود ایسی روایت کو نقل کرنے والے ہیں کہ جس میں لفظ سکین استعمال ہوا ہے جیسا کہ

عن ابی ھریرہ: من جعل قاضیا بین الناس فقد ذبح بغیر سکین۔ [ مسند احمد بن حنبل]

 

۷ : اس روایت کو صحیح کہنے والوں کے پاس کیا جواب ہے ؟؟ یا یہاں بھی اجتہادی غلطی کا رٹ لگاتے ہیں؟ تو ہمیں بتا دیں کہ اجتہادی غلطی کس نے کی ہے حضرت داود علیہ السلام نے یا حضرت سلیمان علیہ السلام نے؟

 

۸: انبیاء پر جھوٹ باندھنے اور باندھنے والوں سے اللہ کی پناہ

 

 

سلسلۃ الاحادیث الهریریة [8]

حضرت ابوھریرہ اور  حضرت عمر بن خطاب

 

بخاری اور مسلم سمیت اہل سنت کی کئی حدیثی کتب میں یہ روایت نقل ہے کہ

 

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِیمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِیهِ عَنْ أَبِى سَلَمَةَ عَنْ أَبِى هُرَیْرَةَ - رضى الله عنه - عَنِ النَّبِىِّ - صلى الله علیه وسلم - قَالَ « إِنَّهُ قَدْ کَانَ فِیمَا مَضَى قَبْلَکُمْ مِنَ الأُمَمِ مُحَدَّثُونَ ، وَإِنَّهُ إِنْ کَانَ فِى أُمَّتِى هَذِهِ مِنْهُمْ ، فَإِنَّهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ » .

صحیح بخاری حدیث نمبر 3469 -طرفه 3689 - تحفة 14954

 

حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا کہ گزشتہ امتوں میں محدث لوگ ہوا کرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا ہے تو وہ عمر بن خطاب ہے۔

محدث : یعنی وہ کہ جس سے ملائکہ ہم کلام ہو۔ ( یا وہ الہی الھام ایسا کہ جیسے کوئی فرشتہ ہم کلام ہے)

 

روایت پر طائرانہ نظر:

۱: یقینا یہ روایت رسول اللہ کے وصی و جانشین امام علی علیہ السلام کے خلاف اور ان کے مقام کو گھٹانے کے لئے بنی امیہ نے  حضرت ابوھریرہ سے لکھوائی ہے۔

۲: محدث ہونے کے لئے ضروری ہے کہ بندہ معصوم ہو، گزشتہ امتوں اور اس امت کے وہ لوگ جو محدث تھے وہ معصوم عن الخطا تھے۔

 

۳: ملائکہ کا ہم کلام ہونا یا علی سبیل الحقیقہ ہے جیسے انبیاء  سے ہم کلام ہوتے ہیں یا علی سبیل المجاز یعنی الھام کہ جو معصوم کو اللہ کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے وہ روز روشن کی طرح حق ہی حق ہوتا ہے۔ کہ جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ جیسے کوئی فرشتہ ہم کلام ہوا ہے حالانکہ فرشتہ ہم کلام نہیں ہوتا بلکہ محدث کے دل میں الہی الھام پہنچتا ہے۔ اس کے لئے معصوم ہونا ضروری ہے کیونکہ گزشتہ امتوں کے تمام کے تمام محدث معصوم تھے۔ جیسے حضرت مریم علیہا السلام

اور اس امت میں وہی محدث ہوسکتا ہے کہ جو حضرت ہارون علیہ السلام کی منزلت پر ہو۔
 

۴:یا تو حضرت عمر معصوم ہے یا پھر یہ روایت جھوٹ ہے؟

 

۵: حضرت عمر تو کبھی بھی معصوم نہیں ہوسکتے کیونکہ ان کو عمر کی تیس چالیس سال ایسے گزرے ہیں کہ ان کو خود پتہ نہیں تھا کہ معبود کون ہے اللہ یا بت؟

 

۶: یقینا یہ حدیث حضرت عمر کے فوت ہونے سے کئی سال بعد بنی امیہ کے دور میں گھڑی گئی ہے۔

 

۷: اگر یہ حدیث درست ہوتی تو ضرور حضرت عمر اس حدیث سے استناد کرتے،

 

۸: اہل سنت کبھی بیان کرتے ہیں کہ اگر نبی کے بعد نبوت ہوتی تو حضرت عمر نبی ہوتا۔ کبھی یہ روایت سامنے آتی ہے کہ نبی اکرم نے ان کو محدث قرار دیا ہے، ایسی صورت میں اہل سنت کے ہاں نبی کے بعد سب سے افضل حضرت عمر کو ہونا چاھئیے تھا، حالانکہ اہل سنت کے ہاں سب سے افضل حضرت ابوبکر ہیں کہ نہ تو ان میں نبی ہونے کی صلاحیت تھی اور نہ وہ محدث ہیں۔ اللہ جانے کس بنیاد پر ان کو حضرت عمر سے افضل قرار دیا جاتا ہے۔

 

۹: یہ خیالی قصے کہانیوں کا ایک ہی منبع و ماخذ ہیں اور وہ ہیں حضرت ابوھریرہ۔

 

۱۰: حضرت عمر کے کردار سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ نہ تو نبوت کی صلاحیت رکھتے تھے اور نہ ہی محدث تھے۔ تراویح کو باجماعت پڑھوانا [خود ہی اس کو بدعت کہنا] ، متعۃ النکاح کو حرام قرار دینا، متعۃ الحج کو حرام قرار دینا، حضرت زھراء کے گھر پر جاکر دھمکی دینا کبھی بھی ایک محدث کے کام نہیں ہوتے۔

 

 

سلسلۃ الاحادیث الهریریة [9]

 

 

حضرت ابوھریرہ کی ماں کا واقعہ خود ان کی زبانی

 

صحیح مسلم میں روایت ہے کہ

 

حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ یُونُسَ الْیَمَامِىُّ حَدَّثَنَا عِکْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ عَنْ أَبِى کَثِیرٍ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنِى أَبُو هُرَیْرَةَ قَالَ کُنْتُ أَدْعُو أُمِّى إِلَى الإِسْلاَمِ وَهِىَ مُشْرِکَةٌ فَدَعَوْتُهَا یَوْمًا فَأَسْمَعَتْنِى فِى رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله علیه وسلم- مَا أَکْرَهُ فَأَتَیْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله علیه وسلم- وَأَنَا أَبْکِى قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّى کُنْتُ أَدْعُو أُمِّى إِلَى الإِسْلاَمِ فَتَأْبَى عَلَىَّ فَدَعَوْتُهَا الْیَوْمَ فَأَسْمَعَتْنِى فِیکَ مَا أَکْرَهُ فَادْعُ اللَّهَ أَنْ یَهْدِىَ أُمَّ أَبِى هُرَیْرَةَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله علیه وسلم- « اللَّهُمَّ اهْدِ أُمَّ أَبِى هُرَیْرَةَ ». فَخَرَجْتُ مُسْتَبْشِرًا بِدَعْوَةِ نَبِىِّ اللَّهِ -صلى الله علیه وسلم- فَلَمَّا جِئْتُ فَصِرْتُ إِلَى الْبَابِ فَإِذَا هُوَ مُجَافٌ فَسَمِعَتْ أُمِّى خَشْفَ قَدَمَىَّ فَقَالَتْ مَکَانَکَ یَا أَبَا هُرَیْرَةَ. وَسَمِعْتُ خَضْخَضَةَ الْمَاءِ قَالَ - فَاغْتَسَلَتْ وَلَبِسَتْ دِرْعَهَا وَعَجِلَتْ عَنْ خِمَارِهَا فَفَتَحَتِ الْبَابَ ثُمَّ قَالَتْ یَا أَبَا هُرَیْرَةَ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ - قَالَ - فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله علیه وسلم- فَأَتَیْتُهُ وَأَنَا أَبْکِى مِنَ الْفَرَحِ - قَالَ - قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّهِ أَبْشِرْ قَدِ اسْتَجَابَ اللَّهُ دَعْوَتَکَ وَهَدَى أُمَّ أَبِى هُرَیْرَةَ. فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَیْهِ وَقَالَ خَیْرًا - قَالَ - قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ یُحَبِّبَنِى أَنَا وَأُمِّى إِلَى عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِینَ وَیُحَبِّبَهُمْ إِلَیْنَا - قَالَ - فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله علیه وسلم- « اللَّهُمَّ حَبِّبْ عُبَیْدَکَ هَذَا - یَعْنِى أَبَا هُرَیْرَةَ وَأُمَّهُ - إِلَى عِبَادِکَ الْمُؤْمِنِینَ وَحَبِّبْ إِلَیْهِمُ الْمُؤْمِنِینَ ». فَمَا خُلِقَ مُؤْمِنٌ یَسْمَعُ بِى وَلاَ یَرَانِى إِلاَّ أَحَبَّنِى.

 

صحیح مسلم کتاب: فضائل کا بیان باب: ابوہریرہ کے فضائل کے بیان میں حدیث نمبر: 6396

 

ترجمہ:

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ میں اپنی والدہ کو اسلام کی طرف دعوت دیتا تھا اور وہ مشرکہ تھیں میں نے ایک دن انہیں دعوت دی تو اس نے رسول اللہ کے بارے میں ایسے الفاظ مجھے سنائے جنہیں میں گورا نہ کرتا تھا میں رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اس حال میں کہ میں رو رہا تھا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں اپنی والدہ کو اسلام کی طرف دعوت دیتا تھا اور وہ انکار کرتی تھی میں نے آج انہیں دعوت دی تو اس نے ایسے الفاظ آپ کے بارے میں مجھے سنائے جنہیں (سننا) مجھے گوارا نہ تھا آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ ابوہریرہ کی والدہ کو ہدایت عطا فرمائے رسول اللہ نے فرمایا اے اللہ ابوہریرہ کی والدہ کو ہدایت عطا فرما میں نبی کی دعا لے کر خوشی سے نکلا جب میں آیا اور دروازہ پر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بند کیا ہوا ہے پس میری والدہ نے میرے قدموں کی آہٹ سنی تو کہا اے ابوہریرہ اپنی جگہ پر رک جاؤ اور میں نے پانی گرنے کی آواز سنی پس اس نے غسل کیا اور اپنی قمیض پہنی اور اپنا دوپٹہ اوڑھتے ہوئے جلدی سے باہر آئیں اور دروازہ کھولا پھر کہا اے ابوہریرہ (أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ) میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی مبعود نہیں اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں میں رسول اللہ کی طرف لوٹا اور میں خوشی سے رو رہا تھا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! خوشخبری ہو اللہ نے آپ کی دعا کو قبول فرما لیا اور ابوہریرہ کی والدہ کو ہدایت عطا فرما دی پس آپ نے اللہ عزوجل کی تعریف اور اس کی صفت بیان کی اور کچھ بھلائی کے جملے ارشاد فرمائے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! اللہ سے دعا مانگیں کہ وہ میری اور میری والدہ کی محبت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں ڈال دے اور ہمارے دلوں میں ان کی محبت پیدا فرما دے تو رسول اللہ نے فرمایا اے اللہ! اپنے بندوں کے ہاں محبوب بنا دے اور مؤمنین کی محبت ان کے دلوں میں ڈال دے اور کوئی مومن ایسا پیدا نہیں ہوا جس نے میرا ذکر سنایا مجھے دیکھا ہوا اور اس نے مجھ سے محبت نہ کی ہو۔

 

روایت پر طائرانہ نظر:

۱: تمام حدیثی کتابوں میں اگر تلاش کی جائے تو یہ روایت صرف اور صرف حضرت ابوھریرہ نے روایت کی ہے، کسی اور کو اس واقعہ کا کوئی پتہ نہیں اگر پتہ ہوتا تو کم از کم ایک اور صحابی تو ضرور اس واقعے کو لوگوں میں بیان کرتا۔

 

۲: اگر حضرت ابو ھریرہ کی ماں کافر اور مشرکہ تھی تو وہ یمن سے مدینہ کس لئے ھجرت کر آئی تھی۔ ان کا علاقہ تو یمن تھا اب وہ یمن سے اسلام لانے مدینہ نہیں آئی تھی تو کس لئے آئی تھی؟

 

۳: اگر حضرت ابوھریرہ کی ماں نے رسول اللہ کے دور میں ہی اسلام لایا ہے تو وہ یقینا صحابیہ ہوگی، کیا اہل سنت کا کوئی عالم ہماری رہنمائی کریں گے کہ ان کو آپ کے کس کتاب میں صحابیہ لکھا گیا ہے؟

 

۴: حضرت ابوھریرہ تو اصحاب صفہ میں سے تھے ہمیشہ بھوکے رہتے تھے کھانے کے لئے کچھ نہیں ہوتا تھا، گھر نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ مسجد کے صفہ میں رہا کرتے تھے، کبھی ایک صحابی کے پاس جاکر کھانا کھاتے تھے تو کبھی دوسرے صحابی کے پاس ۔ الغرض ان کی زندگی خیرات و صدقات پر چلتی تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ جب ان کے پاس کھانے کا کچھ نہیں تھا اور رہنے کے لئے گھر نہیں تھا تو پھر یہ واقعہ کہ ان کی ماں مشرکہ تھی وہ گھر گیا تو دیکھا کہ وہ مسلمان ہوئی ہیں چہ معنی دارد؟ جب گھر ہی نہیں تھا تو گھر میں ماں کہاں سے آئی؟

 

۵: اگر حضرت ابوھریرہ کی نقل کردہ یہ روایت درست ہے تو پھر تو یہ دلائل النبوۃ میں ہے کہ نبی کی دعا سے ایک عورت مسلمان ہوئی ہے۔ اور اعلام النبوۃ سب کے سب متواتر طرق سے کتب احادیث میں موجود ہیں کہ جن کو کبار و صغار صحابہ نے نقل کئے ہیں، پس پھر کیا وجہ ہے کہ انہوں نے اس واقعے کو نقل کرنے سے روگردانی کی ہے؟ اور صرف اور صرف حضرت ابوھریرہ نے ہی اس کو نقل کیا ہے۔

 

۶: اگر واقعا مومنین کے دلوں میں حضرت ابوھریرہ اور ان کی ماں کی محبت تھی تو یہ محبت تاریخ نے ہمیں دکھائی کیوں نہیں؟ پھر کیوں صحابہ نے ان کے خلاف اقدامات کئے ہیں۔جیسا کہ

امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ

الا ان اکذب الناس او قال اکذب الاحیائ علی رسول اللہ لابوھریرۃ الدوسی

اگاہ ہوجاو کہ رسول اللہ پر سب سے زیادہ جھوٹ باندھنے والا ابوھریرہ دوسی ہیں، ( شرح النھج الحمیدی جلد اول ص ۳۶۰ ابوجعفر الاسکافی)

یا مثلا حضرت عمر نے ابوھریرہ کو بحرین کی گورنری سے معزول کرکے ان کو بلا کر فرمایا کہ

یا عدو اللہ و عدو کتابہ سرقت مال اللہ ۔۔۔؟

اے اللہ اور اللہ کی کتاب کے دشمن تم نے بیت المال سے چوری کی ہے۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔(  طبقات الکبری۔ الاصابہ)

 

اسی طرح باقی صحابہ کی طرف حضرت ابوھریرہ کے خلاف اقدامات بیان کرنا اس بات کی تائید ہے کہ ان کی محبت مسلمانوں کے دلوں میں نہیں تھی؟

 

۷: ہاں ایک زمانہ ایسا آیا کہ لوگ حضرت ابوھریرہ سے محبت کرنے لگے مگر کون لوگ تھے وہ؟ وہ لوگ بنی امیہ تھے کہ جنہوں نے مال اور منصب سے ابوھریرہ سے محبت کا کھلم کھلا اظہار کیا۔

جیسا کہ مروان مدینہ پر گورنری کے زمانے میں جب مدینہ سے باہر جاتا تو ابوھریرہ کو اپنا جانشین مقرر کرتا۔

مروان نے ہی اس کی شادی بسرہ بنت غزوان سے کرائی۔

جب ابوھریرہ بیمار ہوئے تو مروان عیادت کے لئے آتا  اور شفا کے لئے دعائیں کرتا تھا۔

جب ابوھریرہ کی وفات ہوئی تو ان کی نماز جنازہ پڑھنے والا ولید بن عتبہ بن ابو سفیان تھا۔

جب معاویہ کو وفات کی خبر دی گئی تو اس نے مدینہ کے گورنر کو خط لکھا کہ ان کے ورثا کو دس ہزار رقم دے دی جائے۔ وغیرہ وغیرہ

یہ تمام باتیں صرف اس کی نشاندھی کرتی ہے کہ حضرت ابوھریرہ بنی امیہ کے ہاں ایک عظیم مقام رکھنے والے صحابی تھے وہ بنی امیہ جنہوں نے عمار بن یاسر ، حجر بن عدی اور باقی کئی صحابہ کو شہید کیا مگر ابوھریرہ پر ہمیشہ کرم و نوازی کرتے تھے۔

 

 

سلسلۃ الاحادیث الهریریة [10]

حضرت ابوھریرہ اور اس کا غلام

صحیح بخاری میں روایت ہے کہ

عَنْ أَبِى هُرَیْرَةَ قَالَ لَمَّا قَدِمْتُ عَلَى النَّبِىِّ - صلى الله علیه وسلم - قُلْتُ فِى الطَّرِیقِ یَا لَیْلَةً مِنْ طُولِهَا وَعَنَائِهَا عَلَى أَنَّهَا مِنْ دَارَةِ الْکُفْرِ نَجَّتِ قَالَ وَأَبَقَ مِنِّى غُلاَمٌ لِى فِى الطَّرِیقِ - قَالَ - فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلَى النَّبِىِّ - صلى الله علیه وسلم - بَایَعْتُهُ ، فَبَیْنَا أَنَا عِنْدَهُ إِذْ طَلَعَ الْغُلاَمُ ، فَقَالَ لِى رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله علیه وسلم - « یَا أَبَا هُرَیْرَةَ ، هَذَا غُلاَمُکَ » . فَقُلْتُ هُوَ حُرٌّ لِوَجْهِ اللَّهِ . فَأَعْتَقْتُهُ . لَمْ یَقُلْ أَبُو کُرَیْبٍ عَنْ أَبِى أُسَامَةَ حُرٌّ .

 صحیح بخاری 2531 - أطرافه 2530 ، 2532 ، 4393

 

ترجمہ:

حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ جب میں نبی اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو آتے ہوئے راستے میں یہ شعر کہا

ہے پیاری گو کٹھن ہے اور لمبی میری رات

پر دلائی اس نے دارالکفر سے مجھ کو نجات

انہوں نے بیان کیا کہ راستے میں میرا غلام مجھ سے بچھڑ گیا تھا پھر جب میں نبی اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اسلام پر قائم رہنے کے لئے میں نے آپ سے بیعت کرلی۔ میں ابھی آپ کے پاس بیٹھا ہی ہوا تھا کہ وہ غلام دکھائی دیا رسول اللہ نے فرمایا ابوھریرہ! یہ دیکھ تیرا غلام بھی آگیا میں نے کہا یا رسول اللہ ! وہ اللہ کے لئے آزاد ہے پھر میں نے اسے آزاد کرلیا۔

اس روایت پر طائرانہ نظر:

۱: اس روایت کی تکذیب کے لئے حضرت ابوھریرہ کے اپنے ہی روایات کافی ہیں۔

 

۲: کیا حضرت ابوھریرہ اصحاب صفہ میں نہیں تھے جن کے پاس نہ رہنے کے لئے گھر تھا اور نہ کھانے کے لئے طعام؟

 

۳: کیا صحیح بخاری میں ہی یہ روایت نہیں ہے کہ جس میں خود حضرت ابوھریرہ کہتے ہیں کہ

اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبوچ نہیں میں بھوک کے مارے زمیں پر اپنے پیٹ کے بل لیٹ جاتا تھا اور کبھی میں بھوک کے مارے اپنے پیٹ پر پتھر باندھا کرتا تھا ایک دن میں اس راستے پر بیٹھ گیا جس سے صحابہ نکلتے تھے۔ حضرت ابوبکر گزرے اور میں نے ان سے کتاب اللہ کی ایک آیت کے بارے میں پوچھا، میرے پوچھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ مجھے کچھ کھلا دیں مگر وہ چلے گئے اور کچھ نہیں اس کے بعد حضرت عمر گزرے میں نے ان سے بھی قرآن مجید کی ایک آیت پوچھی اور پوچھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ مجھے کچھ کھلا دیں مگر وہ بھی گزر گئے اور کچھ نہیں کیا۔

 

کیا ایسی غربت اور فقر والا انسان جو ایک وقت کی روٹی نہ رکھتا ہو کے پاس غلام بھی ہوسکتے ہیں؟

 

۴: جن کے مطابق نبی اکرم کے پاس غیب کی خبر نہیں وہ جواب دیں کہ کیسے نبی اکرم نے ابوھریرہ کے غلام کو پہچانا کہ یہ ابوھریرہ کا غلام ہے کیا پہلے دیکھا تھا یا یہ کہ حضرت ابوھریرہ اور اس کے غلام کے بارے میں اللہ کی جانب سے کوئی آیت اتری ہے؟

 

۵: ان تمام روایات میں وہ تناقض موجود ہے کہ جن کا حل کرنا ناممکن ہے کبھی کہتے ہیں کہ گھر نہ ہونے کی وجہ سے اصحاب صفہ میں داخل ہوئے پھر مدینہ میں گھر بھی بنایا اور اس میں اپنی والدہ کو معجزانہ مسلمان بھی کیا۔

کبھی کہتے ہیں کہ کھانے کے لئے کچھ نہیں تھا اور پیٹ بھرنے کے لئے صحابہ سے قرآن کی آیات کے بارے میں پوچھتے تھے پھر خود کو ایک غلام کا مالک بھی بنایا اور اسے اللہ کی راہ میں آزاد بھی کیا۔

 

 

سلسلۃ الاحادیث الهریریة [11]

 

 

 

شیطان کی استادی اور موصوف کی شاگردی

 

صحیح بخاری میں حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ:

عَنْ أَبِى هُرَیْرَةَ  قَالَ وَکَّلَنِى رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله علیه وسلم - بِحِفْظِ زَکَاةِ رَمَضَانَ ، فَأَتَانِى آتٍ فَجَعَلَ یَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ ، فَأَخَذْتُهُ ، وَقُلْتُ وَاللَّهِ لأَرْفَعَنَّکَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله علیه وسلم - . قَالَ إِنِّى مُحْتَاجٌ ، وَعَلَىَّ عِیَالٌ ، وَلِى حَاجَةٌ شَدِیدَةٌ . قَالَ فَخَلَّیْتُ عَنْهُ فَأَصْبَحْتُ فَقَالَ النَّبِىُّ - صلى الله علیه وسلم - « یَا أَبَا هُرَیْرَةَ مَا فَعَلَ أَسِیرُکَ الْبَارِحَةَ » . قَالَ قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّهِ شَکَا حَاجَةً شَدِیدَةً وَعِیَالاً فَرَحِمْتُهُ ، فَخَلَّیْتُ سَبِیلَهُ . قَالَ « أَمَا إِنَّهُ قَدْ کَذَبَکَ وَسَیَعُودُ » . فَعَرَفْتُ أَنَّهُ سَیَعُودُ لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله علیه وسلم - إِنَّهُ سَیَعُودُ . فَرَصَدْتُهُ فَجَاءَ یَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ فَأَخَذْتُهُ فَقُلْتُ لأَرْفَعَنَّکَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله علیه وسلم - . قَالَ دَعْنِى فَإِنِّى مُحْتَاجٌ ، وَعَلَىَّ عِیَالٌ لاَ أَعُودُ ، فَرَحِمْتُهُ ، فَخَلَّیْتُ سَبِیلَهُ فَأَصْبَحْتُ ، فَقَالَ لِى رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله علیه وسلم - « یَا أَبَا هُرَیْرَةَ ، مَا فَعَلَ أَسِیرُکَ » . قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّهِ شَکَا حَاجَةً شَدِیدَةً وَعِیَالاً ، فَرَحِمْتُهُ فَخَلَّیْتُ سَبِیلَهُ . قَالَ « أَمَا إِنَّهُ قَدْ کَذَبَکَ وَسَیَعُودُ » . فَرَصَدْتُهُ الثَّالِثَةَ فَجَاءَ یَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ ، فَأَخَذْتُهُ فَقُلْتُ لأَرْفَعَنَّکَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله علیه وسلم - ، وَهَذَا آخِرُ ثَلاَثِ مَرَّاتٍ أَنَّکَ تَزْعُمُ لاَ تَعُودُ ثُمَّ تَعُودُ . قَالَ دَعْنِى أُعَلِّمْکَ کَلِمَاتٍ یَنْفَعُکَ اللَّهُ بِهَا . قُلْتُ مَا هُوَ قَالَ إِذَا أَوَیْتَ إِلَى فِرَاشِکَ فَاقْرَأْ آیَةَ الْکُرْسِىِّ ( اللَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْحَىُّ الْقَیُّومُ ) حَتَّى تَخْتِمَ الآیَةَ ، فَإِنَّکَ لَنْ یَزَالَ عَلَیْکَ مِنَ اللَّهِ حَافِظٌ وَلاَ یَقْرَبَنَّکَ شَیْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ . فَخَلَّیْتُ سَبِیلَهُ فَأَصْبَحْتُ ، فَقَالَ لِى رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله علیه وسلم - « مَا فَعَلَ أَسِیرُکَ الْبَارِحَةَ » . قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّهِ زَعَمَ أَنَّهُ یُعَلِّمُنِى کَلِمَاتٍ ، یَنْفَعُنِى اللَّهُ بِهَا ، فَخَلَّیْتُ سَبِیلَهُ . قَالَ « مَا هِىَ » . قُلْتُ قَالَ لِى إِذَا أَوَیْتَ إِلَى فِرَاشِکَ فَاقْرَأْ آیَةَ الْکُرْسِىِّ مِنْ أَوَّلِهَا حَتَّى تَخْتِمَ ( اللَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْحَىُّ الْقَیُّومُ ) وَقَالَ لِى لَنْ یَزَالَ عَلَیْکَ مِنَ اللَّهِ حَافِظٌ وَلاَ یَقْرَبَکَ شَیْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ ، وَکَانُوا أَحْرَصَ شَىْءٍ عَلَى الْخَیْرِ . فَقَالَ النَّبِىُّ - صلى الله علیه وسلم - « أَمَا إِنَّهُ قَدْ صَدَقَکَ وَهُوَ کَذُوبٌ ، تَعْلَمُ مَنْ تُخَاطِبُ مُنْذُ ثَلاَثِ لَیَالٍ یَا أَبَا هُرَیْرَةَ » . قَالَ لاَ . قَالَ « ذَاکَ شَیْطَانٌ »

صحیح بخاری کتاب: وکالہ کا بیان حدیث نمبر: 2311 طرفاه 3275 ، 5010 -

 

 

ترجمہ:

 

ابوہریرہ نے بیان کیا کہ  رسول اللہ    نے مجھے رمضان کی زکوٰۃ کی حفاظت پر مقرر فرمایا۔  (رات میں)  ایک شخص اچانک میرے پاس آیا اور غلہ میں سے لپ بھربھر کر اٹھانے لگا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ قسم اللہ کی! میں تجھے رسول اللہ    کی خدمت میں لے چلوں گا۔ اس پر اس نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں بہت محتاج ہوں۔ میرے بال بچے ہیں اور میں سخت ضرورت مند ہوں۔ ابوہریرہ نے کہا  (اس کے اظہار معذرت پر)  میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ    نے مجھ سے پوچھا، اے ابوہریرہ! گذشتہ رات تمہارے قیدی نے کیا کیا تھا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! اس نے سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا، اس لیے مجھے اس پر رحم آگیا۔ اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ    نے فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے۔ اور وہ پھر آئے گا۔ رسول اللہ    کے اس فرمانے کی وجہ سے مجھ کو یقین تھا کہ وہ پھر ضرور آئے گا۔ اس لیے میں اس کی تاک میں لگا رہا۔ اور جب وہ دوسری رات آ کے پھر غلہ اٹھانے لگا تو میں نے اسے پھر پکڑا اور کہا کہ تجھے رسول اللہ    کی خدمت میں حاضر کروں گا، لیکن اب بھی اس کی وہی التجا تھی کہ مجھے چھوڑ دے، میں محتاج ہوں۔ بال بچوں کا بوجھ میرے سر پر ہے۔ اب میں کبھی نہ آؤں گا۔ مجھے رحم آگیا اور میں نے اسے پھر چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ    نے فرمایا اے ابوہریرہ! تمہارے قیدی نے کیا کیا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! اس نے پھر اسی سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا۔ جس پر مجھے رحم آگیا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ    نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے اور وہ پھر آئے گا۔ تیسری مرتبہ میں پھر اس کے انتظار میں تھا کہ اس نے پھر تیسری رات آ کر غلہ اٹھانا شروع کیا، تو میں نے اسے پکڑ لیا، اور کہا کہ تجھے رسول اللہ    کی خدمت میں پہنچانا اب ضروری ہوگیا ہے۔ یہ تیسرا موقع ہے۔ ہر مرتبہ تم یقین دلاتے رہے کہ پھر نہیں آؤ گے۔ لیکن تم باز نہیں آئے۔ اس نے کہا کہ اس مرتبہ مجھے چھوڑ دے تو میں تمہیں ایسے چند کلمات سکھا دوں گا جس سے اللہ تعالیٰ تمہیں فائدہ پہنچائے گا۔ میں نے پوچھا وہ کلمات کیا ہیں؟ اس نے کہا، جب تم اپنے بستر پر لیٹنے لگو تو آیت الکرسی الله لا إله إلا هو الحی القیوم پوری پڑھ لیا کرو۔ ایک نگراں فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برابر تمہاری حفاظت کرتا رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے پاس کبھی نہیں آسکے گا۔ اس مرتبہ بھی پھر میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ    نے دریافت فرمایا، گذشتہ رات تمہارے قیدی نے تم سے کیا معاملہ کیا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس نے مجھے چند کلمات سکھائے اور یقین دلایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے فائدہ پہنچائے گا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے دریافت کیا کہ وہ کلمات کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ اس نے بتایا تھا کہ جب بستر پر لیٹو تو آیت الکرسی پڑھ لو، شروع الله لا إله إلا هو الحی القیوم سے آخر تک۔ اس نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر  (اس کے پڑھنے سے)  ایک نگراں فرشتہ مقرر رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آسکے گا۔ صحابہ خیر کو سب سے آگے بڑھ کرلینے والے تھے۔ نبی کریم    نے  (ان کی یہ بات سن کر)  فرمایا کہ اگرچہ وہ جھوٹا تھا۔ لیکن تم سے یہ بات سچ کہہ گیا ہے۔ اے ابوہریرہ! تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ تین راتوں سے تمہارا معاملہ کس سے تھا؟ انہوں نے کہا نہیں۔ نبی کریم    نے فرمایا کہ وہ شیطان تھا۔

 

 

روایت پر طائرانہ نظر:

 

۱: اس طرح کی خرافاتی قصے کہانیوں کا نقل کرنا حضرت ابوھریرہ سے ہی امید ہے، باقی کوئی بھی شخص اتنی مہارت سے ایسے قصے نہیں بنا سکتا۔

 

۲: اس روایت میں ایک بات یہ سامنے آئی کہ شیطان کے خاص طور پر ملاقات ہوا کرتی تھی موصوف سے۔

 

۳: رسول اللہ نے جب مال کا امین بنایا ہے اور مال اس کے سپرد کیا ہے تو ایسی صورت میں مال میں صاحب مال سے اجازت لئے بغیر کسی قسم کا تصرف حرام تصور کیا جاتا ہے۔

 

۴: جناب بخاری نے باب کا نام دیا ہے کہ اگر صاحب مال کی اجازت کے بغیر تصرف کیا جائے اور بعد میں صاحب مال اجازت دے تو جائز ہے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ بعد میں رسول اللہ نے کب اجازت دی ہے؟

 

۵: اس روایت میں ہی ذکر ہے کہ رسول اللہ نے ابوھریرہ کو بتایا کہ اس شخص نے تجھے جھوٹ بولا ہے۔ مگر افسوس کہ ابوھریرہ نے لگاتار پھر بھی اس شخص کو دوسروں کے مال سے حاجت پوری کرنے کی کھلی اجازت دی۔

 

۶: اس روایت میں جب ابوھریرہ شیطان کو پکڑتا ہے تو کہتا ہے کہ اللہ کی قسم تجھے اب رسول اللہ کے پاس لے جاوں گا۔ تینوں کے تینوں دفعہ اللہ کی قسم کھائی ہے۔ سوال یہ  ہے کہ حضرت ابوھریرہ نے کس جواز پر اللہ کی قسم کھا کر اس پر عمل نہیں کیا اور اسے ترک کیا۔

 

۷: حضرت ابوھریرہ کی طرف سے زکاۃ کی یہ کیسی محافظت تھی جہاں وہ چور کو کھلی اجازت دے دیا کرتے تھے؟

 

۸: حضرت ابوھریرہ کو آیۃ الکرسی شیطان نے تعلیم دی ہے۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں حضرت ابوھریرہ جس کو بھی اپنا استاد مان لیں وہ اسے مبارک ہو۔ مگر ہم یہ پوچھنا چاھتے ہیں کہ باقی کیا کیا استاد شیطان نے حضرت ابوھریرہ کو تعلیم دی ہے؟

 

۹: کیا استاد شیطان کی تعلیمات میں احادیث و روایات بھی ہیں یا نہیں؟

 

۱۰: آج جتنی روایات حضرت ابوھریرہ سے مروی ہیں ان میں کتنی روایات استاد شیطان کی تعلیم کردہ ہیں؟

 

 

سلسلۃ الاحادیث الهریریة [12]

 

 

حضرت ابوھریرہ اور دو نومولود بچوں کے پاس علم غیب

 

صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں روایت ہے کہ

 عَنْ أَبِى هُرَیْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ - صلى الله علیه وسلم - قَالَ « لَمْ یَتَکَلَّمْ فِى الْمَهْدِ إِلاَّ ثَلاَثَةٌ عِیسَى ، وَکَانَ فِى بَنِى إِسْرَائِیلَ رَجُلٌ یُقَالُ لَهُ جُرَیْجٌ ، کَانَ یُصَلِّى ، فَجَاءَتْهُ أُمُّهُ فَدَعَتْهُ ، فَقَالَ أُجِیبُهَا أَوْ أُصَلِّى . فَقَالَتِ اللَّهُمَّ لاَ تُمِتْهُ حَتَّى تُرِیَهُ وُجُوهَ الْمُومِسَاتِ . وَکَانَ جُرَیْجٌ فِى صَوْمَعَتِهِ ، فَتَعَرَّضَتْ لَهُ امْرَأَةٌ وَکَلَّمَتْهُ فَأَبَى ، فَأَتَتْ رَاعِیًا ، فَأَمْکَنَتْهُ مِنْ نَفْسِهَا فَوَلَدَتْ غُلاَمًا ، فَقَالَتْ مِنْ جُرَیْجٍ . فَأَتَوْهُ فَکَسَرُوا صَوْمَعَتَهُ ، وَأَنْزَلُوهُ وَسَبُّوهُ ، فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى ثُمَّ أَتَى الْغُلاَمَ فَقَالَ مَنْ أَبُوکَ یَا غُلاَمُ قَالَ الرَّاعِى . قَالُوا نَبْنِى صَوْمَعَتَکَ مِنْ ذَهَبٍ . قَالَ لاَ إِلاَّ مِنْ طِینٍ . وَکَانَتِ امْرَأَةٌ تُرْضِعُ ابْنًا لَهَا مِنْ بَنِى إِسْرَائِیلَ ، فَمَرَّ بِهَا رَجُلٌ رَاکِبٌ ذُو شَارَةٍ ، فَقَالَتِ اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِى مِثْلَهُ . فَتَرَکَ ثَدْیَهَا ، وَأَقْبَلَ عَلَى الرَّاکِبِ فَقَالَ اللَّهُمَّ لاَ تَجْعَلْنِى مِثْلَهُ . ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى ثَدْیِهَا یَمَصُّهُ - قَالَ أَبُو هُرَیْرَةَ کَأَنِّى أَنْظُرُ إِلَى النَّبِىِّ - صلى الله علیه وسلم - یَمَصُّ إِصْبَعَهُ - ثُمَّ مُرَّ بِأَمَةٍ فَقَالَتِ اللَّهُمَّ لاَ تَجْعَلِ ابْنِى مِثْلَ هَذِهِ . فَتَرَکَ ثَدْیَهَا فَقَالَ اللَّهُمَّ اجْعَلْنِى مِثْلَهَا . فَقَالَتْ لِمَ ذَاکَ فَقَالَ الرَّاکِبُ جَبَّارٌ مِنَ الْجَبَابِرَةِ ، وَهَذِهِ الأَمَةُ یَقُولُونَ سَرَقْتِ زَنَیْتِ . وَلَمْ تَفْعَلْ » صحیح بخاری حدیث نمبر   3436 -. أطرافه 1206 ، 2482 ، 3466 -

 

 

ترجمہ:

حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا کہ گود میں تین بچوں کے سوا اور کسی نے بات نہیں کی۔ اول عیسی (علیہ السلام)۔ ( دوسرے کا واقعہ یہ ہے کہ) بنی اسرائیل میں ایک بزرگ تھے جن کا نام جریج تھا وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کی ماں نے انہیں پکارا۔ انہوں نے ( اپنے دل میں) کہا کہ میں والدہ کا جواب دوں یا نماز پڑھتا رہوں؟ اس پر ان کی والدہ نے بد دعا کی: اے اللہ اس وقت تک اسے موت نہ آئے جب تک یہ زانیہ عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے۔ جریج اپنے عبادت خانے میں رہا کرتے تھے ایک مرتبہ ان کے سامنے ایک فاحشہ عورت آئی اور ان سے بدکاری چاہی لیکن انہوں ( اس کی خواھش پوری کرنے سے) انکار کیا پھر ایک چرواہے کے پاس آئی اور اسے قابو دے دیا اس سے ایک بچہ پیدا ہوا۔ اور اس نے ان پر یہ تہمت دھری کہ یہ جریج کا بچہ ہے ۔ ان کی قوم کے لوگ آئے اور ان کا عبادت خانہ توڑ دیا انہیں نیچے اتار کر لائے اور انہیں گالیاں دی۔ پھر انہوں نے وضو کرکے نماز پڑھی ، اس کے بعد بچے کے پاس آئے اور اس سے پوچھا کہ تیرا باپ کون ہے؟ بچہ بول پڑا کہ چرواہا ہے اس پر ان کی قوم نے کہا کہ ہم آپ کا عبادت خانہ سونے کا بنائیں گے۔ لیکن انہوں نے کہا ہرگز نہیں، مٹی ہی کا بنے گا۔ تیسرا واقعہ یہ کہ ایک بنی اسرائیل کی عورت تھی اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی قریب سے ایک سوار نہایت عزت والا اور خوش پوش گزرا اس عورت نے دعا کی: اے اللہ میرے بچے کو بھی اسی جیسا بنا دے لیکن بچہ بول پڑا کہ اے اللہ مجھے اس جیسا نہ بنانا۔ پھر اس کے سینے سے لگ کر دودھ پینے لگا۔ ابوھریرہ نے بیان کیا کہ جیسے میں اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں کہ نبی کریم اپنی انگلی چوس رہے تھے۔( بچے کے دودھ پینے کی کیفیت بتلاتے وقت) پھر ایک باندی اس کے قریب سے لے جائی گئی، تو اس عورت نے دعا کی کہ اے اللہ میرے بچے کو اس جیسا نہ بنانا۔ بچے نے پھر اس کا پستان چھوڑ دیا اور کہا کہ اے اللہ مجھے اسی جیسا بنا دے۔ اس عورت نے پوچھا ایسا تو کیوں کہہ رہا ہے؟ بچے نے کہا کہ وہ سوار ظالموں میں سے تھا اور اس باندی سے لوگ کہہ رہے تھے کہ تم چوری کی اور زنا کیا حالانکہ اس نے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔

 

روایت پر طائرانہ نظر:

 

۱: کیا جریج اللہ کے رسولوں میں سے کوئی رسول یا نبی تھا کہ جس کی پاکدامنی کے لئے ایک شیرخوار نومولود بچے کو بولنا پڑا؟

 

۲: کیا یہ دونوں چھوٹے بچے اللہ کی انبیاء میں سے نبی تھے؟

 

۳: ایک نومولود بچے کا بولنا اللہ کا معجزہ ہے اور معجزہ تب ہوتا ہے کہ جب کسی نبی کی نبوت یا اس کی حقانیت کو ثابت کرنا ہو۔ مگر یہاں کس نبی کی نبوت کو ثابت کرنا تھا؟

 

۴: ممکن نہیں کہ ایسے خوارق العادۃ افعال ان کے ہاتھوں انجام دئیے جائیں کہ جہاں نہ کسی نبی کی نبوت کو ثابت کرنا ہو اور نہ ہی کسی نبی کی پاکدامنی کی گواھی دینی ہو۔

 

۵: کیا اس طرح کی روایات کی نسبت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی طرف دینے کے باوجود بھی حضرت ابوھریرہ عادل اور ثقہ ہیں نیز وہ پھر بھی ھدایت کے تاروں میں سے ایک تارہ ہے؟

 

۶: کیا دنیا میں یہی تین بچے ہیں کہ جنہوں میں نومولودی میں کلام کیا ہے؟

 

۷: کیا حضرت یوسف کی عصمت اور پاکدامنی کی گواھی دینے والا شیر خوار نومود بچہ نہیں تھا؟

 

۸: اس جھوٹی روایت کے جھوٹ کے لئے یہی کافی ہے کہ اس میں ذکر ہے کہ دنیا میں فقط تین بچے ہیں کہ جنہوں نے نومولودی میں باتیں کی ہیں، ایک حضرت عیسی علیہ السلام اور دو باقی بنی اسرائیل کے بچے۔ جبکہ حضرت یوسف کی پاکدامنی پر گواھی دینے والے بچے کا اس روایت میں نہ فقط ذکر نہیں ہے بلکہ اس کی نفی کی گئی ہے۔

 

۹: کیا حضرت یوسف کی پاکدامنی کی گواھی دینے والے بچے کو حضرت ابوھریرہ بھول گئے تھے؟

 

۱۰: اگر وہ بھول گئے تھے تو اس سے حدیث کس بنیاد پر لی جائیگی؟ اگر وہ بھولے نہیں تو انہوں نے کس بنیاد پر اس بچے کا نہ فقط ذکر کیا بلکہ اس کی نفی کی ہے (اس بات سے کہ گود میں فقط یہی تین بچے تھے۔)؟

 

 

سلسلۃ الاحادیث الهریریة [13]

 

حضرت ابوھریرۃ اور نبی اکرم کی نماز

 

بخاری و مسلم سمیت اہل سنت کے کئی حدیثی کتب میں کئی روایت ہے جو اس مضمون کے ساتھ نقل ہیں کہ

 

عَنْ أَبِى هُرَیْرَةَ صَلَّى بِنَا النَّبِىُّ - صلى الله علیه وسلم - الظُّهْرَ رَکْعَتَیْنِ ، ثُمَّ سَلَّمَ ، ثُمَّ قَامَ إِلَى خَشَبَةٍ فِى مُقَدَّمِ الْمَسْجِدِ ، وَوَضَعَ یَدَهُ عَلَیْهَا ، وَفِى الْقَوْمِ یَوْمَئِذٍ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ ، فَهَابَا أَنْ یُکَلِّمَاهُ ، وَخَرَجَ سَرَعَانُ النَّاسِ فَقَالُوا قَصُرَتِ الصَّلاَةُ . وَفِى الْقَوْمِ رَجُلٌ کَانَ النَّبِىُّ - صلى الله علیه وسلم - یَدْعُوهُ ذَا الْیَدَیْنِ فَقَالَ یَا نَبِىَّ اللَّهِ أَنَسِیتَ أَمْ قَصُرَتْ . فَقَالَ « لَمْ أَنْسَ وَلَمْ تَقْصُرْ » . قَالُوا بَلْ نَسِیتَ یَا رَسُولَ اللَّهِ . قَالَ « صَدَقَ ذُو الْیَدَیْنِ » .

فَقَامَ فَصَلَّى رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ سَلَّمَ ، ثُمَّ کَبَّرَ ، فَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ وَکَبَّرَ ، ثُمَّ وَضَعَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ وَکَبَّرَ .

صحیح البخاری حدیث 6051 - أطرافه 482 ، 714 ، 715 ، 1227 ، 1228 ، 1229 ، 7250 -

 

ترجمہ:

 

ابوہریرہ نے بیان کیا کہ  نبی کریم    نے ہمیں ظہر کی نماز دو رکعت پڑھائی اور سلام پھیر دیا اس کے بعد آپ مسجد کے آگے کے حصہ یعنی دالان میں ایک لکڑی پر سہارا لے کر کھڑے ہوگئے اور اس پر اپنا ہاتھ رکھا، حاضرین میں ابوبکر اور عمر بھی موجود تھے مگر آپ کے دبدبے کی وجہ سے کچھ بول نہ سکے اور جلد باز لوگ مسجد سے باہر نکل گئے آپس میں صحابہ نے کہا کہ شاید نماز میں رکعات کم ہوگئیں ہیں اسی لیے نبی کریم    نے ظہر کی نماز چار کے بجائے صرف دو ہی رکعات پڑھائیں ہیں۔ حاضرین میں ایک صحابی تھے جنہیں آپ ذوالیدین  (لمبے ہاتھوں والا)  کہہ کر مخاطب فرمایا کرتے تھے، انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! نماز کی رکعات کم ہوگئیں ہیں یا آپ بھول گئے ہیں؟ نبی کریم    نے فرمایا کہ نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز کی رکعات کم ہوئیں ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا: نہیں یا رسول اللہ! آپ بھول گئے ہیں، چناچہ آپ نے یاد کر کے فرمایا کہ ذوالیدین نے صحیح کہا ہے۔ پھر آپ کھڑے ہوئے اور دو رکعات اور پڑھائیں پھر سلام پھیرا اور تکبیر کہہ کر سجدہ  (سجدہ سہو)  میں گئے، نماز کے سجدہ کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ لمبا سجدہ کیا پھر سر اٹھایا اور تکبیر کہہ کر پھر سجدہ میں گئے پہلے سجدہ کی طرح یا اس سے بھی لمبا، پھر سر اٹھایا اور تکبیر کہی۔

 

اس روایت پر طائرانہ نظر:

۱: اس روایت میں نبی اکرم کی طرف بھولنے کی نسبت دی گئی ہے، پھر نبی اکرم کا یہ کہنا بھی اسی روایت میں ہے کہ نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز کی رکعتیں کم ہوگئی ہیں۔ اب اس بات کے بعد کیا کسی کو شک بھی ہوسکتا ہے کہ نبی اکرم بھولے تھے؟

مطلب یہ کہ نبی اکرم نے کہا کہ میں نہیں بھولا ہوں مگر حضرت ابوھریرہ کہتے ہیں کہ وہ بھول گئے ہیں۔ وا مصیبتاہ

 

۲: حضرت ابوھریرہ اس روایت کو بیان کرنے میں مضطرب ہیں کیونکہ وہ اس مطلب پر ان سے نقل شدہ تمام روایات میں تعارض ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ نماز ظہر اور نماز عصر میں سے کوئی ایک نماز پڑھا رہے تھے کبھی یقین اور قاطعیت کے ساتھ کہتے ہیں کہ نماز ظہر پڑھا رہے تھے اور کبھی پھر قاطعیت کے ساتھ کہتے ہیں کہ نماز عصر پڑھا رہے تھے، یہ تمام روایات اہل سنت کے ہاں صحیح السند طرق کے ساتھ صحیحین سمیت باقی حدیثی کتب میں موجود ہیں ۔

 

۳: جب دو رکعتیں پڑھی گئی اور نبی سے پوچھا گیا کہ آپ بھول گئے ہیں یا نماز کی رکعتیں کم ہوگئی ہیں۔ تو نبی اکرم نے جواب دیا کہ نہ نماز کی رکعتیں کم ہوئی ہیں اور نہ میں بھول گیا ہوں،

مطلب یہ کہ ان دو رکعتوں کے بعد باقاعدہ گفتگو ہوئی ہے نبی اور صحابی کے درمیان۔ اس صورت میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ نماز باطل ہوجائیگی۔ مگر اس روایت میں تو یہ لکھا ہے کہ نبی اکرم نے اس گفتگو کے بعد دو رکعتیں اور پڑھی اور بس۔

کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ شریعت کے احکام کے پابند نہیں تھے؟ کیا نبی نے خود شریعت پر عمل نہیں کرنا تھا؟ اس روایت کے بطلان کے لئے یہی کافی ہے کہ چار رکعتی نماز کو دو دو رکعت کرکے پڑھی گئی ہے اور درمیان میں سوالات و جوابات کی نشست بھی ہوئی ہے۔

 

۴: کیا آپ بھول گئے یا نماز کی رکعتیں کم ہوگئی ہیں؟ نبی اکرم سے یہ پوچھنے والا ذوالیدین ہیں جن کو ذو الشھادتین بھی کہا جاتا ہے ، اہل سنت کی کتاب اسد الغابہ الاستیعاب الاصابہ اور طبقات ابن سعد وغیرہ کے مطابق یہ غزوہ بدر کے شہید ہیں۔ ذوالشہادتین کی شہادت میں کسی نے اختلاف نہیں کیا ہے۔ اور حضرت ابوھریرہ جنگ خیبر کے دوران مسلمان ہوئے ہیں، کیا ہوسکتا ہے کہ ذوالیدین رضی اللہ عنہ جو کہ غزوہ بدر کے شہید ہیں وہ حضرت ابوھریرہ کے ساتھ نماز میں شریک ہوں اور پھر انہوں نے رسول اللہ سے یہ سوال پوچھا ہو؟

 

۵: جس صحابی نے رسول اللہ سے پوچھا ہے وہ پوچھنے سے کئی سال پہلے غزوہ بدر میں شہید ہوئے تھے۔

 

۶: اگر کوئی یہ کہے کہ ذوالشمالین اور ہیں اور ذوالیدین اور ۔ تو اس کی خدمت میں عرض ہے کہ اہل سنت کے باقی کتب میں یہی روایات موجود ہے کہ جہاں رسول اللہ سے سوال پوچھنے کے بعد رسول اللہ نے باقی صحابہ کو مخاطب کرکے کہا کہ کیا ذوالشمالین نے درست کہا؟

اسی سے ثابت ہوتا ہے کہ ذوالیدین وہی ذوالشمالین ہے۔

 

۷: اگر اہل سنت یہ کہیں کہ یہ حضرت ابوھریرہ نے مرسل بیان کی ہے ضرور انہوں نے کسی اور صحابی سے سنا ہے اور اس صحابی کا نام نہیں لیا ہے اور صحابی کی مرسلات حجت ہیں تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ صحیح مسلم کی روایت کا مطالعہ کرے کہ جہاں حضرت ابوھریرہ فرماتے ہیں کہ میں خود اس نماز میں شریک تھا کہ جہاں رسول اللہ دو رکعتوں کو بھول گئے۔

صحیح مسلم کی روایت کچھ یوں ہے

وَحَدَّثَنِى إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا عُبَیْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ شَیْبَانَ عَنْ یَحْیَى عَنْ أَبِى سَلَمَةَ عَنْ أَبِى هُرَیْرَةَ قَالَ بَیْنَا أَنَا أُصَلِّى مَعَ النَّبِىِّ -صلى الله علیه وسلم- صَلاَةَ الظُّهْرِ سَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله علیه وسلم- مِنَ الرَّکْعَتَیْنِ فَقَامَ رَجُلٌ۔۔۔۔۔۔۔

صحیح مسلم حدیث نمبر1320 -

 

 

 

سلسلۃ الاحادیث الهریریة [14]

 

بنی اسرائیل کے چوہے اور حضرت ابوھریرہ

 

صحیح بخاری میں روایت ہے کہ

عَنْ أَبِى هُرَیْرَةَ - رضى الله عنه - عَنِ النَّبِىِّ - صلى الله علیه وسلم - قَالَ « فُقِدَتْ أُمَّةٌ مِنْ بَنِى إِسْرَائِیلَ لاَ یُدْرَى مَا فَعَلَتْ ، وَإِنِّى لاَ أُرَاهَا إِلاَّ الْفَارَ إِذَا وُضِعَ لَهَا أَلْبَانُ الإِبِلِ لَمْ تَشْرَبْ ، وَإِذَا وُضِعَ لَهَا أَلْبَانُ الشَّاءِ شَرِبَتْ » . فَحَدَّثْتُ کَعْبًا فَقَالَ أَنْتَ سَمِعْتَ النَّبِىَّ - صلى الله علیه وسلم - یَقُولُهُ قُلْتُ نَعَمْ . قَالَ لِى مِرَارًا . فَقُلْتُ أَفَأَقْرَأُ التَّوْرَاةَ

صحیح بخاری حدیث نمبر  3305

 

ترجمہ:

 

حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے کہا کہ بنی اسرائیل میں کچھ لوگ غائب ہوگئے اور یہ پتہ نہیں لگ رہا تھا کہ وہ کہاں گیا ہے اور میرا تو یہ خیال ہے کہ انہیں چوہے کی صورت میں مسخ کردیا گیا۔ کیونکہ چوہوں کے سامنے جب اونٹ کا دودھ رکھا جاتا ہے تو وہ اسے نہیں پیتے اور اگر بکری کا دودھ رکھا جائے تو پی جاتے ہیں۔ پھر میں نے یہ حدیث کعب احبار سے بیان کی، تو اس نے پوچھا کیا واقعی آپ نے نبی کریم سے یہ حدیث سنی ہے؟ اس نے یہ سوال کئی مرتبہ پوچھا اس پر میں نے کہا کہ کیا میں توراۃ پڑھا کرتا ہوں؟

 

اس روایت پر طائرانہ نظر:

 

۱: ایسے من گھڑت قصے کہانیاں آپ کو ایسی ہی کتابوں اور ایسے ہی راویوں کے پاس ملیں گی۔

 

۲:  اس روایت کی تکذیب کے لئے خود یہی روایت کافی ہے۔

 

۳: کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ کس گناہ کی وجہ سے بنی اسرائیل کے ان لوگوں کے چہرے مسخ ہوگئیں اور چوہے بنے ؟

 

۴:  کیا صحابہ پر تابعین کو یقین نہیں تھا کہ جو ایک تابعی کعب احبار بار بار ایک صحابی حضرت ابوھریرہ سے پوچھا ہے کہ کیا تم نے واقعی یہ روایت سنی ہے؟ اتنی دفعہ یہ پوچھا کہ حضرت ابوھریرہ کو غصہ آیا۔

 

 

موافقین ۰ مخالفین ۰ 20/07/17

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی