شیعہ کتابوں میں مولا علی ع کا بنت ابی جھل سے خواستگاری کی حقیقت
شیعہ کتابوں میں مولا علی ع کا بنت ابی جھل سے خواستگاری کی حقیقت
مقدمه
رسول اللہ نے کہا ہے کہ فاطمہ کو جس نے غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا، اہل سنت حضرت ابوبکر کو اس روایت کے مصداق سے بچانے کے لئے ایک افسانہ پیش کرتے ہیں کہ جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں، اس افسانہ کو ثابت کرنے کے لئے اہل سنت شیعہ کتابوں سے تمسک کرتے ہیں۔ اس تحریر میں شیعہ کتابوں میں موجود اس روایت کی سند سے بحث کیا جائے گا،
اشکال
شیعہ کتابوں کے مطابق حضرت علی ع نے ابوجھل کی بیٹی سے خواستگاری کی تھی جس کی وجہ سے حضرت زھرا سخت ناراض ہوگئی تھی۔
جواب
جس روایت سے اہل سنت استناد کرتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں،
حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَى عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِی الْمِقْدَامِ وَ زِیَادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالا أَتَى رَجُلٌ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع فَقَالَ لَهُ یَرْحَمُکَ اللَّهُ هَلْ تُشَیَّعُ الْجَنَازَةُ بِنَارٍ وَ یُمْشَى مَعَهَا بِمِجْمَرَةٍ أَوْ قِنْدِیلٍ أَوْ غَیْرِ ذَلِکَ مِمَّا یُضَاءُ بِهِ قَالَ فَتَغَیَّرَ لَوْنُ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع مِنْ ذَلِکَ وَ اسْتَوَى جَالِساً ثُمَّ قَالَ إِنَّهُ جَاءَ شَقِیٌّ مِنَ الْأَشْقِیَاءِ إِلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ ص فَقَالَ لَهَا أَ مَا عَلِمْتِ أَنَّ عَلِیّاً قَدْ خَطَبَ بِنْتَ أَبِی جَهْلٍ فَقَالَتْ حَقّاً مَا تَقُولُ فَقَالَ حَقّاً مَا أَقُولُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَدَخَلَهَا مِنَ الْغَیْرَةِ مَا لَا تَمْلِکُ نَفْسَهَا وَ ذَلِکَ أَنَّ اللَّهَ تَبَارَکَ وَ تَعَالَى کَتَبَ عَلَى النِّسَاءِ غَیْرَةً وَ کَتَبَ عَلَى الرِّجَالِ جِهَاداً وَ جَعَلَ لِلْمُحْتَسِبَةِ الصَّابِرَةِ مِنْهُنَّ مِنَ الْأَجْرِ مَا جَعَلَ لِلْمُرَابِطِ الْمُهَاجِرِ فِی سَبِیلِ اللَّهِ قَالَ فَاشْتَدَّ غَمُّ فَاطِمَةَ مِنْ ذَلِکَ وَ بَقِیَتْ مُتَفَکِّرَةً هِیَ حَتَّى أَمْسَتْ وَ جَاءَ اللَّیْلُ حَمَلَتِ الْحَسَنَ عَلَى عَاتِقِهَا الْأَیْمَنِ وَ الْحُسَیْنَ عَلَى عَاتِقِهَا الْأَیْسَرِ وَ أَخَذَتْ بِیَدِ أُمِّ کُلْثُومٍ الْیُسْرَى بِیَدِهَا الْیُمْنَى ثُمَّ تَحَوَّلَتْ إِلَى حُجْرَةِ أَبِیهَا فَجَاءَ عَلِیٌّ فَدَخَلَ حُجْرَتَهُ فَلَمْ یَرَ فَاطِمَةَ فَاشْتَدَّ لِذَلِکَ غَمُّهُ وَ عَظُمَ عَلَیْهِ وَ لَمْ یَعْلَمِ الْقِصَّةَ مَا هِیَ فَاسْتَحَى أَنْ یَدْعُوَهَا مِنْ مَنْزِلِ أَبِیهَا فَخَرَجَ إِلَى الْمَسْجِدِ یُصَلِّی فِیهِ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ جَمَعَ شَیْئاً مِنْ کَثِیبِ الْمَسْجِدِ وَ اتَّکَأَ عَلَیْهِ فَلَمَّا رَأَى النَّبِیُّ ص مَا بِفَاطِمَةَ مِنَ الْحُزْنِ أَفَاضَ عَلَیْهَا مِنَ الْمَاءِ ثُمَّ لَبِسَ ثَوْبَهُ وَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَلَمْ یَزَلْ یُصَلِّی بَیْنَ رَاکِعٍ وَ سَاجِدٍ وَ کُلَّمَا صَلَّى رَکْعَتَیْنِ دَعَا اللَّهَ أَنْ یُذْهِبَ مَا بِفَاطِمَةَ مِنَ الْحُزْنِ وَ الْغَمِّ وَ ذَلِکَ أَنَّهُ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهَا وَ هِیَ تَتَقَلَّبُ وَ تَتَنَفَّسُ الصُّعَدَاءَ فَلَمَّا رَآهَا النَّبِیُّ ص أَنَّهَا لا یُهَنِّیهَا النَّوْمُ وَ لَیْسَ لَهَا قَرَارٌ قَالَ لَهَا قُومِی یَا بُنَیَّةِ فَقَامَتْ فَحَمَلَ النَّبِیُّ ص الْحَسَنَ وَ حَمَلَتْ فَاطِمَةُ الْحُسَیْنَ وَ أَخَذَتْ بِیَدِ أُمِّ کُلْثُومٍ فَانْتَهَى إِلَى عَلِیٍّ ع وَ هُوَ نَائِمٌ فَوَضَعَ النَّبِیُّ ص رِجْلَهُ عَلَى رِجْلِ عَلِیٍّ فَغَمَزَهُ وَ قَالَ قُمْ یَا أَبَا تُرَابٍ فَکَمْ سَاکِنٍ أَزْعَجْتَهُ ادْعُ لِی أَبَا بَکْرٍ مِنْ دَارِهِ وَ عُمَرَ مِنْ مَجْلِسِهِ وَ طَلْحَةَ فَخَرَجَ عَلِیٌّ فَاسْتَخْرَجَهُمَا مِنْ مَنْزِلِهِمَا وَ اجْتَمَعُوا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ص فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص یَا عَلِیُّ أَ مَا عَلِمْتَ أَنَّ فَاطِمَةَ بَضْعَةٌ مِنِّی وَ أَنَا مِنْهَا فَمَنْ آذَاهَا فَقَدْ آذَانِی وَ مَنْ آذَانِی فَقَدْ آذَى اللَّهَ وَ مَنْ آذَاهَا بَعْدَ مَوْتِی کَانَ کَمَنْ آذَاهَا فِی حَیَاتِی وَ مَنْ آذَاهَا فِی حَیَاتِی کَانَ کَمَنْ آذَاهَا بَعْدَ مَوْتِی قَالَ فَقَالَ عَلِیٌّ بَلَى یَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَمَا دَعَاکَ إِلَى مَا صَنَعْتَ فَقَالَ عَلِیٌّ وَ الَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ نَبِیّاً مَا کَانَ مِنِّی مِمَّا بَلَغَهَا شَیْءٌ وَ لَا حَدَّثَتْ بِهَا نَفْسِی فَقَالَ النَّبِیُّ صَدَقْتَ وَ صَدَقَتْ فَفَرِحَتْ فَاطِمَةُ ع بِذَلِکَ وَ تَبَسَّمَتْ حَتَّى رُئِیَ ثَغْرُهَا فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ إِنَّهُ لَعَجَبٌ لِحِینِهِ مَا دَعَاهُ إِلَى مَا دَعَانَا هَذِهِ السَّاعَةَ قَالَ ثُمَّ أَخَذَ النَّبِیُّ ص بِیَدِ عَلِیٍّ فَشَبَّکَ أَصَابِعَهُ بِأَصَابِعِهِ فَحَمَلَ النَّبِیُّ ص الْحَسَنَ وَ حَمَلَ الْحُسَیْنَ عَلِیٌّ وَ حَمَلَتْ فَاطِمَةُ أُمَّ کُلْثُومٍ وَ أَدْخَلَهُمُ النَّبِیُّ بَیْتَهُمْ وَ وَضَعَ عَلَیْهِمْ قَطِیفَةً وَ اسْتَوْدَعَهُمُ اللَّهَ ثُمَّ خَرَجَ وَ صَلَّى بَقِیَّةَ اللَّیْلِ ...
الصدوق، ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین (المتوفى 381هـ)، علل الشرائع، ج1، صص185-189، ح2، الناشر: منشورات کتاب فروشى داورى - قم، الطبعة: الأولى، 1385 هـ - 1966 م.
امام صادق علیه السّلام نے فرمایا : ایک نامراد اور بدبخت انسان نے بی بی فاطمہ علیہا السلام کے پاس آکر کہنے لگا کہ کیا آپ جانتی ہیں کہ على علیه السّلام نے ابو جهل کی بیٹی سے خواستگارى کی ہے؟ فاطمه سلام اللہ علیہا نے کہا:کیا جو کچھ تم کہتے ہیں وہ حقیقت ہے ؟ اس شخص نے تین دفعہ کہا کہ جو کچھ کہتا ہوں حقیقت ہی حقیقت ہے، حضرت فاطمہ ع کی غیرت حرکت میں آئی، اور اپنے احساسات پر قابو نہ پا سکی، یہ اس لئے کیونکہ اللہ نے عورت پر غیرت اور مرد پر جھاد کو واجب کیا ہے اور وہ عورت جو صبر سے کام لے اس کا اجر اس مرد جتنا ہے جس نے نگھبانی کرکے اللہ کی راہ میں ھجرت کی ہو،
کہا کہ بی بی فاطمہ زیادہ غمگین ہوئی حتی کہ رات ہوئی بی بی فاطمہ نے حسن ، حسین اور ام کلثوم کو لے کر نبی اکرم کے گھر گئیں ، جب مولا علی گھر آئے تو فاطمہ ع کو گھر میں نہیں دیکھا اور اس ماجرہ کا ان کو کوئی علم نہیں تھا، اور وہ بی بی کو نبی کے گھر سے بلانے پر شرماتے تھے لہذا وہ مسجد میں عبادت کرنے گئے،
رسول اللہ نے بی بی کو دیکھا کہ ان کو نیند نہیں آرہی، تو کہا ، اے بیٹی اٹھو وہ اٹھیں اور حسن ، حسین اور ام کلثوم کو اپنے ساتھ لا کر مولا علی ع کے پاس آئیں رسول اللہ نے مولا علی کو جھگایا اور کہا اے ابوتراب اٹھو اور ابوبکر و عمراور طلحہ کو بلاو ، مولا علی نے سب کو بلایا وہ سب آئے، رسول اللہ نے کہا کہ اے علی کیا تم نہیں جانتے کہ فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے اور میں اس سے ہوں؟ جس نے ان کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی،
مولا علی نے کہا کہ اے رسول اللہ ، میں جانتا ہوں ۔
رسول اللہ نے فرمایا کہ پھر کیوں تم نے یہ کام کیا؟
مولا علی نے کہا کہ قسم اس ذات کی جس نے تجھے مبعوث کیا میں نے یہ کام نہیں کیا ہے، حتی میں نے اس کے بارے میں سوچا بھی نہیں ہے، رسول اللہ نے کہا کہ بالکل تم نے سچ کہا ، بی بی فاطمہ خوش ہوئیں اور مسکرائیں اس طرح کہ ان کے مبارک دانت نظر آئے،
پس ان دوبندوں میں سے ایک نے دوسرے دوست کو کہا کہ عجیب بات ہے اس وقت ہم کو کیوں بلایا گیا؟
اولا: یہ روایت کی سند میں «احمد بن محمد بن یحیی» مجهول ہے،
(معجم رجال الحدیث آیة اللَّه خوئى ج 3 ص 122)
ثانیا: اس روایت کو پڑھنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ بات کہ مولا علی نے ابوجھل کی بیٹٰی سے شادی کا ارادہ کیا تھا بالکل جھوٹ ہے، روایت کے اس حصے پر توجہ کریں
ایک نامراد اور بدبخت انسان نے بی بی فاطمہ علیہا السلام کے پاس آکر کہنے لگا کہ کیا آپ جانتی ہیں کہ على علیه السّلام نے ابو جهل کی بیٹی سے خواستگاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولا علی نے کہا کہ قسم اس ذات کی جس نے تجھے مبعوث کیا میں نے یہ کام نہیں کیا ہے، حتی میں نے اس کے بارے میں سوچا بھی نہیں ہے، رسول اللہ نے کہا کہ بالکل تم نے سچ کہا ، بی بی فاطمہ خوش ہوئیں اور مسکرائیں
ثالثا: کیا ہوسکتا ہے کہ بی بی فاطمہ زھرا س مولا علی پر اس کامل اعتماد کے باوجود ایک بدبخت شخص کی بات پر یقین کرے؟
کیا ہوسکت ہے کہ رسول اللہ بغیر کسی تحقیق کے فیصلہ سنائیں اور طرف مقابل مولا علی سے بات پوچھے بغیر قضاوت کریں؟
کیا ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ بیٹی اور داماد کے درمیان صلح کرنے کے لئے ابوبکر ، عمر اور طلحہ کو بلائے؟ یعنی کیا ہوسکتا ہے کہ ایک فیملی معمولی سی بات پر باہر کے لوگوں کو بلایا جائے؟
اس قسم کی روایات اہل سنت کے ہاں ہیں اور شیعہ کتابیں اس سے خالی ہیں فقط یہی شیخ صدوق کی کتاب علل الشرایع ہی ہیں جس میں یہ روایت ذکر ہے ، البتہ یہ ضعیف اور من گھڑت روایت علامہ مجلسی نے بھی ذکر کیا ہے جو کہ وہ بھی علل الشرایع سے ہی ماخوذ ہے،
شیخ صدوق کا عمرو بن مقدام تک طریق ضیعف ہے
(معجم رجال الحدیث ج 14 ص 82)
اس روایت کی سند میں موجود راوی زیاد بن عبداللہ کا شیعہ علم رجال میں کوئی نام نہیں ہے،
مرحوم سید مرتضی نے اس روایت کو باطل اور جعلی کہا ہے اور اس روایت کو ذکر کرکے اس کو تفصیل کے ساتھ رد کیا ہے
(تنزیهالأنبیاءص 218 )
مرحوم بحر العلوم نے اس واقعے کو جھوٹا اور من گھڑت کہا ہے،(مقدمه الفوائد الرجالیه ج 1 ص 88)
خادم اھل بیت علیہم السلام ۔۔۔۔۔۔۔۔ سید ابو عماد حیدری