بالغ آدمی کو دودھ پلانا۔ حضرت عائشہ کا فتوی
بالغ آدمی کو دودھ پلانا۔ حضرت عائشہ کا فتوی
تمام اہل سنت حق کے متلاشی کو دعوت دی جاتی ہے کہ مندرجہ ذیل مطالب غیر متعصب ہوکر پڑھ لیں ، ان مطالب میں ہم نے اپنی کتابوں سے ایک حوالہ بھی نہیں دیا ہے بلکہ تمام کے تمام حوالے اہل سنت کی کتابوں سے ہیں کہ جن کی تصحیح خود اہل سنت علمائ نے کی ہے،
بالغ آدمی کو دودھ پلانے کو رضاعۃ الکبیر کہتے ہیں ، رضاعۃ الکبیر کے حوالے سے
حضرت عائشہ کہ جن سے اہل سنت نے نصف دین لیا ہے نے ایک ایسا فتوی دیا ہے کہ جو رہتی دنیا تک حضرت عائشہ کی شخصیت کو زیر سوال لاتا ہے اور وہ فتوی یہ ہے کہ جب بھی حضرت عائشہ چاھتی کہ اس کے پاس کوئی آجائے اور اس کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو کرے بی بی عائشہ حکم اپنی بھانجیوں کو یا بھتیجیوں کو حکم فرماتی تھی کہ اس شخص کو دودھ پلائے تاکہ وہ شخص حضرت عائشہ کا محرم بن جائے ۔
ہم ذیل میں کچھ شواھد پیش کرتے ہیں
ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں
فکانت عائشة تأمر بنات اخوتها وبنات اخواتها أن یرضعن من احبت أن یدخل علیها ویراها وأن کان کبیرا خمس رضعات ثم یدخل علیها وإسناده صحیح
حضرت عائشہ اپنی بھانجیوں اور بھتیجیوں کو حکم کرتی تھی کہ وہ اس شخص کو دودھ پلایا جس کے حضرت عائشہ اپنے پاس بلانا چاھتی تھی اور اس کو دیکھنا چاھتی تھی ۔
ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ اس حدیث کی سند درست ہے.
فتح الباری شرح صحیح البخاری جزء 9 ص 149 الناشر : دار المعرفة - بیروت ، 1379
اہل سنت جان چھڑانے کے لئے یہ کہتے ہیں کہ دودھ نکال کر ایک برتن میں ڈال دیا جاتا تھا اور اس دودھ کو کسی مطلوب شخص کو برتن سے پلایا جاتا تھا۔
پس ضروری ہے کہ ہم رضاع کا معنی کریں
رضاع کا معنی اہل سنت فقھاء نے کچھ یوں کیا ہے کہ
الرضاع لغة اسم لمصی الثدی و الشرب لبنه
رضاع لغت میں عورت کے پستان کو منہ میں لے کر دودھ پینے کو کہتے ہیں ۔
الاغناء فی حل الفاظ ابی شجاع ، ج 2 ، ص 136 ، چاپ دار المعرفه بیروت
بکری دمیاطی ، اعانه الطالبین ، ج 3 ، ص 329
زکریای انصاری ، فتح الوهاب ، ج 2 ، ص 194
یعنی اگر کوئی چاھتا کہ حضرت عائشہ کے پاس جاتا تو وہ حضرت عائشہ کی بھانجی یا بھتیجی کا پستان منہ میں لے کر دودھ پیتا تھا اور پھر حضرت عائشہ کے پاس جاتا تھا۔
حضرت عائشہ کے دلائل:
حضرت عائشہ نے اس کام کے لئے قرآن و حدیث دونوں سے دلائل لائی ۔
قرآن سے دلیل : چونکہ قرآن میں کوئی ایسی آیت نہیں کہ جو بڑے آدمی کو کسی نامحرم عورت کا دودھ پلانے کی تعلیم دے اور نہ حضرت عائشہ اپنی طرف سے کوئی آیت بنا سکی کیونکہ قرآن کی آیات کی طرح کوئی شخص بھی تا قیامت کوئی آیت بنا نہیں سکتا لہذا حضرت عائشہ نے کہا کہ قرآن میں آیت تھی کہ جس میں یہ تعلیم تھی کہ ایک بالغ شخص کسی اجنبی عورت کا دودھ پی سکتا ہے لیکن میری بکری نے وہ آیات کھالی ہے ۔
سنن ابی ماجہ باب رضاع الکبیر جلد ۶ ص ۷۲
سنت سے دلیل : یہاں حضرت عائشہ نے ایک حدیث گھڑ لی ہے اور وہ حدیث یہ ہے کہ
2636 – حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ وَابْنُ أَبِی عُمَرَ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِیهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ
جَاءَتْ سَهْلَةُ بِنْتُ سُهَیْلٍ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ یَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّی أَرَى فِی وَجْهِ أَبِی حُذَیْفَةَ مِنْ دُخُولِ سَالِمٍ وَهُوَ حَلِیفُهُ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَرْضِعِیهِ قَالَتْ وَکَیْفَ أُرْضِعُهُ وَهُوَ رَجُلٌ کَبِیرٌ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ قَدْ عَلِمْتُ أَنَّهُ رَجُلٌ کَبِیرٌ
حدیث کچھ یوں ہے کہ ابوحذیفہ کا منہ بولا بیٹا ابوحذیفہ کے گھر میں رہتا تھا اور سب لوگ اس کو ابوحذیفہ کا بیٹا سمجھنے لگے تھے جب اسلام کا حکم آیا کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہوتا تو ابوحذیفہ نے اپنے منہ بولے بیٹے سالم کو گھر میں رکھنا ناپسند فرمایا ۔ ابوحذیفہ کی بیوی سھلہ بنے سھیل رسول اللہ کے پاس آئی اور کہا کہ یا رسول اللہ جب بھی سالم ہمارے پاس آتا ہے تو میں ابو حذیفہ کے چہرے پر ناراضگی کے اثرات دیکھتی ہوں ، تو رسول اللہ نے کہا کہ جاو تم سالم کو اپنا دودھ پلاو ، سھلہ نے کہا کہ یا رسول اللہ میں کیسے دودھ پلاوں وہ تو بڑا آدمی ہے ۔ رسول اللہ مسکرئے اور کہا کہ مجھے پتہ ہے کہ وہ بڑا آدمی ہے۔
یہ واقعہ کاملا جھوٹ ہے ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں ہوا ہے بس حضرت عائشہ نے یہ حدیث اس لئے گھڑی تاکہ اجنبی لوگوں کا ان کے پاس آنا جانا لگا رہے ۔
اجنبیوں کو دودھ یا خود حضرت عائشہ پلاتی تھی ۔ جیسا کہ
فتح المنعم شرح صحیح مسلم {جلد ۵ ص ۶۲۲ چاپ دار الشروق} میں لکھا ہے
اور بھانجیوں اور بھتیجیوں کو بھی حکم دیتی تھی کہ وہ اجنبیوں کو دودھ پلائے۔ یہ بات مندرجہ ذیل کتابوں میں ہے
صحیح سنن ابی داود جلد ۶ ص ۳۰۲
مسند احمد بن حنبل ص ۴۳ ص ۳۵۲
کشف اللثام شرح عمدۃ الاحکام جلد۶ ص ۳۱
فوائد الحنائی او الحنائیات جلد ۱ ص ۶۲۳، ۶۲۴، ۶۲۵
مختصر صحیح البخاری جلد۳ ص ۳۵۳
سنن ابی داود جلد ۳ ص ۴۰۳، ۴۰۴
مندرجہ بالا تمام روایات پر اہل سنت علمائ نے تصحیح کا حکم لگایا ہے،