معاویہ رسول اللہ کے اقوال میں
معاویہ رسول اللہ کے اقوال میں
حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی معاویہ کے بارے میں احادیث اھل سنت کے منابع میں کثرت سے موجود ہیں۔ جن میں کچھ احادیث اس فصل میں پیش کی جاتی ہے ۔
معاویہ احادیث نبی میں مطعون
معاویہ وہ شخص ہے کہ جس پر رسول اللہ نے خود نام لے کر لعنت کی ہے اور رسول اللہ کی لعنت اھل سنت کی کتابوں میں صحیح الاسناد روایت میں ذکر ہے کہ جن میں سے کچھ روایات مندرجہ ذیل ہیں
المختصر فی اخبار البشر اور تاریخ طبری سمیت اھل سنت کے باقی کئی کتب میں یہ روایت ذکر ہے کہ
ورأى النبی صلى الله علیه وسلم أبا سفیان مقبلاً ومعاویة یقوده، ویزید أخو معاویة یسوق به، فقال: " لعن الله القائد والراکب والسائق "[1]
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے ابوسفیان کو آتے ہوئے دیکھا معاویہ اس کے آگے تھا اور یزید اس کے پیچھے تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا کہ اللہ لعنت کرے اس پر جو آگے جا رہا ہے اور اس پر جو پیچھے جارہا ہے اور اس پر کہ جو سوار ہے ۔
جب کہ وقعہ صفین میں یہ روایت عبد اللہ بن عمر سے نقل ہے کہ
عن على بن الأقمر عن عبد الله بن عمر
خرج من فج فنظر رسول الله إلى أبى سفیان وهو راکب ومعاویة وأخوه، أحدهما قائد والآخر سائق، فلما نظر إلیهم رسول الله صلى الله علیه وسلم قال: " اللهم العن القائد والسائق والراکب "قلنا:أنت سمعت رسول الله صلى الله علیه وسلم ؟ قال: نعم،[2]
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ابو سفیان کو دیکھا ابو سفیان سوار تھا اور معاویہ اور اس کا بھائی کہ جن میں سے ایک سواری کے آگے تھا اور دوسرا پیچھے جب رسول اللہ نے ان کو دیکھا تو رسول اللہ نے فرمایا کہ اے اللہ تو لعنت کر اس پر جو سوار ہے اور اس پر جو آگے ہے اور اس پر جو پیچھے ہے ۔
ہم نے کہا کہ اے عبد اللہ بن عمر کیا تم نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سے سنا ہے ؟ تو عبد اللہ بن عمر نے کہا کہ جی ہاں میں نے خود سنا ہے
کتاب صفین میں مزید ذکر ہے کہ
عن عبد الغفار بن القاسم، عن عدى بن ثابت عن البراء بن عازب قال: أقبل أبو سفیان ومعه معاویة ؟ فقال رسول الله صلى الله علیه وسلم: " اللهم العن التابع والمتبوع.[3]
راوی کہتا ہے کہ ابوسفیان آیا اور اس کے ساتھ معاویہ بھی تھا تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا کہ اللہ لعنت کرے اس پیروی کرنے والے اور جس کی پیروی کی جاتی ہے ۔
اس کے علاوہ بہت سارے شواھد اور بھی موجود ہیں کہ جن کو اس لئے ترک کیا جاتا ہے تا کہ بحث طولانی نہ ہو ۔
معاویہ اور عمروعاص دونوں کا جمع ہونا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے مولا علی کے خلاف لڑنے والوں کو تفصیل سے بیان کیا ہے کہ جن میں سے معاویہ سرفہرست ہے ، حتی معاویہ کے ساتھیوں کے بارے میں بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے احادیث بیان فرمائی ہیں۔ مثلا معاویہ کا دیرینہ ساتھی اور ہر مشکل میں مدد کرنے والا اور صفین میں ایک مکر کے ذریعے سے معاویہ کو مالک اشتر رحمۃ اللہ علیہ کی تلوار سے بچانے والا عمرو بن عاص کے بارے میں بھی رسول اللہ کے ارشادات گرامی موجود ہیں ۔جیسا کہ وقعۃ صفین میں ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا کہ
إذا رأیتم معاویة وعمرو بن العاص مجتمعین ففرقوا بینهما، فإنهما لن یجتمعا على خیر[4]
جب بھی تم معاویہ اور عمرو بن عاص کو ساتھ دیکھو تو ان دونوں کے درمیان میں جدائی ڈال دو کیونکہ یہ دونوں خیر پر جمع نہیں ہوتے ۔
یہ تو تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ جب بھی معاویہ اور عمروعاص جمع ہوئے ہیں ان دونوں کے شر ہی نے جنم لیا ہے ۔ مولا علی کی حکومت میں جو سب سے زیادہ مشکلات پیش آئی تھی وہ ان دونوں کے جمع ہونے سے ہیں ۔
معاویہ کا محشور ہونا
شیعہ اور سنی دونوں کی کتابوں میں رسول اللہ کی فراواں احادیث معاویہ کی موت کے بارے میں یا اس کی حشر کے بارے میں ذکر ہیں کہ جس میں اھل سنت کی کتاب انساب الاشراف میں ذکر ہے کہ
وحدثنی إسحاق وبکر بن الهیثم قالا حدثنا عبد الرزاق بن همام انبأنا معمر عن ابن طاوس عن أبیه عن عبد الله بن عمرو بن العاص قال: کنت عند النبی صلى الله علیه وسلم فقال: یطلع علیکم من هذا الفج رجل یموت على غیر ملتی، قال: وکنت ترکت أبی قد وضع له وضوء، فکنت کحابس البول مخافة أن یجیء، قال: فطلع معاویة فقال النبی صلى الله علیه وسلم : هو هذا.[5]
عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے پاس تھا رسول اللہ نے فرمایا کہ ایک ایسا شخص آرہا ہے کہ جس کی موت غیر اسلام پر ہوگی ۔ اور میرا والد وضو کر رہاتھا اور میں بہت پریشان تھا اس شخص کی طرح کہ جس نے بہت وقت سے اپنا پیشاب روک کر رکھا ہو اس وجہ سے پریشان تھا کہ ایسا نہ ہو میرا باپ آئے { اور اس حدیث کا مصداق بنے } عبداللہ بن عمروعاص کہتے ہیں کہ معاویہ آگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے کہا کہ یہی وہ ہے جس کی موت غیر اسلام پر ہوگی ۔
یہی روایت تاریخ طبری میں بھی ذکر ہے کہ
أن رسول الله صلى الله علیه و سلم قال یطلع من هذا الفج رجل من أمتی یحشر على غیر ملتی فطلع معاویة[6]
رسول اللہ نے فرمایا کہ ایک ایسا شخص آئے گا جو غیر اسلام پر محشور ہوگا تو معاویہ آیا۔
اور یہی روایت وقعۃ صفین میں عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ
عن عبد الله بن عمر قال: أتیت النبی صلى الله علیه وسلم فسمعته یقول: " یطلع علیکم من هذا الفج رجل یموت حین یموت وهو على غیر سنتى ".[7]
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کو فرماتے ہو ئے سنا کہ وہ آرہا ہے کہ جو مرے گا لیکن وہ میری سنت پر نہیں ہوگا۔
روایات میں ذکر ہے کہ معاویہ کا ٹھکانہ جھنم ہے اور وہ جھنم جائیگا کیونکہ تاریخ طبری سمیت باقی کتب میں لکھا ہے کہ
|
إن معاویة فی تابوت من نار فی أسفل درک منها ینادی یا حنان یا منان الآن وقد عصیت قبل وکنت من المفسدین[8]
اور وہاں ندائے دے گا کہ یا حنان یا منان میں نے دنیا میں معصیت کی ہے اور میں مفسدین میں سے تھا
اور یہی حدیث عبد اللہ بن عمر سے بھی ہے ۔
قال عبد الله بن عمر إن معاویة فی تابوت فی الدرک الأسفل من النار.[9]
ابن عمر سے روایت ہے کہ معاویہ جھنم کے سب سے نیچھلے درجے میں آگ کی تابوت میں ہوگا
معاویہ کو منبر پر دیکھ کر قتل کرنے کا حکم
رسول اللہ کی حدیث ہے کہ جب معاویہ کو میرے منبر پر دیکھو تو اسے قتل کرو ۔ یہ حدیث مختلف سندوں سے نقل ہوئی ہے جن کی سند سے بحث علامہ امینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الغدیر جلد نمبر ۱۰ ص ۱۴۳ پر تفصیل سے کی ہے۔
وقعۃ صفین میں جناب حسن بصری سے یہ حدیث نقل ہے کہ
عن الحسن قال: قال رسول الله صلى الله علیه وسلم: " إذا رأیتم معاویة على منبرى یخطب فاقتلوه "[10]
کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ معاویہ کو جب میرے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے دیکھو تو اسے قتل کردو ۔
یہی حدیث مختلف الفاظوں کے ساتھ تاریخ طبری میں نقل ہوئی ہے کہ
أن رسول الله صلى الله علیه و سلم قال إذا رأیتم معاویة على منبری فاقتلوه[11]
رسول اللہ نے فرمایا کہ جب تم معاویہ کو میرے منبر پر دیکھو تو اسے قتل کردو ۔
یہ حدیث یخطب علی منبری فاضربوا عنقه کے الفاظ کے ساتھ بھی نقل ہوئی ہے ۔
یہ حدیث ابو سعید اور عبداللہ بن مسعود سے مختلف کتابوں میں روایت ہے اور ابوسعید کی روایت میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ ابو سعید نے کہا کہ ہم نے معاویہ کو رسول اللہ کے منبر پر دیکھا لیکن اسے قتل نہیں کیا لہذا اسی وجہ سے ہم کامیباب و سرخرو نہیں ہوئے۔
ابو سعید نے درست فرمایا تھا کہ معاویہ کو قتل نہ کرنے کی وجہ سے کامیاب نہ ہوئے ۔ اگر رسول اللہ کی حدیث پر عمل ہوچکا ہوتھا تو نہ فقط قرن اول کے لوگ مصیبتوں سے نجات حاصل کرتے بلکہ آج تک سارے مسلمانوں کو جتنے مشکلات درپیش آئے ہیں وہ کبھی نہ ہوتے ۔ کیونکہ ان تمام مشکلات کی جڑ معاویہ اور وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے معاویہ کو ایسے منصبوں پر فائز کیا اور معاویہ کو عالم اسلام پر مسلط کرنے میں ملوث رہے ۔
صواعق المحرقہ میں ایک حدیث مذکور ہے کہ
و قیل لسعید بن جمهان إن بنی أمیة یزعمون أن الخلافة فیهم فقال کذب بنو الزرقاء بل هم ملوک من شر الملوک [12]
سعید بن جمہان کو کہا گیا کہ بنی امیہ یہ گمان کرتے ہیں کہ خلافت کے فقط وہی حقدار ہیں تو سعید بن جمہان نے کہا بنو زرقاء نے جھوٹ بولا ہے بنی امیہ تو ملوک ہیں وہ بھی شریر ترین ملوک۔
بنی امیہ کی شر کی وجہ سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے ان کے اوپر منبر کو حرام کیا تھا ان کی شر کی وجہ سے ان پر اللہ نے قران میں لعنت کی ہے جیسا کہ ڈاکٹر طہ حسین نے تمام وھابی متعصب مفتیوں کو کہا ہے کہ معاویہ کے فضائل ثابت کرنے سے پہلے قرآن میں موجود شجرہ ملعونہ کی تفسیر کرو۔
معاویہ کا پیٹ
معاویہ کے پیٹ کے بارے میں بحث کرنے سے پہلے سنن ابی داوود سے ایک حدیث پیش خدمت ہے کہ جو ابو سعید بن معلی سے روایت ہے کہ
عن أبی سعید بن المعلى أن النبی صلى الله علیه و سلم مر به وهو یصلی فدعاه قال فصلیت ثم أتیته قال فقال " ما منعک أن تجیبنی " ؟ قال کنت أصلی قال " ألم یقل الله عزوجل { یا أیها الذین آمنوا استجیبوا لله وللرسول إذا دعاکم }[13].
ایک دن رسول اللہ ابوسعید کے پاس سے گزر رہے تھے اور ابوسعید بن معلی نماز پڑھ رہے تھے رسول اللہ نے ابو سعید کو پکارا ابو سعید نے نماز پڑھی اور اس کے بعد رسول اللہ کی خدمت میں آیا تو رسول اللہ نے کہا کہ اے ابو سعید جب میں تجھے پکارا تو تم نے مجھ جواب کیوں نہیں دیا ؟ ابوسعید نے کہا کہ یا رسول اللہ میں نماز پڑھ رہا تھا ۔ تو رسول اللہ نے فرمایا کہ کیا اللہ نے نہیں فرمایا ہے کہ اے ایمان والو جب اللہ اور اس کا رسول تمھیں پکارے تو تم جواب دیا کرو،
شیخ البانی نے اس حدیث کو درست کہا ہے ۔
یعنی اگر کوئی نماز بھی پڑھ رہا ہو اور نماز کے دوران رسول اللہ اس کو بلائے تو اس شخص کو نماز کی حالت میں ہی لبیک کہنا چاھئیے اور رسول اللہ کو جواب دینا چاھئیے کیونکہ یہی اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا معاویہ نے بھی رسول اللہ کی آواز پر لبیک کہا ہے تو اس سوال کا جواب اھل سنت کی کتابوں میں انتہائی کثرت کے ساتھ موجود ہے کہ جس میں معاویہ کے پیٹ کا ذکر ہے صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ
عن ابن عباس قال کنت العب مع الصبیان فجاء رسول الله صلی الله صلی الله علیه وسلم فتواریت خلف باب قال فجاء فحطانی حطاۃ و قال اذهب وادع لی معاویة قال فجئت فقلت هو یاکل قال ثم قال لی اذهب فادع لی معاویة قال فجئت فقلت هو یاکل فقال لا اشبع الله بطنه
ابن عباس سے روایت ہے کہ میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ آئے میں نے اپنے آپ کو دروازے کے پیچھے مخفی کیا ۔ رسول اللہ نے مجھے پشت پر مار کر مجھے کہا کہ جاو معاویہ کو بلاو ۔ میں آیا اور میں نے کہا کہ وہ کھانا کھارہا ہے ۔ رسول اللہ نے پھر کہا کہ جاو معاویہ کو بلاو ۔ میں آیا اور میں نے کہا کہ وہ کھانا کھا رہا ہے ۔ تو رسول اللہ نے کہا کہ خدا اس کا پیٹ نہ بھر دے ۔
اس حدیث سے واضح ہوا کہ معاویہ نے رسول اللہ کا حکم نہیں مانا ۔ رسول اللہ نے بلایا اور کھانا کھانے میں لگا ہوا تھا ۔ جب کہ اللہ اور اس کا رسول کا حکم ہے کہ اگر رسول بلائے تو ضرور لبیک کہو ، اور سنن ابی داوود کی حدیث سے واضح ہوا کہ اگر کوئی نماز بھی پڑھ رہا ہو تب بھی رسول اللہ کو آواز دینا ضروری ہے ۔
ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں مسلم کی حدیث کے بعد ابن عباس کا یہ قول بھی لکھا ہے کہ
قال فما شبع بعدها
کہ اس بددعا رسول کے بعد معاویہ کبھی سیر نہیں ہوا۔
اور ابن کثیر نے اس حدیث پر جو استدلال کیا ہے وہ ملاحظہ فرمائیں
وقد انتفع معاویة بهذه الدعوة فى دنیاه وأخراه أما فى دنیاه فانه لما صار إلى الشام أمیرا کان یأکل فى الیوم سبع مرات یجاء بقصعة فیها لحم کثیر وبصل فیأکل منها ویأکل فى الیوم سبع أکلات بلحم ومن الحلوى والفاکهة شیئا کثیرا ویقول والله ما أشبع وإنما أعیا وهذه نعمة ؟ ؟ ومعدة یرغب فیها کل الملوک[14]
اس دعا سے معاویہ نے دنیا وآخرت دونوں میں فائدہ حاصل کیا،دنیا میں اس طرح کہ جب وہ شام پر امیر ہوا تو دن میں سات مرتبہ کھاتا تھا،اس کے لئے ایک پیالہ لایا جاتا جس میں بکثرت گوشت اور پیاز ہوتے تھے.علاوہ ازیں میٹھی اشیاء اور وافر مقدار میں فروٹ ہوتے تھے،وہ اس طرح کی اشیاء دن میں سات مرتبہ کھاتا تھااور کہتا تھا کہ اللہ کی قسم میں کھاتے کھاتے تھک جاتا ہوں مگر سیر نہیں ہوتا
ابن کثیر کا کہنا ہے کہ یہ ایک نعمت ہے کیونکہ ایسامعدہ بادشاہ چاہتے ہیں۔
حافظ ابن کثیرکے اس استدلال پر اب کیا تبصرہ کیا جائے ،بےشک معاویہ کو شاہانہ معدہ ملا تھا مگر اس بد دعا سے معاویہ کو آخرت میں کیا فائدہ ہوگا یہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے .البتہ معاویہ پر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ کھڑے ہو کر خطبہ دینے سے قاصر ہو گیا۔ ابن ابی شیبہ نے لکھا ہے کہ
قَالَ أَوَّلُ مَنْ خَطَبَ جَالِسًا مُعَاوِیَةُ حِینَ کَبِرَ وَکَثُرَ شَحْمُهُ وَعَظُمَ بَطْنُهُ [15]
سب سے پہلے جس نے بیٹھ کر خطبہ دیا وہ معاویہ ہے جب اس کی چربی بڑی اور زیادہ ہوگئی تھی اور پیٹ بڑھ گیا تھا۔
ابراھیم اور شعبی دونوں کا معاویہ کے بارے میں بیان ہے کہ
قال إبراهیم : أول من جلس فی الخطبة یوم الجمعة معاویة قال الشعبی : أول من خطب جالسا معاویة حین کثر شحمه وعظم بطنه[16]
سب سے پہلا شخص جس نے بیٹھ کر خظبہ دیا ،وہ معاویہ تھا ،یہ اس وقت ہوا جب معاویہ پر چربی زیادہ ہوگئی تھی اور اس کا پیٹ بڑھ چکا تھا ۔
انساب الاشراف میں لکھا ہے کہ
فکان معاویة یقول: لحقتنی دعوةُ رسول الله صلى الله علیه وسلم. وکان یأکل فی کل یوم مرّت أکلاً کثیراً.[17]
معاویہ کہا کرتا تھا کہ رسول اللہ کی دعا مجھ کو لگ گئی ہے ۔ اور معاویہ دن میں کئی مرتبہ کھانا کھاتا تھا ۔
ابن ابی الحدید نے ایک شاعر کا شعر نقل کیا ہے کہ
وصاحب لى بطنه کالهاویه کأن فی أحشائه معاویه[18]
میرا ایک دوست ہے جس کا پیٹ ھاویہ کی طرح ہے { ھاویہ جھنم کا ایک نام ہے } ایسا لگتا ہے کہ اس کے اندر معاویہ ہے۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس حدیث کو بعضوں {ابن کثیر} نے معاویہ کے لئے فضیلت ذکر کی ہے کہ یہ رسول اللہ نے معاویہ کے حق میں دعا کی ہے کہ معاویہ اس دنیا کے کھانوں سے لطف اندوز ہوتے رہے ، اب ایسی فضیلتوں پر کیا بحث ہو سکتی ہے ۔ کیونکہ ایسی باتوں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان لوگوں نے کوشش کرنی ہے کہ جیسے بھی ہو معاویہ کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ نکالا جائے تاکہ رضی اللہ کہنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے ۔
معاویہ ایک باغی گروہ کا سربراہ
معاویہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی احادیث کی طرف دقت سے توجہ کی جائے تو ہر منصف کو معلوم ہوتا ہے کہ معاویہ ابن ابی سفیان ایک باغی گروہ کا لیڈر تھا جیسا کہ مسلم نیشاپوری نے بھی معاویہ کے باغی ہونے پر دلالت کرنے والی حدیث نقل کی ہے کہ
تقتله الفئة الباغیة یدعوهم إلى الجنة ویدعونه إلى النار
عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا عمار ان کو جنت کی طرف بلائے گا اور وہ عمار کو جھنم کی طرف بلائیں گے ۔
یہ احادیث اھل سنت کے ہاں صحیح السند ہے اور اھل سنت کے کئی تاریخی اور حدیثی کتابوں میں نقل ہوئی ہے اھل سنت کا کوئی ایک مسلک بھی اس حدیث کا انکار نہیں کرتا ۔اس حدیث میں واضح بیان ہے کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا ۔ ساری تاریخی کتابیں گواہ ہیں کہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو معاویہ کی لشکر نے جنگ صفین میں شہید کیا تھا ۔ پس اس حدیث کی رو سے معاویہ اور اس کے پورے لشکر پر باغی گروہ کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اور اس باغی گروہ کی وضاحت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے کی ہے کہ وہ ایسا گروہ ہے جو جھنم کی طرف دعوت دے گا ۔اور قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالی نے باغی گروہ کے حکم کو بیان کیا ہے کہ
وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَیْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی حَتَّى تَفِیءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ
اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں قتال شروع کرے تو ان کے درمیان صلح کرو اگر ان میں سے کوئی ایک گروہ دوسرے گروہ پر بغاوت کرے تو باغی گروہ سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ جائے
باغی گروہ سے لڑنا اللہ کا حکم ہے اور رسول اللہ کی حدیث کے مطابق معاویہ کا گروہ باغی گروہ ہے اور اسی باغی گروہ کا سربراہ معاویہ ہے۔ جب حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو سب لوگوں پر یہ واضح ہوا کہ معاویہ باغی ہے اور اس کے بعد شک میں پڑے ہوئے لوگوں نے مولا علی کی لشکر میں شمولیت اختیار کی ۔ اور جب اس حدیث کا پتہ معاویہ کو چلا تو معاویہ نے پھر ایک دفعہ اھل شام کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور فورا کہا کہ عمار یاسر کا قاتل میں نہیں بلکہ خود علی ابن ابی طالب ہیں کیونکہ وہی ان کو میدان لے آئے ہیں ۔ جناب حاکم نیشاپوری نے اپنی کتاب مستدرک علی صحیحین میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ جس کا متن کچھ یوں ہے کہ
أخبرنی أبو عبد الله محمد بن عبد الله الصنعانی ثنا إسحاق بن إبراهیم بن عباد عن عبد الرزاق عن معمر عن ابن طاوس عن أبی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم عن أبیه أخبره قال : لما قتل عمار بن یاسر دخل عمرو بن حزم على عمرو بن العاص فقال : قتل عمار و قد سمعت رسول الله صلى الله علیه و سلم یقول : تقتله الفئة الباغیة فقام عمرو فزعا حتى دخل على معاویة فقال له معاویة : ما شأنک فقال : قتل عمار بن یاسر فقال : قتل عمار فماذا ؟ قال عمرو : سمعت رسول الله صلى الله علیه و سلم یقول : تقتله الفئة الباغیة فقال له معاویة : أنحن قتلناه إنما قتله علی و أصحابه جاؤوا به حتى ألقوه بین رماحنا أو قال سیوفنا
صحیح على شرطهما و لم یخرجاه بهذه السیاقة [19]
راوی کہتا ہے کہ جب عمار بن یاسر شہید ہوئے تو عمرو بن حزم عمرو بن عاص کے پا س آیا اور کہا کہ عمار قتل ہوئے اور میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا ۔ تو عمرو بن عاص گھبرائے ہوئے کھڑا ہوا یہاں تک کہ معاویہ کے پاس آیا۔ تو معاویہ نے پوچھا کہ تجھے کیا ہوا ہے ۔ عمرو بن عاص نے کہا کہ عمار بن یاسر قتل ہوئے ۔ معاویہ نے کہا کہ عمار قتل ہوا تو کیا ہوا ؟ عمرو عاص نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کو سنا ہے کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا ۔ معاویہ نے کہا کہ اس کو ہم نے قتل نہیں کیا ہے بلکہ اسے تو علی اور علی کے ساتھیوں نے قتل کیا ہے جنہوں نے عمار کو ہمارے تیروں یا تلواروں کے سامنے لایا۔
جناب حاکم نیشاپوری کہتے ہیں کہ یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرائط کے مطابق ہیں لیکن بخاری اور مسلم نے اسی سیاق کے ساتھ نقل نہیں کیا ہے ۔ ذھبی نے بھی اسی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔
پس واضح ہوا کہ معاویہ نے حکومت کے حصول کے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کیا جیسا کہ اس نے صفین میں رسول اسلام کی حدیث میں معنوی تحریف کی کہ ہم نے عمار کو قتل نہیں کیا بلکہ علی نے قتل کیا ہے کیوں کہ علی نے ہی عمار کو میدان جنگ میں لایا ہے ۔ معاویہ کے یہ الفاظ جب مولا علی علیہ السلام کو بتائے گئے تو مولا علی علیہ السلام نے فرمایا کہ پھر تو حضرت حمزہ علیہ السلام کو بھی رسول اللہ نے قتل کیا ہے کیونکہ رسول اللہ نے حمزہ کو میدان میں لایا تھا ۔
معاویہ کے اس قانون کے مطابق تو خلفاء کے فتوحات میں قتل ہونے والے تمام مسلمانوں کے اصلی قاتل خلفاء ہیں کیونکہ انہوں نے ہی مسلمانوں جنگجووں کو میدان بھیجا تھا ۔ جیسا ابوعبیدہ ثقفی جو عمر بن خطاب کے زمانے میں قتل ہوئے تھے پس ابوعبیدہ ثقفی کا اصلی قاتل تو خود عمر بن خطاب ہے ۔
لیکن ان سب کے باوجود ابن تیمیہ نے علی دشمنی کی انتہائ کردی اور کہا ہے کہ معاویہ کا گروہ باغی گروہ نہیں ہے وہ اپنی کتاب منھاج السنہ کہ جس کو علمائ کرام منھاج البدعہ کہتے ہیں لکھتے ہیں کہ
والقتال یوم الجمل وصفین فیه نزاع هل هو من باب قتال البغاة المأمور به فی القران أو هو قتال فتنة القاعد فیه خیر من القائم فالقاعدون من الصحابة وجمهور أهل الحدیث والسنة وأئمة الفقهاء بعدهم یقولون هو قتال فتنة لیس هو قتال البغاة المأمور به فی القران [20]
جمل اور صفین کی قتال میں اختلاف ہے کہ کیا وہ باغیوں کی لڑائی تھی کہ جن کے ساتھ لڑنے کا حکم قرآن میں آیا ہے یا وہ ایک فتنہ کی لڑائی تھی کہ جس میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہے ؟ صحابہ میں سے جنگ میں شریک نہ ہونے والے، اھل سنت و اھل حدیث کے جمہور علماء اور ائمہ فقھاء کہتے ہیں کہ یہ لڑائی فتنے کی لڑائی تھی نہ کہ بغاوت کی کہ جس کے بارے میں قران میں حکم موجود ہیں ۔
جب کہ حافظ زین الدین عبد الرووف المناوی لکھتے ہیں کہ
( عمار تقتله الفئة الباغیة ) أی الظالمة الخارجة عن طاعة الإمام الحق والمراد بهذه الفئة فئة معاویة[21]
باغی گروہ سے مراد یعنی وہ ظالم گروہ جو امام حق کی اطاعت سے خارج ہو اور اس گروہ سے مراد معاویہ کا گروہ ہے ۔
دوسری جگہ پر فرماتے ہیں کہ
)ویح عمار ) بن یاسر ( تقتله الفئة الباغیة ) قال البیضاوی یرید به معاویة وقومه ( یدعوهم الى الجنة ) أی الى سببها وهو طاعة الامام الحق ( ویدعونه الى ) سبب ( النار ) وهو عصیانه ومقاتلته وقد وقع ذلک یوم صفین دعاهم فیه الى الامام ودعوه الى النار وقتلوه[22]
)عمار بن یاسر کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا ۔( بیضاوی نے کہا ہے کہ اس گروہ سے مراد معاویہ اور اس کا گروہ ہے )جن کو عمار جنت کی طرف بلائے گا ( یعنی جنت جانے کی سبب کی طرف بلائے گا اور وہ سبب امام حق کی اطاعت کرنا ہے۔اور وہ باغی گروہ عمار کو جہنم جانے کی سبب کی طرف بلائے گا اور وہ سبب امام حق کی نافرمانی اور اس سے حنگ کرنا ہے ، اور یہ واقعہ صفین کے دن وقوع پذیر ہوا کہ جس دن عمار بن یاسر معاویہ اور اس کے ساتھیوں کو امام کی طرف بلا رہا تھا اور وہ عمار کو جھنم کی طرف بلا رہے تھے اور انہوں نے عمار کو قتل کیا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ فرماتے ہیں کہ معاویہ کا گروہ باغی گروہ ہے جبکہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ نہیں وہ باغی گروہ نہیں ہے ۔ اسی لئے حسن بن فرحان مالکی نے درست کہا ہے کہ ابن تیمیہ نے جتنی کتابیں لکھی ہیں ساری کے ساری کتابوں کے ہر پانچ سطروں میں جھوٹ موجود ہے ۔
[1] أبو الفداء: المختصر فی أخبار البشر باب احمد المعتضد بالله جلد ۱ ص ۱۸۷ ، ا الطبری: تاریخ الأمم والرسل والملوک جلد ۵ ص ۶۲۲
[2] وقعہ صفین جلد ۱ ص ۲۲۰
[3] وقعة صفین جلد ۱ ص ۲۱۸
[4] وقعة صفین جلد ۱ ص ۲۱۸
[5] انساب الاشراف جلد ۲ صفحہ ۱۲۰
[6] تاریخ الأمم والرسل والملوک جلد ۵ ص ۶۲۲ الناشر : دار الکتب العلمیة – بیروت الطبعة الأولى ، 1407
[7] وقعة صفین جلد ۱ ص ۲۲۰
[8] تاریخ الأمم والرسل والملوک جلد ۵ ص ۶۲۲ دار الکتب العلمیة - بیروت
[9] وقعة صفین جلد ۱ ص ۲۱۸
[10] وقعة صفین جلد ۱ ص ۲۲۱
[11] تاریخ الأمم والرسل والملوک جلد ۵ ص ۶۲۲ الناشر : دار الکتب العلمیة – بیروت الطبعة الأولى ، 1407
[12] الصواعق المحرقة جلد ۱ ص ۶۶ مؤسسة الرسالة – بیروت الطبعة الأولى ، 1997 تحقیق : عبدالرحمن بن عبدالله الترکی وکامل محمد الخراط
[13] سنن أبی داود جلد ۱ ص ۴۶۱ حدیث 1458 - الناشر : دار الفکر تحقیق : محمد محیی الدین عبد الحمید
[14] البدایة والنهایة جلد ۸ ص ۱۱۹الناشر : مکتبة المعارف - بیروت
[15] مصنف لابن ابی شیبہ جلد ۹ ص ۱۲۳
[16] مختصر تاریخ دمشق جلد ۷ ص ۳۴۸
[17] انساب الاشراف جلد ۱ ص ۲۳۱
[18] شرح ابن ابی الحدید جلد ۴ ص ۵۵ المحقق : محمد أبو الفضل ابراهیم الناشر : دار احیاء الکتب العربیة
[19] مستدرک علی الصحیحین حدیث 5659 -
[20] منهاج السنة النبویة جلد ۴ ص ۵۰۰ الناشر : مؤسسة قرطبة الطبعة الأولى ، 1406 تحقیق : د. محمد رشاد سالم
[21] التیسیر بشرح الجامع الصغیر جلد ۲ ص ۲۸۷ دار النشر / مکتبة الإمام الشافعی - الریاض - 1408هـ - 1988م الطبعة: الثالثة
[22] التیسیر بشرح الجامع الصغیر جلد ۲ ص ۹۳۳ دار النشر / مکتبة الإمام الشافعی - الریاض - 1408هـ - 1988م الطبعة: الثالثة