معاویہ کا کردار
معاویہ کا کردار
خلیفہ کی نافرمانی ۔
مسلمانوں کے ماموں کے بارے میں اھل سنت کے امام حسن بصری نے کہا ہے کہ معاویہ کے چار کام ایسے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی ہوتا تو بھی تباہی کے لئے کافی ہوتا ۔ ایک امت کے دنیا طلب جاھلوں کو ساتھ ملا کر اقتدار پر قبضہ کرنا ، یزید کو ولی عہد بنانا ، زیاد کو بھائی قرار دینا اور حجر اور ان کے ساتھیوں کو قتل کرنا
میں حسن بصری کے اس قول سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں لیکن ایک تضمیم کے ساتھ کہ یہ چار افعال جو معاویہ نے انجام دئیے ہیں اگر چہ اپنی جگہ پر یہ سنگین گناہ ہیں اور ان افعال کی وجہ سے امت مسلمہ کے دل پر معاویہ نے چھرا مارا ہے ۔ لیکن فقط یہی گناہ نہیں کہ جو تباہی کے لئے کافی ہوتے بلکہ معاویہ نے ان چار گناہوں سے بڑا گناہ جو کیا ہے وہ یہ ہے کہ معاویہ نے خلیفہ راشد کے خلاف بغاوت کی ہے اور جیسے امام علی علیہ السلام بر سر تحت آئے اور باقائدہ طور پر خلیفہ ہوئے ،سب نے مولا علی کا انتخاب کیا { اور انتخاب بھی ایسا کہ پچھلے کسی خلیفہ کا انتخاب اس طر ح سب کے سامنے نہیں ہوا تھا کیونکہ ابوبکر کا انتخاب فقط عمر نے کیا تھا اور عمر کے اصرار پر سقیفہ بنی ساعدہ میں موجود {کہ جن کی تعداد شاید ۱۵ یا ۲۰ تھی } لوگوں میں سے بعض نے بیعت کی اور اسی سے وہ خلیفہ بنا اور عمر بن خطاب بھی فقط ابوبکر کی نامزدگی کی وجہ سے کہ جس کے نصب میں عام مسلمان کا کوئی دخل نہیں تھا اور عثمان بھی ایک شوری کے کچھ آدمیوں کی وجہ سے منتخب ہوا ۔ لیکن یہ اعزاز صرف مولا علی کو ملا ہے کہ جن کی بیعت مسجد میں سب کے سامنے ہوئی اور مسلمانوں کے کبائر نے مل کر مولا علی کے ہاتھ پر بیعت کی} ایسے خلیفہ کی طرف سے شام کا نیا امیر بھیجا گیا اور کہا گیا کہ معاویہ سے بیعت لینے کے بعد فورا معزولی کا حکم سنادے ، جیسے ہی شام کا نیا امیر شام کے سرحد پر پہنچا تو معاویہ کے سپاہیوں نے روک کر کہا کہ اگر تم معاویہ کی طرف سے ہو تو اھلا و سھلا اور اگر کسی اور طرف سے ہو تو واپس ہوجاو ، اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے سے یہ معاویہ نے ٹھان لیا تھا کہ مولا علی کی اطاعت نہیں کرنی۔ عثمان کا خون تو ایک بہانہ تھا معاویہ کا اصل ہدف مولا علی علیہ السلام کو خلافت سے برطرف کرکے خود حکومت پر قبضہ کرنا تھا ورنہ اگر معاویہ چاھتا تو عثمان کی مدد کرتا اور عثمان قتل نہ ہوتا لیکن اس نے عثمان کی مدد نہیں کی جیس کہ اھل سنت کے جلیل القدر عالم دین جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے کہ
عن أبی الطفیل عامر بن واثلة الصحابی أنه دخل على معاویة فقال له معاویة : ألست من قتلة عثمان ؟ قال : لا و لکنی ممن حضره فلم ینصره قال : و ما منعک من نصره ؟ قال : لم تنصره المهاجرون و الأنصار فقال معاویة : أما لقد کان حقه واجبا علیهم أن ینصروه قال : فما منعک یا أمیر المؤمنین من نصره و معک أهل الشام ؟ فقال معاویة : أما طلبی بدمه نصرة له ؟ فضحک أبو الطفیل ثم قال : أنت و عثمان کما قال الشاعر :
( لا ألفینک بعد الموت تندبنی ... و فی حیاتی ما زودتنی زادا )[1]
ابو طفیل عامر بن واثلہ سے مروی ہے کہ وہ معاویہ کے پاس آیا تو معاویہ نے اس سے پوچھا کہ تم عثمان کے قاتلوں میں سے تو نہیں ہو ؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں لیکن میں ان لوگوں میں سے ہوں کہ جو عثمان کے قتل کے وقت موجود تھے اور انہوں نے عثمان کی مدد نہیں کی ۔ معاویہ نے کہا کہ تمہیں کس چیز نے عثمان کی مدد سے روکا تھا ؟ اس نے کہا کہ مھاجرین اور انصار نے بھی عثمان کی مدد نہیں کی ۔ معاویہ نے کہا کہ ان پر واجب تو تھا کہ عثمان کی مدد کرتے ۔ تو ابوعامر نے کہا کہ اے امیر المومنین تجھے اور اھل شام کو کس چیز نے چیز نے عثمان کی مدد سے روکا تھا ؟ معاویہ نے کہا کہ کیا عثمان کے خون کا مطالبہ کرنا اس کی مدد نہیں ہے ؟ تو ابوطفیل ہنسا اور پھر کہا تمھارا اور عثمان کا تو حال ایسا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے کہ
تجھے چاھئیے کہ موت کے بعد مجھ پر نہ روئے کیونکہ زندگی میں مجھے دینا جو خرچ تجھ پر واجب تھا وہ تم نے نہیں دیا۔
معلوم ہوا کہ یہ سارے نعرے اور قصاص کے اشعار فقط حکومت حاصل کرنے کے لئے تھے ۔ اور مولا علی نے پہلے ہی حکم میں معاویہ سے بیعت لینے کے پیغام کے بعد معزولی کا حکم دے کر قیامت تک کے لوگوں کو معاویہ کا چہرہ دکھایا کیونکہ اگر معاویہ کو اسلام کا پاس ہوتا تو کبھی بھی ایک خلیفہ راشد کہ جن کا انتخاب سابقہ خلفا ء سے بھی زیادہ احسن طریقے سے ہوا ہے { اھل سنت کے معیارات کے مطابق} کے حکم کو نہ ٹھکراتا ۔ لہذا معاویہ کا یہ گناہ اس کے تمام گناہوں سے بڑا ہے کیونکہ معاویہ کے اسی گناہ کی وجہ سے بعد کے مسلمانوں کے درمیان کتنا خون بہا اگر معاویہ خلیفہ راشد کا حکم مانتا تو نہ فقط ہزاروں کا خون نہ بہتا بلکہ بہت سارے گمراہ راستے بھی نہ کھولتے ۔ جیسے خوارج ۔
زیاد کو اپنا بھائی بنانا:
زیاد بن ابیہ کہ جو ھجری کے اول سال میں پیدا ہوا تھا مولا علی علیہ السلام کی طرف سے فارس کا عامل تھا امام حسن علیہ السلام کے معاویہ کے ساتھ صلح کے بعد زیاد بن ابیہ نے معاویہ کی بیعت سے انکار کیا تو مغیرہ بن شعبہ نے زیاد سے کہا کہ تو اصل میں معاویہ کا بھائی ہے اور معاویہ بن ابی سفیان بھی معترف ہے ۔ معاویہ بن ابی سفیان نے زیاد کو دمشق بلایا اور دمشق والوں کے سامنے زیاد کی موجودگی میں معاویہ نے اعلان کیا کہ زیاد کی ماں سمیہ کے ساتھ زمانہ جاھلیت میں ابو سفیان نے زنا کیا تھا اور زیاد ابوسفیان کے اسی نطفے سے پیدا ہوا ہے ۔
بیہقی نے لکھا ہے کہ
علی بن الإمام الشهید الحسین بن علی بن أبی طالب رضی الله عنهم لما دخل على عبید الله بن زیاد، قال له: ما اسمک؟ فقال: علی، فقال: ما اسم أخیک المقتول؟ فقال: علی، فقال: کم من علی؟ فقال زین العابدین رضی الله عنه: إن أبی الحسین رضی الله عنه أحب أباه، فسمى أولاده باسم أبیه، هکذا من یکون له أب معروف، أما من لم یکن له أب ینسب إلیه فهو معذور. تعرض بابن زیاد فإنه لم یکن لزیاد أب ینسب إلیه، لذلک یقال له: زیاد بن أبیه. [2]
امام زین العابدین علیہ السلام جب ابن زیاد کے دربار میں داخل ہوے تو ابن زیاد نے نام پوچھا تو امام نے جواب دیا کہ میرا نام علی ہے ۔ ابن زیاد نے پوچھا کہ آپ کے مقتول بھائی کا کیا نام ہے امام نے جواب دیا کہ علی ہے تو ابن زیاد نے کہا کہ کتنے علی ہیں آپ کے گھر میں ۔ تو امام زین العابدین علیہ السلام نے جواب دیا کہ کہ میرا والد حسین بن علی علیہما السلام اپنے والد سے محبت کرتے تھے اس لئے اپنے بیٹوں کے نام اپنے والد کے نام پر رکھے ہیں اور اسی طرح جس کا بھی باپ معلوم ہو وہ اپنے بیٹوں کے نام اسی طرح ہی رکھتا ہے ۔ لیکن جس کا باپ معلوم نہ ہو تو وہ کیسے اپنی نسبت باپ کی طرف دے گا ۔
امام زین العابدین علیہ السلام نے اس لئے کہا کیونکہ زیاد کا باپ معلوم نہیں تھا اس لئے اس کو زیا د بن ابیہ کہا جاتا ہے
زیاد کے بارے میں فوات الوفیات میں لکھا ہے کہ
زیاد بن أبیه، واسم أبیه عبید، وادعاه معاویة أنه أخوه والتحق به فعرف زیاد بن أبی سفیان، واستشهد معاویة بجماعة فشهدوا على إقرار أبی سفیان بذلک. وکانت أمه سمیة جاریة الحارث بن کلدة الثقفی، فزوجها الحارث غلاماً له رومیاً اسمه عبید، وجاء أبو سفیان إلى الطائف فی الجاهلیة فوقع على سمیة، فولدت له زیاداً على فراش عبید، وأقر أبو سفیان أنه من نطفته، فلهذا قیل ما قیل. ویقال له زیاد بن أبیه لما وقع فی أبیه من الشک،۔[3]
زیاد بن ابیہ کے باپ کا نام عبید تھا اور معاویہ نے دعوی کیا کہ زیاد اس کا بھائی ہے اور زیاد بن ابی سفیان کے نام سے پہچنوایا اور اس پر معاویہ نے کچھ لوگوں کو گواہ کے طور پر پیش کیا اور انہوں نے گواھی دی کہ زیاد ابوسفیان کے نطفے سے زیاد پیدا ہوا ہے ، اور زیاد کی ماں کا نام سمیہ تھا جوکہ حارث بن کلدہ ثقفی کی کنیز تھی ۔ حارث نے اس کی شادی اپنے غلام سے کرائی کہ جس کا نام عبید تھا جو کہ رومی تھا ۔ ابو سفیان نے زمانہ جاھلیت میں طائف آکر سمیہ سے زنا کیا تو سمیہ نے عبید کے بستر پر زیاد کو جنا اور ابو سفیان نے اقرار کیا کہ زیاد اسی کے نطفے سے ہے ۔
اور زیاد کو زیاد بن ابیہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا باپ معلوم نہیں تھا
استعیاب مروج الذہب ابن کثیر طبری اسد الغابہ و الاصابہ ابن عساکر تاریخ یعقوبی سمیت سب نے نقل کیا ہے اور مورخین کا اس واقعے پر اتفاق ہے کہ معاویہ نے زیاد کو اپنا بھائی مانا حالانکہ وہ زنا زادہ تھا
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی حدیث ہے کہ الولد للفراش والعاھر للحجر
اور معاویہ نے اپنے سیاسی اھداف کے لئے زیاد کو اپنا بھائی بنایا تھا اسی لئے جہاں بھی زیاد نے معاویہ کی رائے کو تسلیم نہیں کیا ہے وہاں پر معاویہ نے زیاد کو ابن عبید سے پکارا ہے جیسا کہ تاریخ یعقوبی میں ہے کہ
کہ معاویہ نے زیاد کو خط لکھا کہ اے زیاد کوفہ والوں سے یزید کے لئے بیعت مغیرہ بن شعبہ لے گا اور بصرہ والوں سے بیعت لینا تمھاری ذمہ داری ہے تو زیاد نے جوابا ایک خط لکھ کر کہا کہ اے معاویہ ، میں کیسے لوگوں سے یزید کا تذکرہ کروں اگر میں یزید کی جانشینی کی بات کی تو لوگ کہیں گے کہ یزید تو بندروں اور کتوں سے کھیلنے والا ہے اور سے کھیلنے والا ہے شراب پیتا ہے اور گانا بجانے کا عاشق ہے حالانکہ اس وقت امت میں حسین بن علی عبداللہ بن عباس عبداللہ بن زبیر و عبد اللہ بن عمر جیسے لوگ موجود ہیں ۔ فعل وقت تم یزید کے اخلاق پر کام کرو تاکہ ایک دو سال میں ہم لوگوں سے بیعت لینے کے قابل بنے ۔
فلما صار الرسول إلى معاویة وأدى إلیه الرسالة قال: ویلی على ابن عبید! لقد بلغنی أن الحادی حدا له أن الأمیر بعدی زیاد، والله لأردنه إلى أمه سمیة، وإلى أبیه عبید[4]
جب قاصد معاویہ کے پاس آیا اور معاویہ کو خط دیا تو معاویہ نے کہا کہ وائے ہو عبید کے بیٹے پر ، مجھے بتایا گیا ہے کہ اس کے کانوں میں کسی نے کہا ہے کہ میرے بعد زیاد خلیفہ ہوگا ۔ اللہ کی قسم میں اسے اس کی ماں سمیہ اور اس کے باپ عبید کی طرف پلٹا دوں گا۔
تو وہی زیاد ہے کہ جس کو معاویہ نے اپنے سیاسی اھداف کے لئے زیاد بن ابی سفیان بنا دیا۔ اور یہاں چونکہ معاویہ کو اس کی رائے پسند نہ آئی تو فورا عبید اور سمیہ کا بیٹا کہا ، حالانکہ ابوسفیان کے بیٹے ہونے پر معاویہ نے زیاد بن ابیہ کے سامنے گواہ بھی پیش کئے تھے اور یہ واقعہ کوئی بھی رد نہیں کرسکتا کیونکہ اس واقعے کو سنی شیعہ سب کی تاریخی کتابوں نے تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔
اس شرمناک اور ناشناس رشتے پر بھی وھابیوں نے پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے کیونکہ سلفیوں نے ٹھان لی ہے کہ جس طریقے سے بھی ہو معاویہ کو جلیل القدر صحابی ثابت کرے تاکہ ان کو رضی اللہ کہنے کا مخالفین کی طرف سے جواز ثابت ہوجائے۔ وھابی یہ کہتے ہیں کہ زمانہ جاھلیت میں یہ ایک طرح کا نکاح تھا جو ابو سفیان نے انجام دیا تھا ، وھابیوں کو چاھئِیے کہ اس طرح کا نکاح صحیح السند روایت سے ثابت کریں ۔
اھل سنت کے فقہائ کا کہنا ہے کہ اسلام میں پہلی دفعہ اعلانیہ طور پر جس نے رسول اللہ کے حکم کا پاس نہ رکھا وہ معاویہ ہے کہ جس نے اعلانیہ رسول اللہ کے فرمان کا عملی طور پر مخالفت کرکے ایک زنازادے کو اپنا بھائی بنایا۔
زیاد بن ابیہ وہ ظالم انسان تھا کہ جس نے چن چن کر معاویہ کے مخالفین کو قتل کیا حجر بن عدی بھی اسی کی وجہ سے معاویہ نے قتل کیا تھا اور تاریخ نے زیاد کے ظلم تفصیل سے لکھے ہیں اور یہاں پر ذکر کرنا ہمارے موضوع سے متعلق نہیں ہے ۔
مولا علی پر لعن طعن :
معاویہ نے ایک اور بڑی بدعت دین میں یہ لایا کہ اس نے منبروں سے مولا علی شیر خدا پر سب و شتم کرنا شروع کئے اور اس کا اھل سنت کی تاریخی اورحدیثی کتابیں گواہ ہیں ابن ابی الحدید المعتزلی نے شرح نھج البلاغہ میں ایک فصل لکھی ہے کہ کون کون مولا علی علیہ السلام پر سب وشتم کرتا تھا اور اسی کے ساتھ ہی ایک اور فصل لکھی ہے کہ جس میں امام علی السلام کی مذمت میں جو احادیث بنائی گئی ہیں ان کے بارے میں بیان ہوا ہے ۔ مولا علی پر معاویہ کا سب و شتم سے انکار کوئی بھی نہیں کرسکتا کیونکہ اس باب میں اتنی تواتر کے ساتھ احادیث موجود ہیں کہ جن کو نہ ماننا تکبر کی علامت ہے۔ حتی کہ اھل سنت کے ہاں صحیح ترین کتاب صحیح مسلم جیسی کتاب میں بھی ذکر ہے کہ معاویہ نے سعد بن ابی وقاص کو کہا کہ مامنعک ان تسب ابا تراب
کہ تجھے کس چیز نے علی پر سب و شتم سے روکا ہے۔
لیکن افسوس کے ساتھ أبو زکریا یحیى بن شرف بن مری النووی نے اس حدیث کی شرح میں کچھ یوں لکھا ہے کہ
فقول معاویة هذا لیس فیه تصریح بانه امر سعدا بسبه وانما ساله عن السبب المانع له من السب
معاویہ کے اس قول میں یہ تصریح موجود نہیں ہے کہ اس نے سعد بن ابی وقاص کو سب و شتم کا حکم دیا ہو بلکہ یہاں تو معاویہ نے سعد سے سب و شتم نہ کرنے کی صرف وجہ پوچھی ہے۔[5]
جبکہ علامہ ابن عبد ربہ الاندلسی نے اپنی کتاب العقد الفرید میں صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ
ولما مات الحسنُ بن علیّ حَجّ معاویة، فدخل المدینة وأراد أن یَلْعن علیَّا على مِنبر رسول الله صلى علیه وسلم. فقیل له: إن هاهنا سعدَ بن أبی وقاص، ولا نراه یرضى بهذا، فابعث إلیه وخُذ رأیه. فأرسل إلیه وذکر له ذلک. فقال: إن فعلت لأخرُجن من المسجد، ثم لا أعود إلیه. فأمسک معاویة عن لعنه حتى مات سعد. فلما مات لَعنه عَلَى المنبر، وکتب إلى عماله أن یَلعنوه على المنابر، ففعلوا. فکتبتْ أم سَلمة زوج النبیّ صلى علیه وسلم إلى معاویة: إنکم تلعن اللّه ورسولَه على منابرکم، وذلک أنکم تلعنون علیّ بن أبی طالب ومن أحبّه، وأنا أشهد أن اللّه أحبَّه ورسولَه، فلم یلتفت إلى کلامها.[6]
جب حسن بن علی علیہ السلام نے وفات پائی تو معاویہ نے حج کیا اور پھر مدینہ میں داخل ہوا اور مولا علی علیہ السلام پر رسول اللہ کے منبر سے لعنت بھیجنا چاھا تو اسے بتایا گیا کہ یہاں سعد بن ابی وقاص ہے اور اس پر راضی نہیں ہے ۔ پہلے اس کے بارے میں سعد سے پوچھو۔ تو معاویہ نے اس سے رای مانگی تو سعد نے جواب دیا کہ اگر تو نے ایسا کیا تو میں مسجد سے نکل جاوں گا اور پھر واپس نہیں لوٹوں گا ۔ تو معاویہ نے لعنت سے پرھیز کی یہاں تک کہ سعد مرگیا ۔ جب سعد مرگیا تو معاویہ نے منبر سے مولا علی پر لعنت شروع کی اور اپنے سارے گورنروں کو حکم دیا کہ منبروں سے مولا علی پر لعنت شروع کریں۔ تو معاویہ کے گورنروں نے لعنت بھیجنا شروع کیا ۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی بیوی ام المومنین ام سلمہ نے معاویہ کو خط لکھا کہ تم لوگ اپنے منبروں سے اللہ اور اس کے رسول پر لعنت بھیجتے ہو۔کیونکہ تم لوگ علی علیہ السلام اور اس سے محبت کرنے والوں پر لعنت بھیجتے ہو ۔ اور میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ علی سے محبت کرتے ہیں ۔ معاویہ نے ام المومنین ام سلمہ کے خط پر کوئی توجہ نہ دی۔
کیا مظلومیت ہے مولا علی کی کہ معاویہ جیسا طلیق بن طلیق آکر مولا علی کے خلاف لڑا اور جیسے ہی حکومت پر قبضہ کیا تو علی جیسے انسان کہ جس کی محبت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے مومن کی نشانی اور بغض کو منافق کی نشانی بتائی ہے کے خلاف ممبروں سے خطبوں میں بکواسات کئے ۔حتی کے مدینہ میں بھی مروان بن حاکم جیسے لعین ابن لعین نے مسجد نبوی میں منبر رسول سے مولا علی پر سب و شتم کرتا تھا ۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اھل سنت معاویہ اور اس کے ساتھیوں کے اس فعل پر بھی پردہ ڈالتے ہیں کہ یہاں سب سے مراد تنقید ہے ۔ جب کہ باقی جہاں بھی سبّ کا لفظ استعمال ہوا اس کا معنی گالی گلوچ کرتے ہیں۔
کیا اھل سنت اس کو بھی اجتھادی غلطی کہیں گے یا نہیں ؟
اس کو بھی اجتھادی غلطی کہنے میں ان کو کوئی ممانعت نہیں ہے کیونکہ جب ابن حزم ، عبد الرحمن بن ملجم کے لئے اجتھد فاخطا کے الفاظ استعمال کر سکتا ہے اور کہتا ہے کہ اصل میں حضرت علی کو قتل کرنا عبد الرحمن بن ملجم کا اجتھاد تھا اور اس نے اجتھاد کیا لیکن اس کا اجتھاد مطابق بالواقع نہیں ہوا پس اسے ایک اجر ملے گا ۔ تو باقی اھل سنت بھی معاویہ کے بہت سارے کرتوتوں کے لئے اجتھد فاخطا کے الفاظ استعمال کرسکتے ہیں ۔ لہذا وہی بنی امیہ کی فکر ابھی بھی ہے اس دور میں بھی ہے جو نہ فقط معاویہ کو صحابی رسول کاتب وحی فاتح اسلا م اور خال المومنین کے القاب دیتے ہیں بلکہ ابو سفیان اور ھندہ جیسے سفاک اور دشمنانِ خدا اور رسول کو بھی رضی اللہ کہتے ہیں اور ان کو بھی اصحاب کے دائرے میں لاتے ہیں ۔
واقعا مولا علی کی مظلومیت کو سلام ہے جیسا کہ انجنئیر محمد علی مرزا بھی کہتے ہیں کہ مجھے امام حسین کی مظلومیت سے زیادہ مولا علی کی مظلومیت پر رونا آتا ہے کیونکہ جن لوگوں کے سامنے رسول اللہ نے مولا علی کی شان بیان فرمائی تھی اور مولا علی کے خلاف لڑنے والے قاسطین مارقین اور ناکثین کو بیان کیاتھا اور مختلف مقامات پر مولا علی کو اپنا بھائی اور وصی کہہ کر پکارا تھا انہیں پر مسجدوں اور منبروں سے سب و شتم شروع ہوجائے ۔ اس سے زیادہ مظلومیت کیا ہوسکتی ہے کہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسول اللہ کی حدیث کہ تجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا اور وہ تمھیں جہنم کی طرف دعوت دینگے اور تم ان کو جنت کی طرف بلاو گے کے بعد بھی مسلمان یہ کہے کہ یہ معاویہ کا اجتھادی عمل تھا ۔اور نہ فقط معاویہ کو صحابی جلیل کہے بلکہ اس کے کرتوتوں کے لئے تاویلیں بھی نکالنا شروع کریں اور اگر کوئی تاویل نہ ملے تو فورا کہے کہ وہ صحابہ تھے ہم ان کے اختلافات میں نہیں پڑنا چاھتے ۔
حجر بن عدی کا قتل :
حضرت حجر بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ جلیل القدر صحابی تھے جیسا کہ استیعاب میں مذکور ہیں کہ حجر بن عدی فضلاءِ صحابہ میں سے تھے۔ حجر امام علی علیہ السلام کے وفادار ساتھیوں میں سے تھے اور امام کی طرف سے صفین میں معاویہ کے خلاف لشکر کے کمانڈروں میں سے تھے ۔ حجر بن عدی کو مولا علی سے محبت کے جرم میں معاویہ نے قتل کیا تھا اھل سنت کی تفسیر ابن اثیر حجر کے بارے میں کہتی ہے
قتل حجر بن عدی وأصحابه.
وسبب ذلک أن معاویة استعمل المغیرة بن شعبة على الکوفة سنة إحدى وأربعین، فلما أمره علیها دعاه وقال له: أما بعد فإن لذی الحلم قبل الیوم ما تقرع العصا، وقد یجزی عنک الحکیم بغیر التعلیم، وقد أردت إیصاءک بأشیاء کثیرة أنا تارکها اعتماداً على بصرک، ولست تارکاً أیصاءک بخصلة: لا تترک شتم علی وذمه، والترحم على عثمان والاستغفار له، والعیب لأصحاب علی والإقصاء لهم، والإطراء بشیعة عثمان والإدناء لهم.
فأقام المغیرة عاملاً على الکوفة وهو أحسن شیء سیرة، غیر أنه لا یدع شتم علی والوقوع فیه والدعاء لعثمان والاستغفار له، فإذا سمع ذلک حجر بن عدی قال: بل إیاکم ذم الله ولعن! ثم قام وقال: أنا أشهد أن من تذمون أحق بالفضل، ومن تزکون أولى بالذم.
مر لنا أیها الإنسان بأرزاقنا فقد حبستها عنا ولیس ذلک لک، [7]
51 ہجری میں حجر بن عدی اور ان کے اصحاب کو قتل کیا گیا ۔ اور اس کا سبب یہ کہ معاویہ نے 41 ہجری میں مغیرہ بن شعبہ کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا اور اسے ہدایت کی کہ :- " میں تجھے بہت سی نصیحتیں کرنا چاہتا تھا لیکن تیری فہم وفراست پر اعتماد کرتے ہوئے میں زیادہ نصحیتیں نہیں کروں گا لیکن ایک چیز کی خصوصی طور پر تجھے نصیحت کرتا ہوں ۔کہ علی کی مذمت اور سبّ وشتم سے کبھی باز نہ آنا اور عثمان کے لئے دعا ئے خیر کو کبھی ترک نہ کرنا اور علی کے دوستوں پر ہمیشہ تشدد کرنا اور عثمان کے دوستوں کو اپنا مقرب بنانا اور انہیں عطیات سے نوازنا "
مغیرہ نے معاویہ کے حکم پر پورا عمل کیا وہ ہمیشہ حضرت علی علیہ السلام پر سب و شتم کرتا تھا اور حضرت حجر بن عدی اسے برملا ٹوک کر کہتے تھے کہ لعنت اور مذمت کا حق دار تو اور تیرا امیر ہے اور جس کی تم مذمت کررہے ہو وہ فضل وشرف کا مالک ہے ۔
{مغیرہ نے حجر بن عدی اور اس کے دوستوں کے وظائف بند کردئیے }حضرت حجر کہا کرتے تھے کہ بندہ خدا ! تم نے ہمارے عطیات ناحق روک دئیے ہیں تمہیں ایسا کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ ہمارے عطیات بحال کرو ۔
مغیرہ کے مرنے کے بعد زیاد بن ابیہ کوفہ کا گورنر بنا وہی زیاد کہ جس کو معاویہ نے ابو سفیان کا بیٹا قرار دیا تھا اور زیاد بھی معاویہ اور مغیرہ کی سیرت پر جاکر مولا علی علیہ السلام کو سب و شتم کرتا تھا اور حضرت حجر بن عدی ہمیشہ حق کا دفاع کرتے تھے اور زیاد کو ڈانٹتے تھے اسی وجہ سے زیاد نے حضرت حجر بن عدی کو ساتھیوں سمیت گرفتار کیا اور زندان میں ڈالا اور بعد ازاں اپنے خاص معتمدین کے حوالے کرکے دمشق روانہ کیا ۔ زیاد نے حجر بن عدی کے جن ساتھیوں کو گرفتار کرکے حجر کے ساتھ دمشق روانہ کیا تھا ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں ۔
(1): - حجر بن عدی کندی (2):- ارقم بن عبداللہ کندی (3):- شریک بن شداد حضرمی
(4):- صیفی بن فسیل شیبانی (5):- قبیصہ بن صنیع عبسی (6):- کریم بن عفیف خثمی
(7):- عاصم بن عوف بجلی (8) :- ورقا بن سمی بجلی (9):- کدام بن حسان عنزی
(10):- عبدالرحمن بن حسان غزی (11):- محرر بن شہاب تمیمی (12:- عبداللہ بن حویہ سعدی ۔
بعد ازاں حجر کے دو اور ساتھیوں کو بھی گرفتار کرکے معاویہ کے پاس بھیجا گیا کہ جن کے نام عتبہ بن اخمس سعد بن بکر اور سعد بن نمران ہمدانی ہیں اور اسی طرح ان مظلوموں کی تعداد ۱۴ ہوگئی ۔
قیدیوں کو دمشق کے قریب "مرج عذرا " میں ٹھہرا یا گیا اور معاویہ کے حکم سے ان میں سے چھ افراد کو قتل کردیاگیا ۔ ان شہیدان راہ حق کے نام یہ ہیں –
(1) حجربن عدی رضی اللہ عنہ (2):- شریک بن شداد حضرمی (3):- صیفی بن فسیل شیبانی
(4):- قبیصہ بن ضبیعہ عبسی (5):- محرز بن شہاب السعدی (6):- کدام بن حیان الغزی
رضی اللہ عنھم اجمعین ۔
اس واقعہ کو فریقین کی کتابوں نے نقل کیا ہے اور کوئی فریق بھی اس واقعے کا انکار نہیں کرتا۔
حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت سے ہمیں ایک بات بالکل واضح ہوئی کہ معاویہ اور اس کے بد کردار ساتھیوں نے حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کو فقط اس لئے شھید کیا کیونکہ یہ امام علی علیہ السلام پر سب و شتم کرنے والوں کو ڈانٹتے تھے ۔
یقینا معاویہ کا یہ ایسا فعل تھا جس نے مولا علی کے دشمنوں کو بھی لرزایا جیسا کہ تاریخ کے کتابوں میں ذکر ہے کہ جب معاویہ ام المومنین عائشہ سے ملا تو عائشہ نے حجر بن عدی کی قتل کے بارے میں معاویہ کو ڈانٹا اور کہا کہ معاویہ تیرا حلم اس وقت کہاں تھا جب تو حجر کو قتل کر رہا تھا ۔ امام حسن بصری نے معاویہ کے چار بڑے گناہوں میں ایک حجر کے قتل کو بھی شامل کیا ہے۔
اھل سنت کاتب وحی اور خال المومنین کے چرچے کب تک کریں گے ، کب تک تاریخ کے حقائق سے چھپاتے رہینگے ۔ یقینا وھابی حجر کے قتل کو بھی معاویہ کی اجتھادی غلطی کہینگے اور معاویہ کی حکومت کو اپنا رول ماڈل قرار دینگے ۔ جیسا کہ زھران علوش جو کہ شام کے ایک دہشت گرد گروہ جیش الاسلام کا سربراہ تھا کہا کرتا تھا کہ ہم بنی امیہ کی حکومت پر فخر کرتے ہیں کہ جس نے رافضیوں کے گردنوں کو کاٹا ہے ۔
یزید کو اپنا جانشین مقرر کرنا:
معاویہ کے کرتوتوں میں سے ایک کرتوت یہ بھی ہے کہ معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو جو کہ شرابی زانی اورفاسق تھا اپنا جانشین مقرر کیا نہ فقط جانشینی کا اعلان کیا بلکہ اپنے زمانے میں ہی یزید کے لئے لوگوں سے بیعت بھی لی البتہ یہ بیعت لینے کے لئے معاویہ نے جو حربے اپنائے ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں۔
استیعاب میں مذکور ہے کہ معاویہ نے امام حسن علیہ السلام کے زمانے میں یزید کی بیعت کی طرف اشارہ کیا تھا لیکن اعلانیہ طور پر کسی سے کوئی بات نہیں کی تھی لیکن جب امام حسن علیہ السلام فوت ہوئے { شہید ہوئے } تو معاویہ نے عملی قدم اٹھایا اور یزید کے لئے بیعت لینے کی کوششیں شروع کی ۔
الامامہ و السیاسہ میں ذکر ہے کہ جب معاویہ کے حکم سے مختلف گروہ اور قبائل دمشق میں داخل ہوئے اور ان میں سے احنف بن قیس بھی تھا تو معاویہ نے ضحاک بن قیس فہری کو بلایا اور کہا کہ
اذا جلستُ على المنبر وفرغتُ من بعض موعظتی وکلامی فاستاذنّی للقیام ، فاذا اذنتُ لک فاحمدالله تعالى واذکر یزید، وقل فیه الّذی یحقّ له علیک من حسن الثناء علیه ، ثمّ ادعنی الى تولیته من بعدی ، فانّی قد رایت واجمعت على تولیته
جب میں منبر پر بیٹھوں اور اپنی گفتگو کو پورا کروں تو تم مجھ سے بات کرنے کی اجازت مانگو اور جب میں اجازت دو تو اللہ تعالی کی حمد کرو اور یزید کا تذکرہ کرو اور اس کی اچھی خوبیاں بیان کرو کیونکہ وہ تم پر یہی حق رکھتے ہیں پھر مجھ سے درخواست کرو کہ میں اس کو اپنا خلیفہ مقرر کروں کیونکہ میں نے اس کو اپنا خلیفہ بنانے کا سوچا ہے
اس کے بعد عبدالرحمن بن عثمان ثقفى ،عبدالله بن مسعده فزارى ، ثور بن معن سلمى اورعبدالله بن عصام اشعرى کو بلایا اور ان کو حکم دیا کہ ضحاک بن قیس کی گفتگو کے بعد تم لوگ کھڑے ہوجاو اور اس کی باتوں کی تصدیق کرو۔
اور معاویہ کے گفتگو کے بعد وہی ہوا جو معاویہ نے حکم دیا تھا اور اس کے بعد معاویہ نے ضحاک کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا تو اسی اثنا ء میں احنف بن قیس کھڑا ہوا اور کہا کہ اے امیرالمومنین تم ہم سب سے زیادہ یزید کو جانتے ہو اس کے رفتار اس کے کردار اس کے آمد و رفت اسکے دن رات کے بارے میں ہم سے زیادہ اگاہ تر ہو اگر تمھارے نزدیک یزید اللہ کی رضایت اور امت کی اصلاح کا سبب بنتا ہے تو اس امر میں لوگوں سے مشورہ مت کرو اور اگر اللہ کی رضایت اور لوگوں کی اصلاح کا سبب نہیں بنتا تو یزید کو دنیا کا مالک مت بناو چونکہ تم آخرت کی سفر کرنے جا رہے ہو اور آخرت میں فقط نیک اعمال کام آئینگے ، یزید کو حسن اور حسین پر فوقیت مت دو ۔ جان لو کہ حسن اور حسین کیسی شخصیتوں کے مالک ہیں اور کیسا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ ہم تو فقط یہی کہیںگے کہ سمعنا و اطعنا غفرانک ربنا و الیک المصیر۔
مورخین نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ معاویہ نے مغیرہ بن شعبہ کے مشورے یزید کی جانشینی کے بارے میں تمام گورنروں کو خطوط بھیجے تاکہ لوگوں سے یزید کے لئے بیعت لے لی جائے تمام گورنروں نے اپنا کام بخوبی انجام دیا اور اھل مدینہ میں سے بعض نے بیعت نہیں کی تو معاویہ خود مدینہ جاکر اکابر سے ملا مگر کسی نے بھی نہیں مانا تو معاویہ نے انہی اکابر کو مکہ میں زبردستی مجبور کرکے عوام کے سامنے لاکر سب کو یہ دکھانے کی کوشش کی کہ تمام اکابر یزید کی نامزدگی سے خوش ہیں ۔
محترم قارئین ۔۔ آپ نے ملاحظہ کیا کہ خال المومنین نے کیسی چال چلی، یزید کو جانشین بنانے کے لئے کیسی چالاکیوں سے کام لیا ، خود ہی اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ میرے گفتگو کے بعد یزید کی جانشینی کا تذکرہ کرو۔
یزید کی بیعت کا تذکرہ کرتے ہوئے صواعق المحرکہ میں جناب ابن حجر الھیتمی نے لکھا ہے کہ
لما بایع معاویة رضی الله عنه لابنه یزید قال مروان سنة أبی بکر وعمر رضی الله تعالى عنهما فقال عبد الرحمن بن أبی بکر بل سنة هرقل وقیصر فقال له مروان أنت الذی أنزل الله فیک والذی قال لوالدیه أف لکما الأحقاف 17 فبلغ ذلک عائشة رضی الله عنها فقالت کذب والله ما هو به ولکن رسول الله لعن أبا مروان ومروانه فی صلبه[8]
میں اھل سنت سے ایک سوال پوچھتاہوں کہ اگر آپ کی نظر میں امام حسین یزید سے افضل ہیں تو خال المومنین نے یزید کو اپنا خلیفہ کیوں بنایا حالانکہ تمھاری تاریخ کے مطابق امام حسن علیہ السلام کے ساتھ صلح میں معاویہ نے یہ شرط مان لی تھی کہ وہ اپنے بعد کسی کو خلیفہ نہیں بنائے گا ؟
کیا یزید کا انتخاب غلط قدم تھا یا یہ بھی ایک اجتھادی غلطی ہے؟
جلال الدین سیوطی نے یزید کے بارے میں حسن بصری کا قول نقل کیا ہے کہ
کہ دو شخصوں نے لوگوں کا کام بگاڑا ہے ۔ ایک وہ جس نے جنگ صفین میں معاویہ کو مشورہ دیا کہ قرآن نیزوں پر بلند کئے جائے اور اسی مکر سے صلح ہوگئی
اور دوسرا وہ جو معاویہ کی طرف سے کوفہ کا عامل تھا تو معاویہ نے اسے خط لکھا کہ میرا خط پڑھو اسی وقت سے اپنے آپ کو معزول سمجھو ۔ جب اس نے حکومت سے دستبردار ہونے میں دیر کی اور جب معاویہ کے پاس پہنچا تو معاویہ نے اس سے پوچھا کہ تم نے اتنی دیر کیوں کی ۔ تو اس نے کہا کہ میں ایک خاص کام کی تیاری کر رہا تھا معاویہ نے پوچھا کہ وہ کیا؟ تو اس نے کہا کہ آپ کے بعد آپ کے بیٹے یزید کے لئے بیعت لینے کی تیاری کر رہا تھا تو معاویہ نے کہا کہ کیا تم نے اس کام کو انجام دیا ؟ اس نے کہا ہاں۔ معاویہ نے کہا کہ جاو تم اپنے کام پر بحال ہو ۔ جب وہاں سے رخصت ہوکر آیا تو لوگوں نے پوچھا کہ کیسے گزری ؟ اس نے جواب دیا کہ میں نے معاویہ کے پاوں ایسے گمراھی کے رکاب میں رکھ دئیے ہیں کہ قیامت تک اس میں رہیں گے ۔
حسن بصری کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ باپ کے بیٹا سلطنت کا حقدار ہونے لگا ورنہ مشورے سے اس کام کو انجام دینا قیامت تک لوگوں کے درمیان قائم رہتا۔ [9]
حسن بصری کے نزدیک یہ وہ فعل ہے کہ جس کی وجہ سے لوگوں کا کام بگڑا ہے ۔
کیا یہ خود ایک بڑی غلطی اور گناہ کبیرہ نہیں کہ یزید جیسے لا پرواہ انسان کو مسلمانوں پر مسلط کیا جائے ۔ خود تو حکومت حاصل کرنے کےلئے نہ بچوں کو بخشا اور نہ ہی بوڑھوں اور جوانوں کو ۔ زیاد اور بسر بن ابی ارطاۃ جیسے ظالم اور سفاک انسانوں کو مسلمانوں پر گورنرز اور سپہ سلار بنا کر اسلام کی تاریخ کو سیاہ کارناموں سے پر کیا ۔ مختلف قسم کے دھوکوں اور فراڈز کئیے تاکہ علی بن ابی طالب کو حکومت سے برطرف کرے ۔ اور خود ساری اسلامی ممالک کی حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ ان تمام گناہوں پر بھی جی نہیں بھرا تو یزید جیسے فاسق کو حاکم بنایا ۔ حقیقت تو یہی ہے کہ معاویہ ایک ظالم انسان تھا اور اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ اور فتح کے بعد کا معاویہ وہی معاویہ ہے جو فتح مکہ سے پہلے تھا ۔
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اھل سنت نے نہ فقط ابو سفیان اور معاویہ کو جلیل القدر صحابی کا لقب دیا بلکہ یزید کو بھی رحمۃ اللہ سے نوازا اور بعضوں نے معاویہ کے اس فیصلے { یزید کی جانشینی } کو درست قرار دیا کہ معاویہ کا یہ فیصلہ بالکل درست تھا اور یہ معاویہ نے امت کی بھلائی کے لئے یزید کو اپنا خلیفہ منتخب کیا، جیسا کہ محمد الخضری نے اپنی کتاب محاضرات تاریخ الامم الاسلامیہ میں لکھا ہے کہ معاویہ کا اپنا جانشین مقرر کرنے کا ارادہ درست اور صحیح ارادہ تھا ۔ وعلی الاسلام السلام
دار الافتاء دار العلوم دیوبند ہندوستان کی طرف سے ایک فتویٰ ان کی انگلش ویب سائٹ پر شائع ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یزید کو رحمۃ اللہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ فتویٰ اس طرح ہے۔
Question : 6134
Can we call yazid as raziallah hoo tala anhu?
Answer : 6134
(Fatwa: 997/1082=D-1429
It is traditionally proved from the salaf (the past Ulama) that "Raziallau Anhu" is written and spoken for the Sahaba, and "Rahmatullah Alaih" is written and spoken for non-Sahabah like Tabeen etc. Therefore, there seems no wrong to say "Rahmatullah Alaih" for Yazeed.
Allah knows Best!
Darul Ifta,
لیکن اسی یزید کے بارے میں عبداللہ بن عمر اور عبد اللہ بن زبیر کی رائے بھی ملاحظہ کریں
وقال عبد الله بن عمر: نبایع من یلعب بالقرود والکلاب، ویشرب الخمر، ویظهر الفسوق!
وقال عبد الله بن الزبیر: لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق، وقد أفسد علینا دیننا.[10]
عبد اللہ بن عمر نے کہا کہ ہم کیسے ایسے شخص کی بیعت کریں کہ جو بندروں اور کتوں سے کھیلتا ہے اور شراب نوشی کرتا ہے اور جس کا فاسق ہونا ظاھر ہے ۔
عبد اللہ بن زبیر نے کہا کہ خالق کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت واجب نہیں اور یزید نے ہمارے دین کو فاسد بنانے کی کوشش کی ۔
[1] تاریخ الخلفاء ص ۱۶۰ دار ابن حزم طبعہ اولی بیروت لبنان
[2] البیهقی باب الأنساب والألقاب والأعقاب : جلد ۱ ص ۴۲
[3] الکتبی محمد بن شاکر فوات الوفیات جلد ۲ ص ۳۲ المحقق : إحسان عباس الناشر : دار صادر - بیروت
[4] تاریخ الیعقوبی جلد ۱ ص ۱۹۶ باب ایام معاویة بن ابی سفیان
[5] الکتاب : المنهاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج جلد ۱۵ ص ۱۷۵ الناشر : دار إحیاء التراث العربی بیروت الطبعة الطبعة الثانیة ، 1392
[6] العقد الفرید۔جلد ۲ باب اخبار معاویہ ص ۱۲۷
[7] ابن اثیر تاریخ کامل جلد ۲ ص ا۳۰
[8] إبن حجر الهیتمی الصواعق المحرقة جلد ۲ ص ۵۲۷ الناشر : مؤسسة الرسالة - بیروتالطبعة الأولى ، 1997 تحقیق : عبدالرحمن بن عبدالله الترکی وکامل محمد الخراط
[9] تاریخ خلفاء {اردو} مترجم محمد مبشر چشتی سیالوی ص ۲۹۶
[10] تاریخ یعقوبی جلد ۱ ص ۲۰۰