مقتولین بدست معاویہ
مقتولین بدست معاویہ
من قتل نفساً بغیر نفس أو فساد فی الأرض فکأنّما قتل النّاس جمیعاً
ومن أحیاها فکأنّما أحیا النّاس جمیعاً [1]
جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے کے بغیر یا زمین میں فساد {روکنے} کے علاوہ قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا ، اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخشی،
وَمَنْ یَقْتُلْ مُؤْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِیهَا وَغَضِبَ اللَّهُ
عَلَیْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَاباً عَظِیماً [2]
اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اس نے اس کے لئے بڑا عذاب تیار کیا ہے
یہ فصل ان کے بارے میں ہے کہ جن کو ابو سفیان کے بیٹے نے قتل کئیے ہیں ۔
حسن بن علی علیهما السلام.
معاویہ کے سیاہ کارناموں میں سے ایک کارنامہ یہ ہے کہ اس نے جنت کے جوانوں کے سردار امام حسن علیہ السلام کو شہید کیا ہے اور اس پر اھل سنت کی کتابیں گواہ ہیں ۔
جیسا کہ الاستیعاب میں لکھا ہے کہ
حسن بن علی کو ان کی بیوی جعدہ بنت اشعث بن قیس الکندی نے زہر دیا تھا اور ایک گروہ کا کہنا ہے کہ کہ یہ معاویہ کے اشارے سے ہوا ہے ۔[3]
اھل سنت کی تاریخ میں یہ بات وضاحت سے بیان ہوئی ہے کہ جعدہ کو معاویہ نے لالچ دی تھی کہ اگر وہ امام حسن کو مسموم کرے تو وہ اس کی نکاح یزید سے کرائے گا
طبرانی نے ابوبکر بن حفص سے روایت کی ہے کہ سعد بن ابی وقاص اور حسن بن علی رضی اللہ عنہ معاویہ کے زمانے میں فوت ہوئے ہیں اور ان کو زہر دی گئی تھی۔
وفیات الاعیان میں لکھا ہے کہ
ولما بلغه موته سمع تکبیراً من الحضر، فکبر أهل الشام لذلک التکبیر فقالت فاختة زوجة معاویة: أقر الله عینک یا أمیر المؤمنین، ما الذی کبرت له قال: مات الحسن، قالت: أعلى موت ابن فاطمة تکبر قال: والله ما کبرت شماتة بموته ولکن استراح قلبی. وکان ابن عباس بالشام، فدخل علیه فقال: یا ابن عباس، هل تدری ما حدث فی أهل بیتک قال: لا أدری ما حدث إلا أنی أراک مستبشراً وقد بلغنی تکبیرک وسجودک، قال: مات الحسن، قال: إنا لله، یرحم الله أبا محمد، ثلاثاً؛ ثم قال: والله یا معاویة لا تسد حفرته حفرتک ولا یزید نقص عمره فی یومک، وإن کنا أصبنا بالحسن لقد أصبنا بإمام المتقین وخاتم النبیین،.[4]
جب معاویہ کو امام حسن علیہ السلام کی وفات کی خبر پہنچی تو کاخ خضرا سے تکبیر کی آواز بلند ہوئی {یعنی معاویہ نے تکبیر کہا} تو اس تکبیر کی وجہ سے اھل شام نے تکبیر کی آواز بلند کی تو معاویہ کی بیوی فاختہ نے کہا کہ اے امیر المومنین اللہ آپ کی آنکھوں کو قرار بخشے کس وجہ سے تکبیر کی صدا بلند کی ؟ تو معاویہ نے جواب دیا کہ حسن بن علی فوت ہوگئے ہیں ۔ فاختہ نے کہا کہ کیا تم فاطمہ کے فرزند کی موت پر تکبیر کہتے ہو ؟ تو معاویہ نے جواب دیا کہ میں نے حسن بن علی کی موت کی خوشی میں تکبیر بلند نہیں کی بلکہ میرے دل کو آج سکون ملا ،
اور ابن عباس معاویہ کے پاس آیا تو معاویہ نے کہا کہ اے ابن عباس کیا تجھے پتہ ہے کہ تیرے اھل بیت کے ہاں کیا ہوا ہے ؟
ابن عباس نے جواب دیا کہ نہیں ۔ مجھے پتہ نہیں کہ کیا ہوا ہے لیکن تجھے خوش دیکھ رہا ہوں اور تمھاری تکبیر کی صدا مجھ تک پہنچ چکی ہے ۔ تو معاویہ نے کہا کہ حسن بن علی فوت ہو چکے ہیں ۔ ابن عباس نے کہا کہ اللہ ابو محمد حسن بن علی پر رحم کرے اور تین دفعہ اس جملے کو تکرار کیا اور پھر کہا کہ اے معاویہ اللہ کی قسم حسن بن علی کی قبر تیری قبر کو پر نہیں کرتا اور نہ ہی اس کی عمر تمھاری عمر کو زیادہ کرتی ہے اور اگر امام حسن علیہ السلام کی مصیبت ہم پر وارد ہوئی ہے تو اس سے پہلے امام متقین و خاتم نبیین کی مصیبت بھی ہم پر وارد ہوئی ہے .
عبد الرحمن بن خالد بن الولید:
عبدالرحمن جیسا کہ نام سے واضح ہے کہ یہ خالد بن ولید کا بیٹا تھا اور معاویہ کے انتہائی نزدیکی ساتھیوں میں سے تھا اور صفین میں بھی معاویہ کی لشکر میں موجود تھا ۔کہ جس کے بارے میں الاستیعاب میں لکھا ہے کہ
معاویہ نے ایک دن اھل شام کو جمع کیا اور کہا کہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور میری موت قریب ہوچکی ہے لہذا میں چاھتا ہوں کہ تم لوگوں کے لئے ایک شخص کا تعین کروں تاکہ وہ میرے بعد حکومت کو سنبھالے ۔ اھل شام نے جواب دیا کہ اے امیر ہم سب عبد الرحمن بن خالد پر راضی ہیں، یہ بات معاویہ کو اچھی نہیں لگی لیکن اس پر ناراض ہونے کا اظہار اس نے نہیں کیا
پھر ایک دن عبدالرحمن بن خالد مریض ہوا اور معاویہ نے طبیب کو حکم دیا کہ اسے کچھ پلائے تاکہ وہ مرجائے ۔ اور معاویہ کے حکم سے طبیب نے عبد الرحمن کی جان لے لی [5]
مالک الأشتر نخعی:
مالک اشتر کہ جس کا نام مالک بن الحارث بن عبد یغوث بن مسلمة بن ربیعة بن الحارث بن جذیمة بن سعد بن مالک بن النخع بن مذحج تھا امام علی کے اصحاب میں سے تھے اور وفادار ساتھی تھے ان کی وفاداری پر جمل اور صفین بھی گواہ ہیں یہ جب امام علی بن ابی طالب علیہ السلام کی طرف سے مصر کا والی بنا تو مصر پہنچتے ہی معاویہ نے اپنے ایک کارندے کے ذریعے سے مالک اشتر نخعی کو زہر دلوایا اور ان کی شہادت پر امام علی علیہ السلام نے تاسف کیا اور ان کی شجاعت بیان کی۔[6]
تاریخ طبری میں امام علی علیہ السلام کا اھل مصر کے نام خط مذکور ہے کہ جس میں امام علیہ السلام نے مالک اشتر کی توصیف کی ہے
امام علی علیہ السلام نے لکھا ہے کہ
بسم الله الرحمن الرحیم من عبد الله علی أمیر المؤمنین إلى أمة المسلمین
سلام علیکم فإنی أحمد الله إلیکم الذی لا إله إلا هو أما بعد فقد بعثت إلیکم عبدا من عبید الله لا ینام أیام الخوف ولا ینکل عن الأعادی حذار الدوائر أشد على الکفار من حریق النار وهو مالک بن الحارث أخو مذحج فاسمعوا له واطیعوا فإنه سیف من سیوف الله لا نأبى الضریبة ولا کلیل الحد فإن أمرکم أن تقدموا فأقدموا وإن أمرکم أن تنفروا فانفروا فإنه لا یقدم ولا یحجم إلا بأمری وقد آثرتکم به على نفسی لنصحه لکم وشدة شکیمته على عدوکم عصمکم الله بالهدى وثبتکم على الیقین والسلام[7]
میں تمھارے سامنے اس اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، تمھارے پاس اللہ کے بندوں میں ایک ایسا بندہ بھیج رہا ہوں جو خوف کے زمانے میں راتوں کو قطعا نہیں سوتا اور جو دشمنوں سے قطعا نہیں گھبراتا جو کفار کے لئے آگ کی جلن سے بھی زیادہ سخت ہے اور مذحج کا بھائی مالک بن حارث ہے اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو کیونکہ وہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے نہ تو اس کی مار کمزور ہے اور نہ اس کی دھار کند ہے اگر وہ تمھیں آگے بڑھنے کا حکم دے تو آگے بڑھو اور اگر پیچھے ہٹنے کا حکم دے تو پیچھے ہٹو کیونکہ وہ میرے حکم کے بغیر نہ آگے بڑھتا ہے اور نہ ہی پیچھے ہٹتا ہے میں نے تمھاری بھلائی کے لئے اس کو تمھارے پاس بھیج کر اپنے اوپر ترجیح دی ہے اور تمھارے دشمنوں کے مقابلے میں ایک سخت جان کو روانہ کیا ہے اللہ تعالی تمھیں ھدایت کے ذریعے سے تمھیں برائی سے محفوظ رکھے اور تمھیں ایمان و یقین پر ثابت قدم رکھے۔
اور مالک اشتر کی شہادت پر معاویہ کے الفاظ تاریخ میں ثبت ہیں
کان لعلیّ بن ابی طالب یدان یمینان، فقُطعت احداهما یوم صفّین ـ یعنی عمّار بن یاسرـ وقُطعت الاُخرى الیوم، وهو مالک الاشتر
کہ علی ابن ابی طالب کے دو دائیں ہاتھ تھے جن میں ایک صفین میں کٹ گیا یعنی عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور دوسرا ہاتھ آج کٹ گیا اور وہ مالک اشتر ہیں۔ [8]
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ:
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ رسول اللہ کے وفادار صحابی تھے اور اصحاب اولین میں سے تھے جن کے بارے میں اھل سنت کی تاریخی اور حدیثی کتب میں تفصیل سے ذکر ملتا ہے کہ جن کے بارے میں رسول اللہ کی حدیث ہے کہ جس کو مسلم نیشاپوری نے اپنے صحیح میں ذکر کی ہے
ویح عمار تقتله الفئة الباغیة عمار یدعوهم إلى الله ویدعونه إلى النار.[9]
کہ اے عمار تجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا اور تم اس کو جنت کی طرف بلاو گے اور وہ تمھیں جھنم کی طرف بلائے گا
اور فریقین کا اتفاق ہے کہ عمار کو صفین میں معاویہ کے گروہ نے قتل کیا تھا ۔
اور بعض اھل سنت مورخین کا یہ بھی کہنا ہے کہ تاریخ اسلام میں سب سے پہلا سر اگر کسی کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ عمار بن یاسر کا سر مبارک تھا جو کہ معاویہ کے سامنے پیش کیا گیا ۔
محمد بن أبی بکر:
محمد بن ابی بکر کو مصر میں معاویہ کے حکم سے قتل کیا گیا اور ان کی لاش کو گدھے کی کھال میں ڈال کر اسے آگ لگوادی ۔[10]
ابن ابی شیبہ نے المصنف میں لکھا ہے کہ
وسار عمرو حتى وصل إِلى مصر وقاتله أصحاب محمد بن أبی بکر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقبض علیه وأتوا به إِلى معاویة بن خدیح فقتله وألقاه فی جیفة حمار وأحرقه بالنار [11]
عمروبن عاص معاویہ کی طرف سے روانہ ہوا اور مصر پہنچ کر محمد بن ابی بکر کے ساتھیوں کو قتل کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور عمروعاص کے ساتھیوں نے محمد بن ابی بکر کو گرفتار کرکے معاویہ بن خدیج {عمرو عاص نے اس کو محمد بن ابی بکر کو گرفتار کرنے کے لئے بھیجا تھا} کے پاس لے آئے ۔ تو معاویہ بن خدیج نے محمد بن ابی بکر کو قتل کیا اور ان کی لاش کو گدھے کی کھال میں ڈال دی اور اسے آگ لگا دی۔
اس واقعے کو پڑھنے سے انسان کو معاویہ کے کردار کے بارے میں تعجب نہیں کرنا چاھئیے کیونکہ معاویہ ابن آکلۃ الاکباد ہے یعنی ھندہ جگر خور کا بیٹا ہے ھندہ نے بھی رسول اللہ کے چچا سید الشہدا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے جگر کو چھبایا تھا ۔بلکہ تعجب تو ان لوگوں پر کرنا چاھئیے کہ ان تمام تاریخی حقائق کے باوجود معاویہ کو رضی اللہ کہتے ہیں ۔
یہ واقعہ اھل سنت کے ہاں مسلم ہے اور اس میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ۔
حجر بن عدی الکندی.
حجر بن عدی الکندی امام علی علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے اور ان کو زیاد بن ابیہ نے گرفتار کرکے معاویہ کے پاس شام بھیجا اور معاویہ نے حجر سمیت ان کے تمام ساتھیوں کو قتل کیا۔[12]
تاریخ یعقوبی میں ذکر ہے کہ
وروی أن معاویة کان یقول: ما أعد نفسی حلیما بعد قتلی حجرا وأصحاب حجر.
کہ حجر بن عدی کے قتل کے بعد معاویہ ہمیشہ یہی کہتا تھا کہ حجر اور اس کے ساتھیوں کو قتل کرنے کے بعد میں اپنے آپ کو حلیم و بردبار نہیں سمجھتا۔ [13]
عمروبن حمق خزاعی :
عمرو بن حمق خزاعی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے اصحاب میں سے تھے اور امام علی علیہ السلام کے وفادار ساتھیوں میں سے تھے جن کے بارے میں امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں
کہ اے عمرو کاش تجھ جیسے سو آدمی میرے لشکر میں ہوتے ،
عمرو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کو ایک دن دودھ پلایا تو رسول اللہ نے فرمایا اللھم امتعہ بشبابہ
مورخین کہتے ہیں کہ رسول اللہ کی وجہ سے عمرو کی پوری زندگی کبھی سر اور داڑھی کے بال سفید نہیں ہوئے تھے حالانکہ شہادت کے وقت عمرو کی عمر ۸۰ سال سے اوپر ہوگئی۔
عمروبن حمق رضی اللہ عنہ کے بارے ابن عبد البر لکھتے ہیں کہ
عمرو بن الحمق هاجر إلى النبی صلى الله علیه و سلم بعد الحدیبیة ۔ صحب النبی صلى الله علیه و سلم وحفظ عنه أحادیث وسکن الشام ثم انتقل إلى الکوفة فسکنها ۔۔۔۔۔۔۔۔ثم صار من شیعة علی رضی الله عنه وشهد معه مشاهده کلها الجمل والنهروان وصفین وأعان حجر بن عدی ثم هرب فی زمن زیاد إلى الموصل ودخل غارا فنهشته حیة فقتلته فبعث إلى الغار فی طلبه فوجد میتا فأخذ عامل الموصل رأسه وحمله إلى زیاد فبعث به زیاد إلى معاویة وکان أول رأس حمل فی الإسلام من بلد إلى بلد وقیل : بل قتله عبد الرحمن بن عثمان الثقفی عم عبد الرحمن بن أم الحکم سنة خمسین .[14]
عمرو بن حمق نے حدیبیہ کے بعد رسول اللہ کی طرف ھجرت کی ، صحابی رسول تھے اور رسول اللہ سے احادیث حفظ کئے ہیں اور شام کے ساکن تھے پھر کوفہ منتقل ہوئے ۔۔۔۔۔ پھر مولا علی علیہ السلام کے شیعہ بنے جمل صفین اور نہروان میں ان کے ساتھ تھے اور انہوں نے حجر بن عدی کی مدد کی زیاد کے زمانے میں موصل کی طرف فرار کیا اور ایک غار میں داخل ہوئے غار میں سانپ کے کاٹنے کی وجہ سے فوت ہوئے زیاد کے سپاھیوں نے مردہ پایا تو موصل کے گورنر نے عمرو بن حمق کا سر کاٹ کر زیاد کے پاس بھیج دیا اور زیاد نے معاویہ کے پاس بھیج دیا ۔ اور یہ اسلام میں پیلا سر تھا جو شہر بہ شہر پھیرایا گیا ۔ جب کہ بعضوں نے کہا ہے کہ عمروبن حمق کو موصل کے گورنر عبدالرحمان بن عثمان ثقفی نے قتل کیا تھا ۔
علامہ زرکلی دمشقی نے لکھا ہے کہ عمروبن حمق چونکہ زیاد سے فرار اختیار کرچکا تھا اسی وجہ سے معاویہ نے اس کی بیوی کو زندان میں ڈالا تھا [15]۔ مولانا ابو الاعلی مودودی ابن عبد البر کی کتاب سے نقل کرتے ہیں کہ یہ پہلا موقع تھا کہ جب مسلمانوں کے آپس کی جنگوں میں گرفتار ہونے والی عورتوں کو لونڈیاں بنائی گئی۔
مولانا ابو الاعلی مودودی لکھتے ہیں کہ تاریخ اسلام میں سب سے پہلا سر عمار بن یاسر کا تھا اور دوسرا سر عمروبن حمق کا تھا اور یہ دونوں کے دونوں سر معاویہ کے سامنے پیش کئے گئے[16]
استیعاب میں جو روایت ہے اس میں تو یہ لکھا ہے کہ عمرو بن حمق رضی اللہ عنہ کو سانپ نے کاٹا تھا اور وہ سانپ کے کاٹنے کی وجہ سے فوت ہوگئے ہیں لیکن انساب الاشراف میں مولا امام حسین علیہ السلام کا معاویہ کے نام خط ذکر ہے کہ جس میں مولا امام حسین علیہ السلام نے معاویہ کو کہا ہے کہ تو ہی قاتل حجر بن عدی ہے اور تو ہی قاتل عمروبن حمق رضی اللہ عنھما ہے
ألست قاتل حجر بن عدی وأصحابه المصلین العابدین أولست قاتل عمرو بن الحمق صاحب رسول الله صلى الله علیه وسلم[17]
کیا تم وہی نہیں ہو جس نے حجر بن عدی اور اس کے ساتھیوں کو قتل کیا تھا کہ جو نمازگزار اور عبادت گزار تھے کیا تم وہی نہیں ہو کہ جس نے عمروبن حمق صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کو قتل کیا ہے ۔
عبد الرحمن بن عدیس.
عبد الرحمن بن عدیس البلوی کے بارے میں ذھبی اپنی کتاب تاریخ اسلام میں لکھتے ہیں کہ
عبد الرحمن بن عدیس أبو محمد البلوی. له صحبة. وبایع تحت الشجرة. وله روایة. سکن مصر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثم ظفر به معاویة فسجنه بفلسطین فی جماعة، ثم هرب من السجن، فأدرکوه بجبل لبنان فقتل. ولما أدرکوه قال لمن قتله: ویحک اتق الله فی دمی، فإنی من أصحاب الشجرة، فقال: الشجر بالجبل کثیر، وقتله.: [18]
عبدالرحمن بن عدیس ابومحمد البلوی صحابی رسول ہے اور اصحاب الشجرہ میں ہے { ان لوگوں میں سے کہ بیعت رضوان کے وقت درخت کے نیچے رسول اللہ کی بیعت کی تھی } اور انہوں نے روایت بھی کی ہے ۔ مصر میں رہتا تھا ۔۔۔ جب معاویہ نے حکومت حاصل کی تو اس نے عبد الرحمن کو پکڑ کر قید میں ڈالا ، عبد الرحمن نے قید سے فرار کیا تو معاویہ کے سپاھیوں نے اس کو لبنان کے پہاڑ میں پکڑ کر قتل کیا ۔
قتل کرتے وقت اس نے اپنے قاتل سے کہا کہ وائے ہو تم پر ، میرا خون بہانے میں اللہ سے ڈرو ، میں اصحاب شجرہ میں سے ہوں تو قاتل نے کہا کہ اس پہاڑ میں درخت زیادہ ہیں ۔ اور اس نے عبدالرحمن کو قتل کیا ۔
واقعہ یمن:
صفین میں قتل ہونے والے ہزاروں بے گناہ لوگوں کے خون کا ذمہ دار معاویہ اور اس کے ساتھی ہیں ، اگر اھل سنت اس واقعے کو معاویہ کا اجتھاد کہے اگر چہ معاویہ کا اجتھاد سے کوئی تعلق نہیں تھا تو اس واقعے کے علاوہ معاویہ کے باقی کارنامے بھی اتنے سیاہ ہیں کہ تاریخ ان واقعات کو نقل کرتے وقت شرماتی ہے جیسا کہ یمن پر معاویہ کے حکم سے معاویہ کی طرف سے جلاد بسر بن ابی ارطاۃ نے جو حملہ کیا اور معصوم بچوں کو قتل کیا نہ بوڑھوں پر رحم کیا اور نہ ہی بچوں پر جیسا کہ امیر المومنین حضرت امام علی علیہ السلام کی طرف سے یمن کے گورنر عبید اللہ بن عبا س کے دو کم سن بچوں کو بھی شہید کیا، کیا اھل سنت بچوں کو قتل کرنا بھی اجتھاد کہیں گے یا کہیں گے کہ یہ کام بسر بن ابی ارطاۃ کا ہے اور اس کا معاویہ سے کوئی تعلق نہیں جیسا کہ امام حسین علیہ السلام کے بارے میں سلفی یہی کہتے ہیں کہ امام حسین کو شہید کرنے والا ابن زیاد ہے اور اس کا یزید سے کوئی تعلق نہیں ،
تعجب ہے ان لوگوں پر کہ جو اتنے سیا ہ کارنامے دیکھ کر بھی معاویہ کو خال المومنین کہتے ہیں کیسے بن سکتا ہے خال المومنین جو کہ خود کافر اور منافق تھا ۔ کیسے ہوسکتا ہے وہ امیر المومنین جو کہ خود مومنین کا قاتل تھا ۔
اگر کوئی مان بھی لے کہ اس کا مولا علی سےلڑ نا اس کا اجتھاد تھا لیکن کیا حسن بن علی علیہا السلام کو مسموم کرنا، حجر بن عدی کو شہید کرنا ،محمد بن ابی بکر کو شہید کرنا ، سعد بن ابی وقاص کو مسموم کرنا، عبید اللہ بن عباس کے دو کم سن بچوں کو تہہ تیغ کرنا اور مسلمانوں کے خون کی حرمت پامال کرنا بھی اجتھاد ہے؟
حقیقت تو یہ ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی اندھی تقلید ہو وہاں دلیلیں کام نہیں آتی وہاں کی ضمیریں کبھی بھی بیدار نہیں ہوسکتی ضمیریں تب بیدار ہوتی ہیں کہ جب انسان اندھی تقلید چھوڑ کر آنکھیں کھول دیں اور دلیل کی پیروی کریں
تاریخ نے لکھا ہے کہ معاویہ نے بسر بن ابی ارطاۃ کو تین ہزار سپاہیوں کے ساتھ یمن روانہ کیا اور اس کو حکم دیا کہ
سر حتی تمر بالمدینہ
مدینہ سے گزر کر جاو اور مدینہ والوں کو خوب ڈراو ۔ اور مدینہ والوں میں سے جو بھی تعارض کرے اس کے مال کو غصب کرو یہاں تک کہ اھل مدینہ یہ سمجھ لے کہ تم ان کے جان لینے کے در پے ہو اور ان کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے اور پھر مکہ چلے جاو اور مکہ میں کسی کو مت چھیڑو پھر صنعاء { یمن } کی طرف چل پڑو وہاں ہمارے کچھ ماننے والے ہیں اور ان کے خطوط ہمیں پہنچ گئے ہیں ۔
بسر نکل گیا ہر قبیلہ کے ساتھ اسی طرح پیش آیا جس طرح معاویہ نے حکم دیا تھا اور مدینہ پہنچ گیا تو ابو ایوب انصاری نے مدینہ چھوڑ دیا حالانکہ وہ مدینہ کا فرماندار تھا ۔
بسر مدینہ داخل ہوا اور منبر پر جاکر بولا کہ اے اھل مدینہ ایک بری مثال تمھاری لئے پیش کر رہا ہوں
قرْیَهً کَانَتْ ءَامِنَهً مُّطْمَـلـِنَّهً یَاْتِیهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن کُلِّ مَکَان فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللَّهِ فَاَذَ قَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَ الْخَوْفِ بِمَا کَانُواْ یَصْنَعُونَ
ایک آبادی کہ امن و اطمینان سے زندگی گزار رہے تھے اور ان کے رزق ہر طرف سے آر ہا تھا انہوں نے اللہ کی نعمتوں کی قدردانی نہیں کی تو خدا نے ان کو ان کی کردار کی وجہ سے خوف اور بھوک میں مبتلا کیا ۔
مختصر یہ کہ بسر نے مدینے کے منبر پر کہا کہ خدا نے یہ مثال تم لوگوں کے لئے دی ہے اور پھر بسر نے مدینے میں گھروں کو ویران کیا اور مکہ سے ہوتا ہوا یمن چلا گیا اور یمن میں امیرالمومنین علی علیہ السلام کی طرف سے عبید اللہ بن عباس گورنر تھا عبید اللہ بن عباس نے یمن چھوڑ دیا تھا اور اپنی جگہ پر عبداللہ بن عبد المدان کو مقرر کیا تھا بسر نے عبد اللہ بن عبد المدان اور اس کے بیٹے مالک بن عبداللہ کو قتل کیا ۔
عبید اللہ بن عباس نے اپنے دو بیٹے جویریہ بنت قارظ کنانی کہ ان کی ماں تھی چھوڑ دیا تھا اور ایک آدمی کہ جو کنانہ سے تھا اپنے عیال کی دیکھ بال کے لئے رکھا تھا ۔ بسر جویریہ کے پاس آیا اور اس سے عبید اللہ بن عباس کے دونوں بیٹوں کو طلب کیا ۔ تو کنانی آدمی نے تلوار نکال کر کہا کہ اللہ کی قسم میں ان دو بچوں کے دفاع میں قتل ہوجاوں گا تاکہ اللہ اور لوگوں کے ہاں میرے پاس کوئی عذر ہو ۔ یہ شخص دونوں بچوں کے دفاع میں قتل ہوا، تو بنی کنانہ کی عورتیں باہر نکل آئی اور کہا کہ اے بسر لڑتے تو مرد ہیں یہ تو بچے ہیں ان کا کیا گناہ ہے کہ تم ان کو قتل کرنے لگے ہو اللہ کی قسم زمانہ جاھلیت میں بھی بچوں کو نہیں مارا جاتا تھا
بسر نے کہا کہ اللہ کی قسم میں نے ارادہ کیا تھا کہ تم عورتوں کو بھی تہہ تیغ کردوں
بسر نے دونوں بچوں کو لے کر ان کے سر کاٹ دئیے۔
بسر بن ابی ارطاۃ معاویہ کے وفادار ساتھی تھا کہ بچوں پر بھی رحم نہیں کرتا تھا ۔ اب اھل سنت یا اس واقعے کو بھی اجتھاد کہیں گے اور یا تو اھل حدیث اور دیوبندیوں کا جیسا موقف اختیار کرینگے کہ یہ کام تو بسر کا تھا اور معاویہ اس پر راضی نہیں تھا ۔ کیونکہ اھل حدیث اور دیوبندی بھی یہی کہتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کو ابن زیاد نے شہید کیا ہے اور یزید کو اس واقعے کا پتہ بھی نہیں تھا۔
[1] المائدة 32.
[2] النساء:93.
[3] الاستیعاب جلد 1 صفحہ115
[4] وفیات الاعیان جلد ۲ ص ۶۸
[5] ابن عبدالبر – الاستیعاب جلد 2 ص 373
[6] إبن کثیر - البدایة والنهایة جلد : ۷ صفحہ 346
[7] تاریخ طبری جلد ۳ ص ۲۹۶ چاپ دار الکتب العربی بغداد طبعہ اولی
[8] تاریخ الطبری، ج 5 ص 96؛ الکامل فی التاریخ، ج 2، ص 410.
[9] صحیح مسلم -:حدیث 2916
[10] إبن أبی شیبه - المصنف - کتاب الأمراء 30116
[11] تاریخ ابی الفداء جلد ۱ ص ۲۷۶
[12] عبدالرزاق الصنعانی - المصنف - جلد : 5 - صفحة : 273, - إبن أبی شیبة الکوفی - المصنف - جلد: 3 و 7 - صفحة : 139 و 606
[13] تاریخ یعقوبی جلد ۱ ص ۲۰۱ بمطابق مکتبہ الشاملہ
[14] استیعاب جلد ۱ ص ۳۶۳
[15] الأعلام جلد ۱ ص ۲۶ الناشر : دار العلم للملایین الطبعة : الخامسة عشر - 2002
[16] خلافت و ملوکیت صفحہ ۱۷۷
[17] انساب الاشراف جلد ۲ ص ۱۱۹ باب جواب الحسین علیہ السلام
[18] کتاب: تاریخ الإسلام ووفیات المشاهیر والأعلام. جلد ۳ ص ۵۳۱ ۔ تألیف: شمس الدین محمد بن أحمد بن عثمان الذهبی. تحقیق: د. عمر عبد السلام تدمری دار النشر: دار الکتاب العربی. لبنان/ بیروت. الطبعة: الأولى.