سید ابوعماد حیدری

اہل سنت اور وھابیت کے شبھات کے جوابات، مذھب اہل بیت کی حقانیت ، کتب سے سکین پیجز

سید ابوعماد حیدری

اہل سنت اور وھابیت کے شبھات کے جوابات، مذھب اہل بیت کی حقانیت ، کتب سے سکین پیجز

آخرین نظرات

معاویہ معاصرین کی نظر میں

Monday, 23 March 2020، 04:47 AM

معاویہ معاصرین کی نظر میں

۱۔معاویہ،سید محمد بن عقیل العلوی الشافعی کی نظر میں:

                                                                                                                                    سید محمد بن عقیل یمن سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے معاویہ کی مذمت میں دو کتابیں لکھی ہیں

پہلی کتاب             النصائح الکافیة لمن یتولی معاویة

اور دوسری کتاب  تقویة الایمان بردّ تزکیة معاویة بن ابی سفیان

ان دو کتابوں میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ یمن کے شافعی سادات معاویہ کی مذمت اور اس پر ترضی { رضی اللہ عنہ} کے جائز نہ ہونے پر متفق ہیں بلکہ اس پر لعنت اور اس سے برائت واجب ہیں۔

اس بات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ معاویہ کے بارے میں جو موقف سید محمد بن عقیل العلوی الشافعی کا ہے بالکل یہی موقف علامہ رشید رضا کی بھی ہے سوائے اس کے کہ ابن عقیل العلوی معاویہ پر لعنت کو نہ فقط جائز بلکہ واجب کہتا تھا جبکہ علامہ رشید رضا لعنت کا قائل نہیں ۔

محمد بن عقیل علوی نے النصائح الکافیہ میں ایک روایت نقل کی ہے کہ ابو حنیفہ نے لوگوں سے پوچھا  کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اھل شام ہم کو کیوں پسند نہیں کرتے ؟

تو جواب ملا کہ ہمیں اس کے بارے میں علم نہیں ۔

تو ابوحنیفہ نے کہا کہ اھل شام والے ہم سے اس لئے نفرت کرتے ہیں کیونکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم حضرت علی کے زمانے میں ہوتے تو ہم مولا علی کی مدد کرنے کے لئے میدان میں اتر جاتے اور علی کی خاطر معاویہ کے خلاف لڑتے ۔[1]

موصوف نے اسی کتاب میں معاویہ کےبارے میں مسلمانوں کے تین گروہ ذکر کئے ہیں۔

۱۔  پہلا وہ گروہ جو معاویہ پر لعنت بھیجنا جائز سمجھتا ہے اور معاویہ کو فاسق کہتا ہے  اور معاویہ پر ترضی { رضی اللہ عنہ} سے منع کرتا ہے ۔ اور اس گروہ کا لیڈر سیدنا علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں ۔

۲۔ دوسرا وہ گروہ ہے کہ جنہوں نے حقیقت کی ایک شعاع کو درک کیا ہے اور معاویہ کو پہچانا ہے  اور اس کے طغیانیت اور معصیتوں کا اقرار کرتا ہے  لیکن انہوں نے تفسیق نہیں کی  اور لعن سے پرھیز کیا ۔

۳۔ تیسرا وہ گروہ ہے جو  معاویہ کو حق پر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے  اور اس کے کرتوتوں کی تاویل کرتا ہے  اور اس کے بارے میں احادیث وضع کئے ہیں ۔ یہ گروہ حجت اور دلیل کو نہیں مانتا اور معاویہ کے خلاف کسی بات کو سننے کے لئے تیار نہیں ہے ۔[2]

 

معاویہ، حافظ احمد الغماری کی نظر میں:

  • من سب علیا فقد سبنی و من سبنی فقد سب الله ۔  ومن سب الله فقد کفر
  • من کنت مولاہ فعلی مولاہ اللهم وال من والاہ و عاد من عاداہ

 

ان احادیث کو  ذکر کرنے کے بعد جناب احمد الغماری فرماتے ہیں کہ

یہ احادیث جو کہ متفق علیہ صحیح ہیں اور تواتر کے ساتھ ذکر ہیں کہ معاویہ منبروں سے ساری زندگی حضرت علی پر لعن کرتا تھا اور اس کے بعد عمر بن عبدالعزیز کے زمانے تک جاری رہا یہ واضح ہوتا ہے کہ معاویہ منافق اور کافر تھا ۔

اور ناصبی کہتے ہیں کہ یہ لعن کرنا معاویہ کا اجتھاد تھا حالانکہ رسول اللہ نے تمام لوگوں کے لئے مطلقا کہا ہے

لعن المومن کقتله

کسی مومن پر لعن کرنا اس کو قتل کرنے جیسا ہے ۔ اور اگر لعنت اور باقی کبیرہ گناہ کو انجام دینے کو اجتھاد کہا جاتا ہے توپھر ہر چور و زانی و شراب پینے والا اور ہر قاتل کو مجتھد کہنا جائز ہے اس طرح  تو نہ اس دنیا میں کوئی حد ہے اور نہ  آخرت میں کوئی عذاب۔[3]

 

۔معاویہ ، شوکانی کی نظر میں:

                                                     علامہ شوکانی نے نیل الاوطار میں حافظ کا قول ذکر کیا ہے

قال الحافظ : و من ثم کا ن الذین توقفوا عن القتال فی الجمل و صفین اقل عددا من الذین قاتلوا و کلھم متاول ماجور ان شاء اللہ بخلاف من جاء بعدھم ممن قاتل علی طلب الدنیا

کہ جس میں حافظ نے کہا ہے کہ وہ لوگ کہ جنہوں نے جمل اور صفین میں قتال نہیں کیا یعنی جنگ نہیں کی ان کی عدد بہت کم تھی ان کی نسبت کہ جنہوں نے قتال میں شرکت کی ۔ اور یہ سب کے سب ماجور ہیں یعنی ان کا اللہ کے ہاں اجر ہے

جناب شوکانی نے لکھا ہے کہ یہ { اللہ کے ہاں اجر } تمام کے تمام قتال کرنے والوں کے نیت پر موقوف ہے اور ان کے ارادے پر موقوف ہے کہ جن کا ارادہ دین ہو نہ کہ دنیا اور لوگوں کی اصلاح کے لئے ہو نہ کہ فقط حکومت { اس سے معاویہ کی طرف اشارہ ہے } ۔۔۔۔۔ جب ان میں سے بعض کو علم تھا کہ یہ باطل ہے اور اس کے مقابلے والا حق پر ہے بالخصوص جن کو اس صحیح حدیث کا علم کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا ، اور حضرت عمار کے قتل کے بعد بھی ان کا جنگ پر اصرار  حق سے دشمنی اور باطل کی طرف جھکاو  کی علامت ہے جیسا کہ ہر انصاف پسند آدمی کے لئے یہ بات مخفی نہیں ہے۔[4]

 

 

 

۲۔معاویہ، رشید رضا کی نظر میں:

إن سیره معاویه تفید بجملتها وتفصیلها أنه کان طالبًا للملک ومحبًّا للریاسه , وإنی لأعتقد أنه قد وثب على هذا الأمر مفتاتًا وأنه لم یکن له أن یحجم عن مبایعه علی بعد أن بایعه أولو الأمر أهل الحل والعقد , وإن کان یعتقد أنه قادر على القیام بأعباء الأمه کما یقولون فما کل معتقد بأهلیته لشیء یجوز له أن ینازع فیه ,۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وأنه هو الذی أحرج المسلمین حتى تفرقوا واقتتلوا وبه صارت الخلافه ملکًا عَضوضًا , ثم إنه جعلها وراثه فی قومه

معاویہ کی سیرت اپنی تمام تفصیل کے ساتھ یہ واضح کرتی ہے کہ معاویہ حکومت کا طالب تھا اور ریاست چاھنے والا تھا  اور مجھے یقین ہے کہ وہ اس نے حکومت حاصل کرنے کے لئے ہر سرکشی اور بغاوت سے کام لیا ہے { یعنی اس نے استبدادانہ قدرت حاصل کی تھی }۔ معاویہ کو نہیں چاہیے تھا کہ ایسے شخص کی بیعت کا انکار کرتا کہ جس کی بیعت اولو الامر اھل حل و عقد نے کی تھی ۔ اگر چہ کہا جاتا ہے کہ وہ تمام دشواریوں اور سختیوں پر قابو پانے پر قادر تھا ، پس جائز نہیں کہ جو بھی اپنے آپ کو حکومت کا اھل سمجھے تو نزاع و لڑنا شروع کرے ۔۔۔۔ اور معاویہ کی وجہ سے مسلمان متفرق ہوئے اور آپسمیں قتال کیا اور اسی معاویہ کی وجہ سے خلافت  ملوکیت میں تبدیل ہوئی ۔ پھر اس نے خلافت کو اپنی قوم میں وراثت قرار دی۔ [5]

ایک اور  جگہ پر  فرماتے ہیں کہ

ونحن من أولیاء علی - علیه السلام والرضوان - لا من أولیاء معاویة وفئته الباغیة علیهم من الله ما یستحقون.ولکننا لسنا بسبابین ولا لعانین کما ورد فی وصف المؤمن، وقد ذکرت فی ترجمة الوالد - رحمه الله تعالى - من المجلد الثامن أنه کان یقول: (لا نحب معاویة ولا نسبه) وکیف نحب من بغى على جدنا وخرج علیه، وکان سببًا فی تلک الفتن التی کانت نکتة سوداء فی تاریخ عصر النور،[6]

ہم مولا علی علیہ السلام کے حبداروں میں سے ہیں نہ کہ معاویہ اور باغی گروہ کے حبداروں میں سے۔ کہ جن کے اوپر اللہ کی طرف سے وہی ہو جن کے وہ مستحق ہیں لیکن ہم گالی دینے والوں اور لعنت بھیجنے والوں میں سے نہیں ہیں جیسا کہ مومن کے صفات میں بھی یہی وارد ہیں ۔ میں نے اپنے والد کے حالات آٹھویں جلد میں یہ ذکر کیا ہے کہ میرے والد کہا کرتے تھے کہ ہم نہ معاویہ سے محبت کرتے ہیں اور نہ ہی اس کو گالیاں دیتے ہیں۔ کیسے ہم اس شخص سے محبت کریں جس نے ہمارے جد علی علیہ السلام کے خلاف بغاوت کی اور اس پر خروج کیا ۔ معاویہ ہی ان تمام فتنوں کا سبب ہے کہ جو نور کے زمانے کی تاریخ  میں کالا داغ ہیں۔

۳۔معاویہ ،عباس محمود عقاد کی نظر میں :

                                                                                        عباس محمود العقاد معاویہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ معاویہ کی حکومت کاملا دنیوی  تھی اس کا  نہ تو دین سے کوئی تعلق تھا اور نہ دینی خلافت سے

کیونکہ معاویہ اور امام علی کے درمیان  اختلاف ایک شئ پر نہیں تھی کہ یا دونوں فریقوں میں سے کوئی ایک فریق کی کامیابی سے لڑائی ختم ہوجاتی اور اختلاف کا دروازہ بند ہوجاتا بلکہ یہ لڑائی دو متقابل نظاموں کے درمیان تھی کہ جن میں سے ایک باغی اور سرکش نظام تھا یا یہ نظریاتی لڑائی تھی خلافت دینی اور دنیوی حکومت کے درمیان ۔ دینی خلافت امام علی علیہ السلام کے پاس اور دنیوی حکومت معاویہ بن ابی سفیان کے پاس ۔[7]


                       

۴۔معاویہ، ڈاکٹر طہ حسین کی نظر میں :

                                                                                  ڈاکٹر طہ حسین اپنی کتاب علی و بنوہ  میں لکھتے ہیں کہ اگر معاویہ انصاف پسند ہوتا اور حق کے لئے مخلص ہوتا تو اسے چاھئیے تھا کہ باقی لوگوں کی طرح مولا علی علیہ السلام کی بیعت کرتا پھر اس کے بعد اپنے ساتھ عثمان کے رشتہ داروں کو ملا کر مولا علی علیہ السلام کے پاس آتا اور وہاں عثمان کے قاتلوں سے قصاص کا مطالبہ کرتا، لیکن معاویہ اتنا عثمان کے قاتلوں سے قصاص نہیں چاھتا تھا جتنا مولا علی علیہ السلام کو امر خلافت سے جدا کرنا چاھتا تھا ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب معاویہ کو مولا علی علیہ السلام کی وفات کے بعد اور امام حسن علیہ السلام کے ساتھ صلح کے بعد حکومت ملی تو وہ خون عثمان بھول گیا ۔[8]

عمار بن یاسر مو لا علی کی طرف سے بھر پور جذبہ اور حماسیت کے ساتھ معاویہ کے خلاف لڑ رہے تھے حالانکہ ان کی عمر نوے سال سے زیادہ تھی اور وہ اپنی ایمانی طاقت پر لڑ رہے تھے وہ یہ کہ وہ حق کا دفاع کررہے تھے اور یہ رجز پڑھتے تھے ۔

نحن ضربناکم علی تنزیله    والیوم نضربکم علی تاویله

ہم نے قرآن کی تنزیل پر تم سے جنگ کی ہے اور آج قرآن کی تاویل پر جنگ کر رہے ہیں

 اور شہادت کے دن وہ لوگوں کو تشویق کرتے تھے اور کہتے تھے کہ کون جنت جارہا ہے ؟ میں تو اپنے محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ اور ان کے باوفا گروہ کے ساتھ لڑنے جارہا ہوں ۔

عمار بن یاسر کی شہادت نے ثابت کیا کہ مولا علی حق پر تھے اور اور معاویہ ان کے ساتھیوں کو عوام کی نظروں میں مشکوک بنایا کیونکہ مھاجرین اور انصار میں اکثروں نے نبی اکرم کی یہ حدیث سنی تھی کہ اے عمار تجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔[9]

 

معاویہ، سید قطب کی نظر میں:

سید قطب اپنی کتاب کتب و شخصیات میں فرماتے ہیں کہ

معاویہ اور اس کا کلاس فیلو عمرو بن عاص مولا علی پر غالب نہیں آئے تھے کیونکہ وہ اپنے غلط کاموں کو اچھی طرح جانتے تھے کیونکہ وہ دونوں طلقاء میں سے تھے اور ہر قسم کا اسلحہ استعمال کرنے میں آزاد تھے جبکہ مولا علی علیہ السلام اخلاق کے پابند تھے در حالیکہ معاویہ اور اس کا دوست عمروبن عاص جھوٹ نفاق رشوت اور دھوکے کی طرف متمائل لوگ تھے ۔

   آگے فرماتے ہیں کہ

 .....لقد کان انتصار معاویة هو أکبر کارثة دهمت روح الإسلام التی لم تتمکن بعد من النفوس

معاویہ کا جیت جانا { یعنی حکومت پر قابض ہونا} ایک ایسی بڑی بلا تھی کہ جس نے اسلام کی روح کا مٹایا کہ جو بعد میں کسی سے بھی بن نہ پائی ۔[10]                                                                        

 

 

۵۔معاویہ شیخ حسن سقاف  کی نظر میں:


آج کے دور کے سنی عالم دین شیخ حسن سقاف اپنی کتاب ‘مسالہ الرویہ’  میں تحریر کرتے ہیں :

دولة تبتنی و تعتنق لعن سیدنا علی و شتمه و ذمه


اموی حکومت نے سیدنا علی پر لعنت کرنا اور ان کو گالیاں دینا اور بےعزتی کرنا منظور کیا .

اسی جملہ کے حاشیہ میں وہ لکھتے ہیں : 

و یکابر بعض الجهلة المتعصبین و ینکر ذلک مع کونه ثابتا عن معاویة 

بعض جاہل اور متعصب لوگ اس بات کے انکاری ہیں حالانکہ معاویہ کے متعلق یہ ثابت ہے .[11]

 

 

 

۶۔معاویہ ایک مستشرق کی نظر میں :

                                                 محقق نور الدین ابو لحیہ نے اپنی کتاب معاویہ بن ابی سفیان فی المیزان میں صاحب تفسیر المنار علامہ رشید رضا سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ جرمنی میں ایک پروگرام منعقد ہوا کہ جس میں مکہ کی ایک بزرگ شخصیت بھی موجود تھی اس پروگرام میں ایک جرمنی نے کہا کہ ہمیں تو معاویہ بن ابی سفیان کا مجسمہ اپنے دارلحکومت میں بنانا چاھیے کیونکہ اسی نے اسلام کے نظام حکومت کو اپنے اصل راستے سے تبدیل کیا ہے اور اگر اس نے ایسا نہ کیا ہوتا تو آج سارا عالم اسلام کا ہوتا اور ہم جرمنی اور سارے یورپ والے مسلمان ہوتے ۔[12]

 

۷۔معاویہ ، ابوالاعلی مودودی کی نظر میں:

                                                           ابوالاعلی مودودی نے بہت ہی تفصیل کے ساتھ معاویہ کو بیان کیا ہے موصوف کی کتاب خلافت و ملوکیت سے کچھ عبارات ملاحظہ فرمائیں۔

موصوف عثمان کے قاتلوں سے قصاص کے مطالبے کے بارے میں فرماتے ہیں

کہ دونوں { عائشہ و معاویہ } کی پوزیشن آئینی حیثیت سے کسی طرح درست نہیں مانی جاسکتی ۔ ظاھر ہے یہ جاہلیت کے دور کا قبائلی نظام تو نہ تھا کہ کسی مقتول کے خون کا مطالبہ لے کر جو چاھے اور جس طرح چاھے اٹھ کھڑا ہو اور جو طریقہ چاہے اسے پورا کرنے کے لئے استعمال کرے ۔[13]

 

نیز بیان کرتے ہیں کہ اس سے بدر بہا زیادہ غیر آئینی طرز عمل دوسرے فریق یعنی معاویہ کا تھا  ، جو معاویہ بن ابو سفیان کی حیثیت سے نہیں بلکہ شام کے گورنر کی حیثیت سے خون عثمان کے مطالبے کے لئے اٹھا ،مرکزی حکومت کی اطاعت سے انکار کیا اور گورنری کی طاقت اپنے اس مقصد کے لئے استعمال کی ، اور مطالبہ بھی یہ نہیں کہ حضرت علی قاتلین عثمان پر مقدمہ چلائے بلکہ یہ کیا کہ وہ قاتلین عثمان کو ان کے حوالے کردے تاکہ وہ خود انہیں قتل کردے ۔ یہ سب کچھ زمانہ اسلام کی نظامی حکومت کے بجائے زمانہ مقبل اسلام کی قبائلی بد نظمی سے اشبہ ہیں ۔[14]

معاویہ خون عثمان کا بدلہ قانونی راستے سے نہیں بلکہ غیر قانونی راستے سے لینا چاہتے تھے۔[15]

معاویہ کے دور میں سیاست کو دین پر بالا رکھنے اور سیاسی اغراض کے لئے دین کی حدیں توڑ ڈالنے کی جو ابتدا ہوئی تھی وہ یزید کے دور میں بد ترین نتائج تک پہنچ گئی ۔[16]

اس کے علاوہ مودودی صاحب نے معاویہ کے اکثر کاموں کو غلط کہا ہے جو کہ یہاں ذکر کرنے کی حاجت نہیں۔

 

۸۔معاویہ، حسن بن فرحان المالکی کی نظر میں:

                                                                                                حسن بن فرحان المالکی سعودی عرب کے شہر ریاض سے تعلق رکھتے ہیں ان کو صدر اسلام کے قضایا پر انتہائی زیادہ عبور حاصل ہے انہوں نے معاویہ پر ایک کتاب لکھی ہے کہ جس کا نام ہے

 بحث فی حقیقۃ اسلام معاویہ

اس کتاب میں شیخ حسن بن فرحان المالکی نے انتہائی علمی بحث کی ہے اور اس کتاب کو پڑھنے سے ہر انصاف پسند انسان معاویہ کو کبھی بھی رضی اللہ کے درجے تک نہیں لے جائے گا ۔

شیخ حسن بن فرحان المالکی کو انہی نظریات کی وجہ سے سعودی عرب کی حکومت نے کئی دفعہ قید میں ڈالا لیکن وہ ہمیشہ اپنی آواز بلند کر رہے ہیں اور اس وقت وہ سلفیوں کے لئے موت بن گیا ہے۔

جناب حسن بن فرحان المالکی نے ایک اور کتاب لکھی ہے کہ جس کا نام ہے خلاصات امویہ

تیسری کتاب کا نام  بیع معاویہ للاصنام  ہے

یہ تینوں کتابوں کو پڑھنے سے انسان اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ حسن بن فرحان المالکی کے ہاں معاویہ کافر تھا اور اس کا اعتراف انہوں نے خود وصال ٹی وی عربی پر کئے گئے مناظر ے میں بھی کیا ہے کہ معاویہ جہنمی ہے اور وہ ایک خادع تھا نہ تو اس کا باپ مسلمان تھا اور نہ ہی وہ خود ۔

ایک مناظرے میں ایک سلفی نے جناب حسن بن فرحان المالکی سے پوچھا کہ  آپ کی نظر میں معاویہ افضل ہے یا خمینی رح ؟

تو شیخ حسن نے جواب دیا کہ اصلا سوال ہی غلط ہے میں خمینی کو مسلمان سمجھتا ہوں وہ ایک مسلمان تھا اور اسلام کے لئے انہوں نے بہت خدمات انجام دیئے ہیں لیکن معاویہ تو کافر اور منافق تھا جیسا کہ عمار بن یاسر کا بھی یہی نظریہ ہے کہ معاویہ نے اسلام نہیں لایا بلکہ تسلیم ہوا تھا اور کفر کو چھپا کے رکھا تھا ۔

اور خلاصات امویہ میں فرماتے ہیں کہ قریش نے رسول اللہ سے جنگوں کے دوران جتنے صحابہ کو قتل کیا تھا ان کی تعداد ۹۰ سے زیادہ نہیں ہے لیکن بنی امیہ نے اپنے دور میں ایک ھزار سے بھی زیادہ صحابہ کو قتل کیا ۔

 

۹۔معاویہ ، ڈاکٹر عدنان ابراھیم کی نظر میں:

                                                                ڈاکٹر عدنان ابراھیم کا تعلق فلسطین کے شہر غزہ سے ہے اور اس وقت یہ یورپ میں ایک مسجد کے خطیب  ہیں

انہوں نے معاویہ سے متعلق ۲۷ لیکچرز دئیے ہیں یہ لیکچرز  عربی زبان میں ہیں اور یہ سارے کے سارے لیکچرز یوٹیوب پر باآسانی مل سکتے ہیں اور تحریری صورت ڈاکٹر عدنان ابراھیم کے آفیشلی ویب سائٹ  پر موجود ہیں ۔ ان دروس میں انہوں نے تمام علماء اھل تسنن کے معاویہ کے متعلق آرا پیش کئے ہیں ۔ اور اھل سنت کے کتابوں سے صحیح السند احادیث کو لاکر سب کے اوپر واضح کیا ہے کہ معاویہ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا اور اگر معاویہ نے اسلام کا نام لیا بھی ہے تو وہ فقط حکومت حاصل کرنے کے لئے لیا ہے ۔

ڈاکٹر عدنان ابراھیم بھی معاویہ پر لعنت نہیں کرتا اور اس کا وہ خود اقرار کرتا ہے ۔ لیکن وہ معاویہ کو مسلمان نہیں سمجھتا اور انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہمارے محدثین اور آئمہ کے ہاں معاویہ کی موت اسلام پر نہیں ہوئی ۔ اب معاویہ کی موت نفاق پر ہوئی یا کفر پر اس کا فقط اللہ کو علم ہے ۔

یقینا عدنان ابراھیم نے معاویہ کے کرتوتوں تفصیلا بیان کئے ہیں اور ہم نے اس تحقیق کے لئے بھی ان کے دروس سے بہت استفادہ کیا ہے ،

 

[1] النصائح الکافیہ لمن یتولی معاویہ    صفحہ ۷۴

 

[2] النصائح الکافیہ ص ۲۱ 

 

[3] الجواب المفید للسائل المستفید ص ۵۹ 

[4] نیل الاوطار جلد ۷ ص ۲۰۰                    

 

[5] مجله المنار،ج۹،ص۲۱۲و۲۱۳

 

[6] محمد رشید رضا مجلہ المنار جلد ۱۲ ص ۹۵۴ دارالنشر دارالوفاء مصر طبعہ ثانیہ ۱۳۲۷ھ

[7] عبقریۃ الامام  ص ۸۰

 

[8] علی و بنوہ  ص ۳۱ 

[9] کتاب مرآۃ الاسلام ص ۲۲۴

[10] کتب وشخصیات ص 242-243

[11]  مسالہ الرویہ’ ص 11

[12] معاویہ بن ابی سفیان فی المیزان صفحہ ۴۰ پر

[13] خلافت و ملوکیت    صفحہ ۱۲۴ 

[14] خلافت و ملوکیت   ص ۱۲۵

[15] خلافت و ملوکیت    ص ۱۳۲

[16] خلافت و ملوکیت    ص  ۱۷۹

موافقین ۰ مخالفین ۰ 20/03/23

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی