آیہ غار اور حضرت ابوبکر
آیہ غار اور حضرت ابوبکر
اس تحقیق میں ولیعصر سائٹ پر موجود استاد آیت اللہ حسینی قزوینی اور ان کے ساتھیوں کے مقالے سے کافی استفادہ کیا گیا ہے،
سید ابوعماد حیدری
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درود و سلام ہو محمد مصطفی اور ان کی پاک آل پر
اہل سنت ہمیشہ حضرت ابوبکر کی فضیلت کے لئے آیہ غار کا سہارا لیتے ہیں،
جبکہ حقیقت کچھ اور ہے ، اور ہم اس مختصر تحقیق میں ثابت کرینگے کہ اس آیت سے حضرت ابوبکر کے لئے کوئی فضیلت ثابت نہیں ہوتی،
آیت کچھ یوں ہے،
إِلاَّ تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذینَ کَفَرُوا ثانِیَ اثْنَیْنِ إِذْ هُما فِی الْغارِ إِذْ یَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنا فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَکینَتَهُ عَلَیْهِ وَأَیَّدَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْها وَجَعَلَ کَلِمَةَ الَّذینَ کَفَرُوا السُّفْلى وَکَلِمَةُ اللَّهِ هِیَ الْعُلْیا وَاللَّهُ عَزیزٌ حَکیمٌ. التوبه/40.
گر تم ان ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے ( دیس سے ) نکال دیا تھا دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے پس جناب باری نے اپنی طرف سے تسکین اس پر نازل فرما کر ان لشکروں سے اس کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں اس نے کافروں کی بات پست کردی اور بلند و عزیز تو اللہ کا کلمہ ہی ہے اللہ غالب ہے حکمت والا ہے ۔
إلا تنصروه فقد نصره الله إذ أخرجه الذین کفروا
اگر تم ان ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے ( دیس سے ) نکال دیا تھا،
یہاں پر اخرجہ میں واحد کی ضمیر استعمال ہے ، یعنی جب نبی کو کافروں نے نکالا، اگر حضرت ابوبکر کو مکہ سے کافروں نے نکالا ہوتا تو ضرور یہاں اخرجہما یعنی تثنیہ کے ساتھ ضمیر آتی ،
ثانِیَ اثْنَیْنِ
ثانی اثنین حال واقع ہوتا ہے اخرجہ میں ضمیر کے لئے،
جیسا کہ اہل سنت علمائ یہی کہتے ہیں،
وقوله (ثانی اثنین) حال من الضمیر فی أخرجه....[1]
قوله: (ثانی اثنین) حال من الضمیر المنصوب فی إذ أخرجه الذین کفروا....[2]
و (ثانیَ اثنین) حال من ضمیر النصب فی (أخرجه).[3]
وقوله: (ثَانِیَ اثْنَیْنِ) نصب على الحال، أی فی الحال التی کان فیها (ثَانِیَ اثْنَیْنِ).[4]
پس جب ثانی اثنین ، اخرجہ میں ضمیر کے حال ہو اور اخرجہ کی ضمیر پلٹتی ہو رسول اللہ کی طرف ، تو اس صورت میں کیسے ثانی اثنین سے مراد ابوبکر لیا جائے گا؟
بالفرض ہم مان بھی لیں کہ ثانی اثنین سے مراد حضرت ابوبکر ہے ، تو سوال یہ ہے کہ کیا ثانی اثنین ہونا کوئی فضیلت ہے؟
اہل سنت عالم علامہ محمد رشید رضا صاحب تفسیر المنار نے اس مطلب کو بہت زبردست بیان کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ
ثَانِیَ اثْنَیْنِ أَیْ: أَحَدُهُمَا، فَإِنَّ مِثْلَ هَذَا التَّعْبِیرِ لَا یُعْتَبَرُ فِیهِ الْأَوَّلِیَّةُ وَلَا الْأَوْلَوِیَّةُ؛ لِأَنَّ کُلَّ وَاحِدٍ مِنْهَا ثَانٍ لِلْآخَرِ، وَمِثْلُهُ: ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ، وَرَابِعُ أَرْبَعَةٍ لَا مَعْنَى لَهُ إِلَّا أَنَّهُ وَاحِدٌ مِنْ ثَلَاثَةٍ أَوْ أَرْبَعَةٍ بِهِ تَمَّ هَذَا الْعَدَدُ. عَلَى أَنَّ التَّرْتِیبَ فِیهِ إِنَّمَا یَکُونُ بِالزَّمَانِ أَوِ الْمَکَانِ، وَهُوَ لَا یَدُلُّ عَلَى تَفْضِیلِ الْأَوَّلِ عَلَى الثَّانِی، وَلَا الثَّالِثِ أَوِ الرَّابِعِ عَلَى مَنْ قَبْلَهُ.[5]
ثانی اثنین یعنی دو میں ایک کا ہونا نہ اولیت ہے اور نہ ہی اولویت ہے ، کیونکہ دو میں ہر ایک دوسرے کے لئے دوسرے ہے ، اسی طرح تین میں تیسرا ، چار میں چوتھا، اس کا کوئی معنی نہیں مگر یہ کہ تین یا چار میں ایک ہے، اس بنائ پر کہ جب ترتیب زمان اور مکان کے اساس پر ہو، پس یہ اول کا دوسرے ، تیسرے یا چوتھے پر فضیلت کی کوئی دلیل نہیں ہے،
إِذْ یَقُولُ
اذ یقول یعنی جب وہ کہہ رہے تھے ،
عربی قواعد کے مطابق اگر فعل ماضی کی جگہ پر فعل مضارع آجائے تو اس کی دلالت تکرار اور تداوم پر ہوگی، یعنی رسول اللہ نے بار بار اپنے ساتھی کو کہا کہ لا تحزن ان اللہ معنا،
پس اس صورت میں ضرور یہ بات سمجھ آتی ہے کہ رسول اللہ کے بار بار منع کرنے کے باوجود پھر بھی حضرت ابوبکر رسول اللہ کے حکم سے بے اعتنائی کر رہے تھے،
إِذْ یَقُولُ لِصاحِبِهِ
جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے۔
اہل سنت نے یہاں صاحب سے صحبت کا وہ معنی بیان کیا ہے کہ جس کے انکار پر اہل سنت کی طرف سے کفر کے فتوے لگتے ہیں ، جبکہ کسی شخص کو صاحب کا لفظ استعمال ہونا اس شخص کی مدح پر کوئی دلالت نہیں ، اور نہ ہی صاحب قرار دینے والا شخص اس شخص کا وفادار اور تابعدار ثابت ہوتا ہے کہ جس کے لئے وہ صاحب ہے،
صاحب کا لفظ کے لئے قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں ،
وَمَا صَاحِبُکمُ بِمَجْنُون. التکویر/ 22.
[ مشرکین مکہ کو خطاب] تمھارا صاحب [ نبی اکرم] مجنون نہیں ہے،
اس آیت میں نبی اکرم کو کفار مکہ کا صاحب کہا ہے،
ثُمَّ تَتَفَکَّرُواْ مَا بِصَاحِبِکمُ مِّن جِنَّةٍ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِیرٌ لَّکُم بَینْ یَدَىْ عَذَابٍ شَدِید. السبأ/46.
تمہارے اس رفیق کو کوئی جنون نہیں وہ تو تمہیں ایک بڑے ( سخت ) عذاب کے آنے سے پہلے ڈرانے والا ہے ۔
وَ النَّجْمِ إِذَا هَوَى. مَا ضَلَّ صَاحِبُکمُْ وَ مَا غَوَى. النجم/ 1و2.
تمہارے ساتھی نے نہ راہ گم کی ہے اور نہ وہ ٹیڑھی راہ پر ہے ۔
یا صاحِبَیِ السِّجْنِ أَ أَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَیْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ. یوسف/39.
اے میرے قید خانے کے ساتھیو! کیا متفرق کئی ایک پروردگار بہتر ہیں؟ یا ایک اللہ زبردست طاقتور؟ ۔
یا صاحِبَیِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُکُما فَیَسْقی رَبَّهُ خَمْراً وَ أَمَّا الْآخَرُ فَیُصْلَبُ فَتَأْکُلُ الطَّیْرُ مِنْ رَأْسِهِ قُضِیَ الْأَمْرُ الَّذی فیهِ تَسْتَفْتِیان. یوسف/41.
اے میرے قید خانے کے رفیقو! تم دونوں میں سے ایک تو اپنے بادشاہ کو شراب پلانے پر مقرر ہو جائے گا لیکن دوسرا سولی پر چڑھایا جائے گا اور پرندے اس کا سر نوچ نوچ کھائیں گے تم دونوں جس کے بارے میں تحقیق کر رہے تھے اس کام کا فیصلہ کر دیا گیا ہے ۔
قالَ لَهُ صاحِبُهُ وَهُوَ یُحاوِرُهُ أَ کَفَرْتَ بِالَّذی خَلَقَکَ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاکَ رَجُلا. الکهف/37.
اس کے ساتھی نے اس سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ کیا تو اس ( معبود ) سے کفر کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا ۔ پھر نطفے سے پھر تجھے پورا آدمی بنا دیا ۔
مندرجہ بالا آیات میں کہیں بھی صاحب کا وہ فضیلت نہیں جو فضیلت اہل سنت آیہ غار میں صاحب سے حضرت ابوبکر کے لئے استعمال کرتے ہیں،
اہل سنت عالم راغب اصفهانى لکھتے ہیں کہ
وقوله (ما بصاحبکم من جنة) وقد سمی النبی علیه السلام صاحبهم تنبیها أنکم صحبتموه وجربتموه وعرفتموه ظاهره وباطنه ولم تجدوا به خبلا وجنة، وکذلک قوله: (وما صاحبکم بمجنون﴾.
نبی اکرم کو کفار کا صاحب کہا گیا ہے تاکہ کفار کو اس کی تنبیہ کرے کہ تم رسول کے ساتھ معاشرت کرچکے ہو، ان کو دیکھ چکے ہو، ان کے ظاہر اور باطن سے باخبر ہو اور ان سے کسی قسم کی دیوانگی کو نہیں پائے ہو،
جبکہ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق رسول اللہ نے صحابہ میں سے بعض کو منافقین قرار دیا ہے،
قال النبی صلى الله علیه وسلم فی أَصْحَابِی اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا[6]
رسول اللہ نے فرمایا : میرے اصحاب میں سے بارہ منافق ہیں
لا تحزن
حضرت ابوبکر کا حزن کتنی دفعہ؟؟ مندرجہ ذیل روایات سے خود ہی اندازہ لگائیں۔
جب سراقہ کو دیکھا تو حضرت ابوبکر کو حزن ہوا نبی نے کہا لاتحزن۔۔۔۔[7]
جیسے ہی مشرکین کی باتوں کی آواز کانوں میں پڑی تو حضرت ابوبکر کو حزن ہوا نبی نے کہا لاتحزن۔۔۔[8]
مشرکین جیسے ہی نزدیک ہوے تو حزن ہوا نبی نے کہا لاتحزن ۔۔۔۔۔۔[9]
مشرکین جیسے ہی غار تک پہنچے تو حضرت ابوبکر کو حزن ہوا ، نبی نے کہا لاتحزن۔۔۔[10]
مشرکین کا مکڑی کے جالے کے بارے میں گفتگو اور حضرت ابوبکر کا حزن۔ نبی نے کہا لاتحزن۔۔۔[11]
غار کے سوراخ میں سانپ سے حضرت ابوبکر کا ڈر۔[12]
آخر میں ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا لا تحزن کا خطاب حضرت ابوبکر کی فضیلت ہے؟
اگر کسی کو کہو کہ خوف مت کھا یا غم نہ کر ، تو کیا یہ اس شخص کی فضیلت ہوگی؟
شیخ الطوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
وقوله «لا تحزن» إن لم یکن ذما فلیس بمدح بل هو نهی محض عن الخوف.[13]
اگر لا تحزن ابوبکر کی مذمت نہ ہو تو ان کی مدح بھی نہیں ہے بلکہ یہ فقط اور فقط خوف سے نہی ہے،
ان اللہ معنا
اس سے اہل سنت زیادہ تمسک کرتے ہیں کہ اللہ حضرت ابوبکر کے ساتھ ہے، جبکہ اس جملے سے بھی حضرت ابوبکر کے لئے کوئی فضیلت نہیں ، ہم بھی روزمرہ زندگی میں لوگوں کو یہی کہتے پاتے ہیں کہ فلاں کام میں نہیں کروں گا اللہ میری مدد کرے گا اللہ میرے ساتھ ہے۔
کیا اس جملے سے کسی کی باقی تمام انسانوں پر افضلیت ثابت ہوتی ہے ، حالانکہ اہل سنت کے ہاں صحیح السند روایات موجود ہیں کہ جو حضرت ابوبکر کے مقام کو اچھی طرح واضح کرتی ہیں، ہم فقط ایک روایت کے ذکر کرنے پر اکتفائ کرتے ہیں،
مالک بن أنس الموطأ میں، ابن عبد البر الإستذکار میں اور ابن اثیر جزرى جامع الأصول میں روایت لکھتے ہیں کہ :
عَنْ أَبِی النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَیْدِ اللَّهِ أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِشُهَدَاءِ أُحُدٍ هَؤُلاءِ أَشْهَدُ عَلَیْهِمْ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ الصِّدِّیقُ أَلَسْنَا یَا رَسُولَ اللَّهِ بِإِخْوَانِهِمْ أَسْلَمْنَا کَمَا أَسْلَمُوا وَجَاهَدْنَا کَمَا جَاهَدُوا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَلَى وَلَکِنْ لا أَدْرِی مَا تُحْدِثُونَ بَعْدِی فَبَکَى أَبُو بَکْرٍ ثُمَّ بَکَى....[14]
رسول خدا صلى الله علیه وآله وسلم شھدائے احد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں گواھی دیتا ہوں کہ یہ میرے بھائی اور نیک لوگ ہیں، حضرت ابوبکر نے کہا کہ یارسول اللہ کیا ہم ان کے بھائی نہیں ہم نے بھی ان کی طرح اسلام لایا اور ان کی طرح جھاد کیا، رسول اللہ نے کہا کہ ہاں لیکن میں نہیں جانتا کہ تم میرے بعد اللہ کے دین کے ساتھ کیا کروگے؟ ابوبکر روئے ۔۔۔۔۔۔۔۔
فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَکینَتَهُ عَلَیْهِ وَأَیَّدَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْها
آیت کے اس حصے سے بھی اہل سنت حضرت ابوبکر کی ٖفضیلت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں،
سب سے پہلے قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں ،
ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَکینَتَهُ عَلى رَسُولِهِ وَ عَلَى الْمُؤْمِنینَ وَ أَنْزَلَ جُنُوداً لَمْ تَرَوْها وَ عَذَّبَ الَّذینَ کَفَرُوا وَ ذلِکَ جَزاءُ الْکافِرین. التوبه 26.
پھر اللہ نے اپنی طرف کی تسکین اپنے نبی پر اور مومنوں پر اتاری اور اپنے وہ لشکر بھیجے جنہیں تم دیکھ نہیں رہے تھے اور کافروں کو پوری سزا دی ۔ ان کفار کا یہی بدلہ تھا ۔
فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَکینَتَهُ عَلى رَسُولِهِ وَ عَلَى الْمُؤْمِنینَ وَ أَلْزَمَهُمْ کَلِمَةَ التَّقْوى وَ کانُوا أَحَقَّ بِها وَ أَهْلَها وَ کانَ اللَّهُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلیما. الفتح26.
سو اللہ تعالٰی نے اپنے رسول پر اور مومنین پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی اور اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو تقوے کی بات پر جمائے رکھا اور وہ اس کے اہل اور زیادہ مستحق تھے اور اللہ تعالٰی ہرچیز کو خوب جانتا ہے ۔
مندرجہ دونوں آیتوں میں تسکین اور سکینہ کو رسول پر اور مومنین پر نازل کرنے کا ذکر ہے جبکہ آیہ غار میں صرف اور صرف نبی اکرم پر تسکین نازل ہوئی ہے اور حضرت ابوبکر کا ذکر تک بھی نہیں ، اگر حضرت ابوبکر پر تسکین نازل ہوتی تو ضرور وہاں حضرت ابوبکر کا ذکر بھی ہوتا جیسا کہ مندرجہ بالا دو آیتوں میں مومنین پر تسکین نازل ہوئی اور اس لئے ان کا تذکرہ بھی صراحتا ان آیتوں میں موجود ہے ،
جبکہ ہم اہل سنت علمائ کے اعترافات بھی پیش کرتے ہیں کہ جن کے مطابق آیت کے اس حصے میں بھی حضرت ابوبکر کے لئے کوئی فضیلت نہیں ہے،
علامہ طنطاوی فرماتے ہیں کہ
«وَأَیَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا» الضمیر فیه لا یصح إلا للنبى - صلى الله علیه وسلم - وهو معطوف على ما قبله فوجب أن یکون الضمیر فى قوله «عَلَیْهِ» عائداً إلى النبى - صلى الله علیه وسلم - حتى لا یحصل تفکک فى الکلام.[15]
[آیت میں] ضمیر کا نبی اکرم کی پلٹنا ہی صحیح ہے ، کیونکہ یہ جملہ معطوف ہے اپنے ماقبل پر ، پس ضروری ہے کہ علیہ کی ضمیر نبی کی طرف پلٹے تاکہ کلام میں تفکک نہ آئے،
ابن کثیر دمشقی
( فَأَنزلَ اللَّهُ سَکِینَتَهُ عَلَیْهِ ) أی: تأییده ونصره علیه، أی: على الرسول فی أشهر القولین[16]
فَأَنزلَ اللَّهُ سَکِینَتَهُ عَلَیْهِ یعنی اللہ کی تائید اور نصرت ، رسول اللہ پر نازل ہوئی،
شیعہ عالم علامہ طباطبائی؛
والدلیل على رجوع الضمیر فی قوله: «فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَکِینَتَهُ عَلَیْهِ» إلى النبی صلی الله علیه وآله أولا: رجوع الضمائر التی قبله وبعده إلیه صلی الله علیه وآله کقوله: «إِلَّا تَنْصُرُوهُ» و«نَصَرَهُ» و «أَخْرَجَهُ» و «یَقُولُ» و «لِصاحِبِهِ» و «أَیَّدَهُ» فلا سبیل إلى رجوع ضمیر «عَلَیْهِ» من بینها وحده إلى غیره من غیر قرینة قاطعة تدل علیه.[17]
ضمیر کا رسول کی طرف پلٹنے کی دلیل یہ ہے کہ اس سے پہلے اور بعد کے تمام ضمائر رسول اللہ کی طرف پلٹتے ہیں «إِلَّا تَنْصُرُوهُ» و«نَصَرَهُ» و «أَخْرَجَهُ» و «یَقُولُ» و «لِصاحِبِهِ» و «أَیَّدَهُ» اور پوری آیت میں صرف ایک ضمیر کو رسول اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف پلٹانا بغیر کسی یقین آور دلیل کے جائز نہیں،
پس اس پوری آیت میں حضرت ابوبکر کےلئے کوئی فضیلت نہیں ہے، اگر غار میں حضرت ابوبکر کو مان بھی لیا جائے تو یہ کوئی فضیلت نہیں ہے، کیونکہ غار افضل نہیں بلکہ کعبہ افضل ہے اسی کعبہ کے آس پاس سارے مشرکین اور مسلمین رسول اللہ کے آس پاس ہوا کرتے تھے ، بلکہ اہل سنت کے صحیح السند روایات کے مطابق جب کوئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا سوائے ام المومنین خدیجہ علیھا السلام اور مولا علی علیہ السلام کے تو اس وقت کعبہ کے پاس رسول اللہ کی اقتدا میں نماز پڑھنے والے ایک ام المومنین خدیجہ تھیں اور ایک مولا علی علیہما السلام، اور راوی کہتا ہے کہ جب یہ نماز ہورہی تھی تو روئے زمین پر اسلام کے ماننے والے صرف یہی تین [ رسول اللہ۔ حضرت خدیجہ ۔ مولا علی] تھے، یعنی جب یہ نماز ہورہی تھی تو اس وقت حضرت ابوبکر اسلام ہی نہیں لائے تھے۔
اگر کسی جگہ میں کسی کا نبی کے ساتھ صرف ہونا ہی افضلیت کا معیار قرار دیا جائے، تو اہل سنت کو ماننا پڑے گا کہ مولا علی بدرجہا افضل ہیں حضرت ابوبکر سے، کیونکہ غار میں ابوبکر تھے اور کعبہ کے پاس مولا علی ، کعبہ غار سے افضل ہے لہذا مولا علی علیہ السلام بھی ابوبکر سے افضل ہے،
کیا اس آیت میں حضرت ابوبکر کا تذکرہ ہے؟
جواب کے لئے ہم صحیح بخاری کی طرف رجوع کرتے ہیں، صحیح بخاری میں روایت ہے کہ
پہلی روایت:
حدثنا مُوسَى بن إِسْمَاعِیلَ حدثنا أبو عَوَانَةَ عن أبی بِشْرٍ عن یُوسُفَ بن مَاهَکَ قال کان مَرْوَانُ على الْحِجَازِ اسْتَعْمَلَهُ مُعَاوِیَةُ فَخَطَبَ فَجَعَلَ یَذْکُرُ یَزِیدَ بن مُعَاوِیَةَ لِکَیْ یُبَایَعَ له بَعْدَ أبیه فقال له عبد الرحمن بن أبی بَکْرٍ شیئا فقال خُذُوهُ فَدَخَلَ بَیْتَ عَائِشَةَ فلم یَقْدِرُوا فقال مَرْوَانُ إِنَّ هذا الذی أَنْزَلَ الله فیه «وَالَّذِی قال لِوَالِدَیْهِ أُفٍّ لَکُمَا أَتَعِدَانِنِی» فقالت عَائِشَةُ من وَرَاءِ الْحِجَابِ ما أَنْزَلَ الله فِینَا شیئا من الْقُرْآنِ إلا أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ عُذْرِی.[18]
مروان کو معاویہ نے حجاز کا امیر ( گورنر ) بنایا تھا۔ اس نے ایک موقع پر خطبہ دیا اور خطبہ میں یزید بن معاویہ کا باربار ذکر کیا، تاکہ اس کے والد ( معاویہ) کے بعد اس سے لوگ بیعت کریں۔ اس پر عبدالرحمٰن بن ابی بکر نے اعتراضاً کچھ فرمایا۔ مروان نے کہا اسے پکڑ لو۔ عبدالرحمٰن اپنی بہن عائشہ کے گھر میں چلے گئے تو وہ لوگ پکڑ نہیں سکے۔ اس پر مروان بولا کہ اسی شخص کے بارے میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی تھی «والذی قال لوالدیه أف لکما أتعداننی» کہ ”اور جس شخص نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تف ہے تم پر کیا تم مجھے خبر دیتے ہو۔“ اس پر عائشہ نے کہا کہ ہمارے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کوئی آیت نازل نہیں کی بلکہ تہمت سے میری برات ضرور نازل کی تھی۔
اس روایت میں مندرجہ ذیل نکات قابل غور ہیں ،
۱: ما أَنْزَلَ الله فِینَا شیئا من الْقُرْآنِ إلا أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ عُذْرِی.
عربی قوائد کے اعتبار سے اس روایت میں شیئا نکرہ ہے کہ جو نفی کے سیاق میں واقع ہے ، یعنی جب بھی نفی کے سیاق میں نکرہ واقع ہوجائے تو وہ عموم کا فائدہ دیتا ہے، یعنی قرآن کی کوئی آیت بھی ہمارے بارے میں اللہ نے نازل نہیں کی ہے، دوسری بات یہ کہ اس روایت میں ۔الا۔ کا استعمال ہوا ہے، اور عربی کے ابتدائی طالب علم کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ عربی میں ۔ الا۔ حصر کے استعمال ہوتا ہے، اور علم اصول کے قوائد کے مطابق استثنائیہ جملہ ،حصر پر دلالت کرتا ہے اور مفہوم رکھتا ہے،
نتیجہ یہ کہ حضرت ابوبکر اور ان کی خاندان میں فقط ایک آیت حضرت عائشہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، [آیہ افک] اور اس کے علاوہ کسی کے بارے میں کوئی آیت نازل نہیں ہوئی ہے،
پس اس روایت کے بنائ پر غار کی آیت حضرت ابوبکر کے بارے میں قطعا نہیں ہوسکتی، اگر غار کی آیت کو حضرت ابوبکر کے لئے مان لی جائے تو یہ روایت اس کے ساتھ متعارض ہوگی،
شاید کسی کے ذھن میں یہ آجائے کہ اس روایت میں حضرت ابوبکر کی اولاد کے بارے میں نزول آیات کی نفی کی گئی ہے، جیسا کہ اہل سنت عالم بدر الدین عینی اور ابن حجر عسقلانی بھی یہی گمان کرتے ہیں ،
قوله: «فینا» أرادت به بنی أبی بکر لأن أبا بکر، رضی الله تعالى عنه. نزل فیه «ثانی اثنین» (التوبة: 40) وقوله: «محمد رسول الله والذین معه» (الفتح:92) وقوله: «والسابقون والأولون» وفی آی کثیرة.[19]
فینا سے حضرت عائشہ کی مراد حضرت ابوبکر کی اولاد ہے، کیونکہ حضرت ابوبکر کے بارے میں ثانی اثنین نازل ہوئی تھی ، [ جیسا کہ] محمد رسول اللہ والذین معہ ، والسابقون الاولون ۔۔۔۔۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اس روایت میں فینا سے مراد حضرت ابوبکر کی اولاد لے لیں تو اس صورت میں محمد رسول اللہ والذین معہ اور والسابقون الاولون والی آیات ، حضرت ابوبکر کی اولاد بشمول عائشہ کو شامل نہیں ہوگی ، جبکہ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ یہ آیات حضرت ابوبکر کی اولاد عائشہ سمیت کو شامل ہیں ،
پس بدر الدین عینی اور ابن حجر عسقلانی کا موقف مردود ہے،
دوسری روایت:
حدثنا إِبْرَاهِیمُ بن الْمُنْذِرِ قال حدثنا أَنَسُ بن عِیَاضٍ عن عُبَیْدِ اللَّهِ عن نَافِعٍ عن بن عُمَرَ قال لَمَّا قَدِمَ الْمُهَاجِرُونَ الْأَوَّلُونَ الْعُصْبَةَ مَوْضِعٌ بِقُبَاءٍ قبل مَقْدَمِ رسول اللَّهِ صلى الله علیه وسلم کان یَؤُمُّهُمْ سَالِمٌ مولى أبی حُذَیْفَةَ وکان أَکْثَرَهُمْ قُرْآنًا.[20]
ابن عمر کہتے ہیں کہ جب اولین مہاجرین [ہجرت کے دوران] رسول اللہ کے پہنچنے سے پہلے قبائ میں عصبہ نامی جگہ پر پہنچے تو ان کو سالم مولی ابی حذیفہ نماز پڑھایا کرتا تھا، اور سالم کو ان سب سے زیادہ قرآن پڑھنا آتا تھا،
اب سوال یہ ہے کہ سالم کے پیچھے کون کون نماز پڑھتا تھا، اس کا جواب بھی بخاری سے لیتے ہیں، روایت ہے کہ
حدثنا عُثْمَانُ بن صَالِحٍ حدثنا عبد اللَّهِ بن وَهْبٍ أخبرنی بن جُرَیْجٍ أَنَّ نَافِعًا أخبره أَنَّ بن عُمَرَ رضی الله عنهما أخبره قال کان سَالِمٌ مولى أبی حُذَیْفَةَ یَؤُمُّ الْمُهَاجِرِینَ الْأَوَّلِینَ وَأَصْحَابَ النبی صلى الله علیه وسلم فی مَسْجِدِ قُبَاءٍ فِیهِمْ أبو بَکْرٍ وَعُمَرُ وأبو سَلَمَةَ وَزَیْدٌ وَعَامِرُ بن رَبِیعَةَ.[21]
ابن عمر کہتے ہیں کہ سالم مولی ابی حذیفہ اولین مھاجرین اور نبی کے اصحاب کو مسجد قبائ میں نماز پڑھایا کرتا تھا کہ جن میں ابوبکر ، عمر ، ابوسلمہ ، زید اور عامر بن ربیعہ تھے،
ان دونوں روایتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہر کوئی باآسانی یہ نتیجہ لے سکتا ہے کہ اگر حضرت ابوبکر ھجرت میں رسول اللہ کے ساتھ تھے تو پھر وہ رسول کے آنے سے پہلے کیسے قبائ میں سالم کے پیچھے اپنے دیرینہ یار حضرت عمر کے ساتھ نمازیں پڑھتے رہے؟
مسند احمد بن حنبل سے روایت
قال: وکان الْمُشْرِکُونَ یَرْمُونَ رَسُولَ اللَّهِ (ص) فَجَاءَ أبو بَکْرٍ وعلی نَائِمٌ. قال: وأبو بَکْرٍ یَحْسَبُ أَنَّهُ نبیّ اللَّهِ قال: فقال: یا نبیّ اللَّهِ. قال: فقال له علی: إن نبیّ اللَّهِ (ص) قَدِ انْطَلَقَ نحو بِئْرِ مَیْمُونٍ.[22]
مشرکین رسول اللہ کو پتھر مارا کرتے تھے ، حضرت ابوبکر آئے اور حضرت علی ع سو رہے تھے حضرت ابوبکر نے یہ گمان کیا کہ سونے والا رسول اللہ ہیں ، کہا ، اے اللہ کے نبی، مولا علی ع نے جوابا کہا ، کہ اللہ کے نبی بئر میمون کی طرف گئے ہیں،
اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ھجرت کے لئے نکل پڑے تھے اور حضرت ابوبکر کو پتہ ہی نہیں تھا،
خادم اہل بیت علیہم السلام
سید ابوعماد حیدری
+9293149736712
[1] ابن تیمیه الحرانی، أحمد عبد الحلیم ابوالعباس ( 728 هـ)، منهاج السنة النبویة، ج 8، ص 472، تحقیق: د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولى، 1406هـ.
[2] العینی، بدر الدین ابومحمد محمود بن أحمد الغیتابی الحنفی ( 855هـ)، عمدة القاری شرح صحیح البخاری، عمدة القاری ج 16، ص 173، ناشر: دار إحیاء التراث العربی – بیروت.
[3] محمد الطاهر بن عاشور (1284هـ)، تفسیر التحریر والتنویر، ج 10، ص 96، ناشر: دار سحنون للنشر والتوزیع - تونس - 1997م.
[4] الرازی الشافعی، فخر الدین محمد بن عمر التمیمی (604هـ)، التفسیر الکبیر أو مفاتیح الغیب، التفسیر الکبیر ج 16، ص 52، ناشر: دار الکتب العلمیة - بیروت، الطبعة: الأولى، 1421هـ - 2000م.
[5] محمد رشید بن علی رضا بن محمد ( 1354هـ)، تفسیر المنار، ج 10، ص 369، ذیل آیه 40 سوره توبة، ناشر: الهیئة المصریة العامة للکتاب، 1990م.
[6] النیسابوری، مسلم بن الحجاج ابوالحسین القشیری (261هـ)، صحیح مسلم، ج 4، ص 2143، ح2779، کِتَاب صِفَاتِ الْمُنَافِقِینَ وَأَحْکَامِهِمْ، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی، ناشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت.
[7] البخاری الجعفی، محمد بن إسماعیل ابوعبدالله (256هـ)، صحیح البخاری، ج 3، ص 3418، تحقیق د. مصطفی دیب البغا، ناشر: دار ابن کثیر، الیمامة - بیروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987. البخاری الجعفی، محمد بن إسماعیل ابوعبدالله (256هـ)، صحیح البخاری، ج 3، ص 1336، ح3453، کتاب فضائل الصحابة، بَاب مَنَاقِبِ الْمُهَاجِرِینَ وَفَضْلِهِمْ منهم أبو بَکْرٍ، تحقیق د. مصطفی دیب البغا، ناشر: دار ابن کثیر، الیمامة - بیروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
[8] الهیثمی، ابوالحسن علی بن أبی بکر ( 807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج 6، ص 52، ناشر: دار الریان للتراث/ دار الکتاب العربی - القاهرة، بیروت – 1407هـ؛و الشوکانی، محمد بن علی بن محمد (1255هـ)، فتح القدیر الجامع بین فنی الروایة والدرایة من علم التفسیر، ج 2، ص 364، ناشر: دار الفکر – بیروت. العسقلانی الشافعی، أحمد بن علی بن حجر ابوالفضل (852 هـ)، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج 7، ص 11، تحقیق: محب الدین الخطیب، ناشر: دار المعرفة - بیروت.
[9] الرازی الشافعی، فخر الدین محمد بن عمر التمیمی (604هـ)، التفسیر الکبیر أو مفاتیح الغیب، ج 16، ص 51، ناشر: دار الکتب العلمیة - بیروت، الطبعة: الأولى، 1421هـ - 2000م. القمی النیسابوری، نظام الدین ( 728 هـ)، تفسیر غرائب القرآن ورغائب الفرقان، ج 3، ص 51، تحقیق: الشیخ زکریا عمیران، ناشر: دار الکتب العلمیة - بیروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1416هـ - 1996م.
[10] لفاکهی، محمد بن إسحاق بن العباس ابوعبد الله (275هـ)، أخبار مکة فی قدیم الدهر وحدیثه، ج 4، ص 81، تحقیق د. عبد الملک عبد الله دهیش، ناشر: دار خضر - بیروت، الطبعة: الثانیة، 1414هـ. العاصمی المکی، عبد الملک بن حسین بن عبد الملک الشافعی (1111هـ)، سمط النجوم العوالی فی أنباء الأوائل والتوالی، ج 1، ص 350، تحقیق: عادل أحمد عبد الموجود- علی محمد معوض، ناشر: دار الکتب العلمیة. ابن عساکر الدمشقی الشافعی، أبی القاسم علی بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(571هـ)، تاریخ مدینة دمشق وذکر فضلها وتسمیة من حلها من الأماثل، ج 30، ص 85، تحقیق: محب الدین أبی سعید عمر بن غرامة العمری، ناشر: دار الفکر - بیروت – 1995؛ السیوطی، جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر (911هـ)، الدر المنثور، ج 4، ص 199، ناشر: دار الفکر - بیروت – 1993؛ الهندی، علاء الدین علی المتقی بن حسام الدین (975هـ)، کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال، ج 16، ص 289، تحقیق: محمود عمر الدمیاطی، ناشر: دار الکتب العلمیة - بیروت، الطبعة: الأولى، 1419هـ - 1998م.
[11] المروزی، أبو بکر أحمد بن علی بن سعید الأموی (292هـ)، مسند أبی بکر الصدیق، ج 1، ص 142، تحقیق: شعیب الأرناؤوط، ناشر: المکتب الإسلامی - بیروت؛ ابن کثیر الدمشقی، إسماعیل بن عمر ابوالفداء القرشی (774هـ)، البدایة والنهایة، ج 3، ص 181، ناشر: مکتبة المعارف – بیروت.
[12] السمرقندی، نصر بن محمد بن أحمد ابواللیث (367 هـ)، تفسیر السمرقندی المسمی بحر العلوم، ج 2، ص 59، تحقیق: د. محمود مطرجی، ناشر: دار الفکر – بیروت؛ الذهبی، شمس الدین محمد بن أحمد بن عثمان، (748هـ)، تاریخ الإسلام ووفیات المشاهیر والأعلام، ج 1، ص 321، تحقیق د. عمر عبد السلام تدمرى، ناشر: دار الکتاب العربی - لبنان/ بیروت، الطبعة: الأولى، 1407هـ - 1987م؛ السیوطی، جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر (911هـ)، جامع الاحادیث (الجامع الصغیر وزوائده والجامع الکبیر)، ج 13، ص 35، طبق برنامه الجامع الکبیر؛ السیوطی، جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر (911هـ)، الدر المنثور، ج 4، ص 198، ناشر: دار الفکر - بیروت – 1993؛
الآلوسی البغدادی، العلامة أبی الفضل شهاب الدین السید محمود (1270هـ)، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی، ج 10، ص 98، ناشر: دار إحیاء التراث العربی – بیروت.
[13] الطوسی، الشیخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علی بن الحسن (460هـ)، التبیان فی تفسیر القرآن، ج 5، ص 223، تحقیق: تحقیق وتصحیح: أحمد حبیب قصیر العاملی، ناشر: مکتب الإعلام الإسلامی، الطبعة: الأولى، 1409هـ.
[14] مالک بن أنس أبو عبدالله الأصبحی (179هـ)، موطأ الإمام مالک، ج 2، ص 461، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی، ناشر: دار إحیاء التراث العربی – مصر؛ النمری القرطبی، أبو عمر یوسف بن عبد الله بن عبد البر ( 463هـ)، الاستذکار الجامع لمذاهب فقهاء الأمصار، ج 5، ص 104، تحقیق: سالم محمد عطا - محمد علی معوض، ناشر: دار الکتب العلمیة - بیروت، الطبعة: الأولى، 2000م؛ الجزری، المبارک بن محمد ابن الأثیر (544هـ)، معجم جامع الأصول فی أحادیث الرسول، ج 9، ص 510.
[15] طنطاوی، محمد سید، التفسیر الوسیط، ج 1، ص 1955، آیه 40 سوره توبه، برنامه المکتبة الشاملة.
[16] ابن کثیر الدمشقی، إسماعیل بن عمر ابوالفداء القرشی (774هـ)، تفسیر القرآن العظیم، ج 4، ص 155، ناشر: دار الفکر - بیروت – 1401هـ.
[17] طباطبایى، سید محمد حسین ( 1412هـ)، المیزان فى تفسیر القرآن، ج9، ص 280، ناشر: منشورات جماعة المدرسین فی الحوزة العلمیة فی قم المقدسة، الطبعة: الخامسة، 1417هـ.
[18] البخاری الجعفی، محمد بن إسماعیل ابوعبدالله (256هـ)، صحیح البخاری، ج 4، ص 1827، ح4550، کتاب التفسیر، بَاب «وَالَّذِی قال لِوَالِدَیْهِ أُفٍّ لَکُمَا...»، تحقیق د. مصطفی دیب البغا، ناشر: دار ابن کثیر، الیمامة - بیروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
[19] العینی، بدر الدین ابومحمد محمود بن أحمد الغیتابی الحنفی ( 855هـ)، عمدة القاری شرح صحیح البخاری، ج 19، ص 1827، ناشر: دار إحیاء التراث العربی – بیروت.
العسقلانی الشافعی، أحمد بن علی بن حجر ابوالفضل (852 هـ)، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج 8، ص 577، تحقیق: محب الدین الخطیب، ناشر: دار المعرفة - بیروت.
[20] البخاری الجعفی، محمد بن إسماعیل ابوعبدالله (256هـ)، صحیح البخاری، ج 1، ص 246، ح660، کتاب الْجَمَاعَةِ وَالْإِمَامَةِ، بَاب إِمَامَةِ الْعَبْدِ وَالْمَوْلَى، تحقیق د. مصطفی دیب البغا، ناشر: دار ابن کثیر، الیمامة - بیروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
[21] البخاری الجعفی، محمد بن إسماعیل ابوعبدالله (256هـ)، صحیح البخاری، ج 6، ص 2625، ح6754، بَاب اسْتِقْضَاءِ الْمَوَالِی وَاسْتِعْمَالِهِمْ، تحقیق د. مصطفی دیب البغا، ناشر: دار ابن کثیر، الیمامة - بیروت، الطبعة: الثالثة، 1407 – 1987
[22] الشیبانی، أحمد بن حنبل ابوعبدالله (241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج 1، ص 3053، ح3062، ناشر: مؤسسة قرطبة – مصر؛