سید ابوعماد حیدری

اہل سنت اور وھابیت کے شبھات کے جوابات، مذھب اہل بیت کی حقانیت ، کتب سے سکین پیجز

سید ابوعماد حیدری

اہل سنت اور وھابیت کے شبھات کے جوابات، مذھب اہل بیت کی حقانیت ، کتب سے سکین پیجز

آخرین نظرات

صحیح بخاری یا ضعیف بخاری؟

 

 

فیصلہ آپ کے اوپر !

 

سکین پیجز کے ساتھ!

 

سید ابوعماد حیدری

واٹس اپ نمبرز: پاکستان        923149736712+

ایران: 989365958155                                   +

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مصطفی ﷺ اور ان کی آل اطہار پر لاکھوں اور کروڑوں سلام

اس تحقیق  میں ہم اہل سنت کے سب سے معتبر ترین کتاب صحیح بخاری میں موجود ایسی روایات قارئین کی خدمت میں پیش کرینگے کہ جن کو پڑھ کر قارئین باآسانی یہ فیصلہ کرسکیں گے کہ یہ کتاب نہ فقط یہ کہ صحیح نہیں ہے بلکہ اس کتاب میں اسلام کے چہرے کو مسخ کرکے پیش کیا گیا ہے،

نبی کی احادیث کم اور صحابہ کی باتیں زیادہ:

اس کتاب کا نام جناب بخاری نے الجامع المسد الصحیح المختصر من امور رسول اللہ و سننہ و ایامہ رکھا ہے لیکن در حقیقت اس کتاب میں رسول اللہ سے مروی احادیث کم اور صحابہ کے آثار زیادہ ہیں ، اس بات کی تصدیق ہر وہ شخص بلاشک کرے گا کہ جس کی اس کتاب سے تھوڑی بہت آشنائی ہو،

بخاری میں ٹوٹل احادیث ۷۰۰۰ کم بیش ہیں اور صحیح بخاری کی شرح لکھنے والے ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ

فجمیع ما فی البخاری من المتون الموصولہ بلا تکرر علی التحریر الفا حدیث و ستماۃ حدیث و حدیثان

بخاری میں بغیر تکرار کے احادیث ۲۷۰۲ ہیں،

ھدی الساری مقدمۃ الباری فی شرح البخاری ج ۱ ص ۶۶۸

 

رسول اللہ ﷺ کو غیر معصوم پیش کرنا اور رسول کی توھین:

حدثنا محمد بن عبید بن میمون أخبرنا عیسى بن یونس عن هشام عن أبیه عن عائشة رضی الله عنها قالت

 : سمع النبی صلى الله علیه و سلم رجلا یقرأ فی المسجد فقال ( رحمه الله لقد أذکرنی کذا وکذا آیة أسقطتهن من سورة کذا وکذا )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاحب کو رات کے وقت ایک سورت پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے، اس نے مجھے فلاں آیتیں یاد دلا دیں جو مجھے فلاں فلاں سورتوں میں سے بھلا دی گئی تھیں۔

 

اسی طرح یہ بھی نقل ہے کہ رسول اللہ نے ظہرین کی نماز کو ۲ رکعت پڑھائی ہے

 

«عن ابیهریرة قال: صلّی بِنا النبیُّ(ص) الظهرَ و العصرَ، فسلّمَ، فقال له ذوالیدین: الصلاةُ یا رسولَ الله أنقَصَتْ؟ فقالَ النبی(ص) لِأصحابه: أحَقٌّ ما یقولُ؟ قالوا: نعم، فَصلّی رکْعتین اُخْرتین ثمّ سَجَد سَجْدتین»

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو ذوالیدین کہنے لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا نماز کی رکعتیں کم ہو گئی ہیں؟ ( کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھول کر صرف دو رکعتوں پر سلام پھیر دیا تھا ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے دریافت کیا کہ کیا یہ سچ کہتے ہیں؟ صحابہ نے کہا جی ہاں، اس نے صحیح کہا ہے۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت اور پڑھائیں پھر دو سجدے کئے۔

 

 

اور یہ بھی نقل ہے کہ

رسول اللہ نے نماز ظہر کو پانچ رکعت پڑھائی ہے

 

«عن عبدالله قال: صَلّی بنا النّبیُ(ص) الظهرَ خمساً، فقیل: أزید فی الصلاه؟ قال: و ما ذاک؟‌ قالوا:‌ صلّیتَ خمساً، فسَجَد بعد ما سَلّم».

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ظہر کی پانچ رکعت نماز پڑھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کیا نماز ( کی رکعتوں ) میں کچھ بڑھ گیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ صحابہ نے کہا کہ آپ نے پانچ رکعت نماز پڑھائی ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کے بعد دو سجدے ( سہو کے ) کئے۔

 

 

 

اسی طرح ایک اور حدیث میں سھو نبی کے موضوع کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔

عبد اللہ بن عمر کہتا ہے کہ نبی نے غلط نماز پڑھائی تو نماز کے بعد ہم نے غلطی کی طرف متوجہ کیا تو نبی نے کہا،

«... إنما أنا بشرٌ مِثلُکم، أنْسی کما تَنْسَونَ، فإذا نَسیتُ فذَکِّرونی...».

میں تو تمہارے ہی جیسا آدمی ہوں، جس طرح تم بھولتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں۔ اس لیے جب میں بھول جایا کروں تو تم مجھے یاد دلایا کرو اور اگر کسی کو نماز میں شک ہو جائے تو اس وقت ٹھیک بات سوچ لے اور اسی کے مطابق نماز پوری کرے پھر سلام پھیر کر دو سجدے ( سہو کے ) کر لے۔

 

 

 

صحیح بخاری میں رسول اللہ کے بارے میں بہت ایسا کچھ ذکر ہے کہ قلم لکھنے سے شرمندہ ہے البتہ ہم نے فقط اس جہت سے نقل کرنا ہے تاکہ ہمارا دعوا بغیر دلیل نہ رہے [ نقل کفر کفر نباشد]

 

مثلا بخاری میں کچھ روایات ہیں کہ جو رسول اللہ کو العیاذ باللہ شہوت ران بیان کیا ہے، جیسے

«عن قتادة: أنّ أنَس بن مالک حدّثَهم: أن نبیّ الله(ص) کان یطوفُ علی نسائِه فی اللیلةِ الواحدة، و لَه یومئذٍ تسع نِسوة!»

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام ازواج کے پاس ایک ہی رات میں تشریف لے گئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواج میں نو بیویاں تھیں۔

 

یا اسی طرح ابن عباس سے نقل ہے کہ رسول اللہ نے احرام کی حالت میں شادی کی ہے ،

«حدثنا جابرُ بنُ زید قال: أنْبأنا ابنُ عباس: تزوّجَ النبیّ(ص) و هو مُحرِم».

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( میمونہ رضی اللہ عنہا سے ) نکاح کیا اور اس وقت آپ احرام باندھے ہوئے تھے۔

یا وہ روایات کہ جس میں یہ ملتا ہے کہ رسول اللہ ، عائشہ کو اس کی خوبصورتی کی وجہ سے باقی بیویوں سے زیادہ چاھتے تھے ،

«سَمِعَ ابنُ عباس عن عمرَ دخل علی حفصةَ فقال: یا بنیّةَ لا یَغُرّنکِ هذه التی أعجَبَها حُسنُها حبُّ رسولِ الله(ص) ایّاها. یُرید عایشةَ، فقَصَصْتُ علی رسولِ الله(ص) فتَبَسّمَ».

بیٹی اپنی اس سوکن کو دیکھ کر دھوکے میں نہ آ جانا جسے اپنے حسن پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر ناز ہے۔ آپ کا اشارہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف تھا ( عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ) کہ پھر میں نے یہی بات آپ کے سامنے دہرائی آپ مسکرا دیئے۔

 

اسی طرح عائشہ اور باقی ازواج سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ نے اپنی ازواج کے ساتھ حالت حیض میں بھی جماع کیا ہے، العیاذ باللہ 

«عن عایشةَ قالتْ: کانتْ إحدانا إذا کانتْ حائضاً فأرادَ أن یُباشرَها، أمَرَها أنْ تتّزِرَ فی فورِ حیْضتِها، ثُمّ یُباشِرُها»

 

آپ نے فرمایا ہم ازواج میں سے کوئی جب حائضہ ہوتی، اس حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر مباشرت کا ارادہ کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازار باندھنے کا حکم دے دیتے باوجود حیض کی زیادتی کے۔ پھر بدن سے بدن ملاتے،

 

 

اس روایت کا سکین پیج اگلے صفحے میں ملاحظہ فرمائیں

 

 

البتہ عجیب بات یہ ہے رحمت اور اسوہ اخلاق والے رسول اللہ کے بارے میں ایسی باتیں ذکر کی ہیں اور اس کے مقابلے میں حضرت ابوبکر و عمر کی تقدیس اور پاکدامنی کو بیان کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے،

مثال کے طور پر ، متعدد روایات میں بخاری نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ کے گھر میں لڑکیاں آواز سے کچھ پڑھتی رہتی تھی ایک دن ابوبکر رسول کے گھر داخل ہوا تو وہ سخت ناراض ہوئے اور لڑکیوں کو اس کام سے روکنا چاھا لیکن رسول نے ابوبکر کو منع کیا ، پھر عائشہ کہتی ہے کہ ابوبکر کہیں اور متوجہ ہوا تو میں نے ان دو لڑکیوں کی طرف اشارہ کیا کہ وہ گھر سے نکل جائیں،

«عن عایشةَ قالتْ: دخل علی رسولِ الله(ص) و عندی جاریتان تغنّیان بِغِناءِ بُغاث، فاضطَجعَ علی الفِراش و حَوَّل وجهَه، فدخلَ ابوبکر فانتهَرَنی و قال: مِزمارَةُ الشیطان عندَ رسول الله؟ فاقبَلَ علیه رسولُ الله (ص) فقال:‌ دعْهُما. فلمّا غَفل غَمَزْتُهما فَخرَجَتا».

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے تو دو لڑکیاں میرے پاس جنگ بعاث کے گیت گا رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بستر پر لیٹ گئے اور چہرہ مبارک دوسری طرف کر لیا اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ آ گئے اور آپ نے مجھے ڈانٹا کہ یہ شیطانی گانا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں! لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ انہیں گانے دو، پھر جب ابوبکر دوسری طرف متوجہ ہو گئے تو میں نے ان لڑکیوں کو اشارہ کیا اور وہ چلی گئیں۔

 

 

ایک اور مضحکہ خیز موضوع ہے جو بخاری سمیت اہل سنت کے بہت ساری کتابوں میں بنام موفقات عمر زیر تحریر لایا گیا ہے وہ یہ کہ دوسرے خلیفہ کے لئے فضیلت کی ساختگی کے لئے من گھڑت واقعات کو اس کتاب میں مرقوم کیا گیا ہے، وہ یہ کہ اگر چہ وحی کا انحصار رسول کریم تھے لیکن اللہ نے حضرت عمر کے رائے کے مطابق قرآن کے آیات نازل کی ہیں

بطور مثال ،

«عن عبدالله بن عمر قال:‌ لما تَوفّی عبدُالله بنِ اُبَیّ، جاءَ ابنُه إلی رسول الله(ص) فقال: یا رسولَ الله، إعطنی قمیصَک اُکَفّنَه فیه و صلِّ علیه و استَغفِر له، ... فجاءَ لِیُصلّیَ علیه، فَجَذَبَه عمرُ فقال:‌ أ لیسَ قد نَهاکَ الله أن تُصلّی علی المنافقین؟ ... فنزلت «وَ لا تُصَلّ علی أحَدٍ مِنهم ماتَ أبداً» فَتَرکَ الصلاةَ علیهم».

جب عبداللہ بن ابی کی وفات ہوئی تو اس کے لڑکے ( عبداللہ ) جو مخلص اور اکابر صحابہ میں تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اپنی قمیص مجھے عطا فرمایئے تاکہ میں اپنے باپ کو اس کا کفن دوں اور آپ ان کی نماز جنازہ پڑھا دیں اور ان کے لیے دعائے مغفرت کریں ۔۔۔۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تاکہ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں لیکن عمر نے آپ کو پکڑ لیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین پر نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں فرمایا ہے؟ ۔۔۔۔پھر یہ آیت نازل ہوئی «ولا تصل على أحد منهم مات أبدا‏» کہ ”اور ان میں سے کسی پر بھی جو مر گیا ہو ہرگز نماز نہ پڑھئیے۔“ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھنی چھوڑ دی۔

 

اس نامعقول روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عمر کو رسول اللہ سے زیادہ اطلاع اور معلومات تھے ، اللہ نے عمر کی باتوں کی تایید کی ہے اور اپنے رسول کے عمل کو غلط اور مورد نہی قرار دیا ہے،

و... .

 

باقی پیغمبروں کی توھین:

مثال کے طور پر ، وہ روایت کہ جس میں اولو العزم انبیا کو اللہ کے غضب کے مصداق ٹھہرائے ہیں،

جس میں قیامت کے بارے میں بیان ہے کہ

بعض لوگ بعض سے کہیں گے کہ آدم علیہ السلام کے پاس چلنا چاہئے۔ چنانچہ سب لوگ آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے آپ انسانوں کے پردادا ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی طرف سے خصوصیت کے ساتھ آپ میں روح پھونکی۔ فرشتوں کو حکم دیا اور انہوں نے آپ کو سجدہ کیا اس لیے آپ رب کے حضور میں ہماری شفاعت کر دیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حال کو پہنچ چکے ہیں۔

 آدم علیہ السلام کہیں گے کہ

«إنّ ربّی قد غَضِب الیومَ غضْباً لم یغضَبْ قبلَه مثلَه و لنْ یغْضَب بعدَه مثلَه و إنّه نَهانی عن الشجرة فعصیْتُه، نفْسی نفسی نفسی، إذهبوا الی غیری، إذهبوا الی نوحٍ»

میرا رب آج انتہائی غضبناک ہے۔ اس سے پہلے اتنا غضبناک وہ کبھی نہیں ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضب ناک ہو گا اور رب العزت نے مجھے بھی درخت سے روکا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی، پس نفسی، نفسی، نفسی مجھ کو اپنی فکر ہے تم کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔

پھر سب لوگ حضرت نوح کے پاس جائینگے تو حضرت نوح بھی اسی جملے کا تکرار کرکے حضرت ابراھیم کے پاس جانے کو کہیں گے  پھر وہ حضرت موسی پھر حضرت عیسی، الغرض سب یہی جملہ کہیں گے کہ

«إنّ ربّی قد غَضِبَ الیومَ غضباً لم یغضَب قبلَه مثلَه...»

آج میرا رب بہت غضبناک ہے؟ اتنا غضبناک نہ وہ پہلے ہوا تھا اور نہ آج کے بعد ہو گا۔

 

اسی روایت میں ہے کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے تین جھوٹ بولے تھے العیاذ باللہ

 

 

اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کی بھی توھین کی ہے کہ جو اگے احادیث نامعقول میں آپ قارئین مطالعہ فرمائیں گے،

 

حضرت موسی علیہ السلام کی توھین:

زینت الماری صحیح بخاری نے تو حضرت موسی علیہ السلام کی وہ توہین کی ہے کہ اگر آج اس دور میں وہ یہ توہین کرتے تو ضرور اس پر توہین انبیائ کا کیس بنتا اور پھانسی ہوتا مگر افسوس، اہل سنت نے اس جیسی من گھڑت روایت کے لکھنے والے کو اپنا امام اور اس کی کتاب کو قرآن کے ہم پلہ قرار دیا ہے ،

روایت کچھ یوں ہے کہ

حدثنا إسحق بن نصر قال حدثنا عبد الرزاق عن معمر عن همام بن منبه عن أبی هریرة عن النبی صلى الله علیه و سلم قال

 : ( کانت بنو إسرائیل یغتسلون عراة ینظر بعضهم إلى بعض وکان موسى یغتسل وحده فقالوا والله ما یمنع موسى أن یغتسل معنا إلا أنه آدر فذهب مرة یغتسل فوضع ثوبه على حجر ففر الحجر بثوبه فخرج موسى فی إثره یقول ثوبی یا حجر حتى نظرت بنو إسرائیل إلى موسى فقالوا والله ما بموسى من بأس وأخذ ثوبه فطفق بالحجر ضربا ) . فقال أبو هریرة والله إنه لندب بالحجر ستة أو سبعة ضربا بالحجر

 

بنی اسرائیل ننگے ہوکر اس طرح نہاتے تھے کہ ایک شخص دوسرے کو دیکھتا لیکن موسی علیہ السلام تنہا پردہ سے غسل فرماتے اس پر انہوں نے کہا کہ بخدا موسی کو ہمارے ساتھ غسل کرنے میں صرف یہ چیز مانع ہے کہ آپ کے خصیے بڑھے ہوئے ہیں۔ ایک مرتبہ موسی علیہ السلام غسل کرنے لگے اور آپ نے کپڑوں کو ایک پتھر پر رکھ دیا اتنے میں پتھر کپڑوں کو لے کر بھاگا ۔ اور موسی علیہ السلام بھی اس کے پیچھے بڑی تیزی سے دوڑے ، آپ کہتے جاتے تھے ۔ اے پتھر میرا کپڑا دے اےپتھر میرا کپڑا دے۔ اس عرصہ میں بنی اسرائیل نے موسی علیہ السلام کو ننگا دیکھ لیا اور کہنے لگے کہ بخدا موسی کو کوئی بیماری نہیں اور موسی علیہ السلام نے کپڑا لیا اور پتھر کو مارنے لگے ، ابوہریرہ نے کہا کہ بخدا اس پتھر پر چھ یا سات مار کے نشان باقی ہیں۔

 

 

 

کیا اس روایت میں حضرت موسی علیہ السلام کی صراحتا توھین نہیں ہے ، اللہ کے رسولوں کا جس کتاب میں مذاق اڑایا گیا ہو وہ کتاب کیسے صحیح ترین کتاب ہوسکتی ہے،

 

اللہ کے جسم کے قائل ہونا:

قرآنی تعلیمات اور عقلی قوائد کے مطابق اللہ جسم نہیں رکھتا اور کسی خاص مکان میں محدود نہیں اور ان ظاہری آنکھوں سے دیکھا نہیں جاتا ،

مگر واہ بخاری واہ ،،، اللہ کو بھی نہیں چھوڑا

 

«عن جُریر قال: کُنّا عندَ النبیّ(ص)، اذ نظرَ الی القمرِ لیلةَ البدر، فقال: أما انّکم سَتَرونََ ربَّکم کما تَرونَ هذا...».

 

ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کی طرف نظر اٹھائی جو چودھویں رات کا تھا۔ پھر فرمایا کہ تم لوگ بے ٹوک اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔۔۔۔۔

 

۱۱۴۵- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِکٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِی سَلَمَةَ، وَأَبِی عَبْدِ اللَّهِ الأَغَرِّ، عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالَى کُلَّ لَیْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْیَا حِینَ یَبْقَى ثُلُثُ اللَّیْلِ الآخِرُ یَقُولُ: مَنْ یَدْعُونِی، فَأَسْتَجِیبَ لَهُ مَنْ یَسْأَلُنِی فَأُعْطِیَهُ، مَنْ یَسْتَغْفِرُنِی فَأَغْفِرَ لَهُ .

 

 

 

ابو هریره روایت کرتا ہے  که پیامبر اسلام نے فرمایا کہ ہمارا پیروردگار ہرشب آخری تہائی حصہ میں آسمان دنیا پر آتا ہے،

 

 

اسی طرح اہل سنت کے اس صحیح ترین کتاب نے اللہ کو جہنم تک پہنچایا ہے یہ روایت ملاحظہ کریں،

حدثنا آدم حدثنا شیبان حدثنا قتادة عن أنس بن مالک

 : قال النبی صلى الله علیه و سلم ( لا تزال جهنم تقول هل من مزید حتى یضع رب العزة فیها قدمه فتقول قط قط وعزتک ویزوى بعضها إلى بعض )

نبی اکرم نے فرمایا کہ جہنم یہی کہتی رہے گی کہ کیا کچھ اور ہے کیا کچھ اور ہے، آخر اللہ تعالی اپنا قدم اس میں رکھ دے گا۔

 

نامعقول روایات کا ذکر:

«عن أبی‏هریرة عن النبی(ص) قال: خَلََق اللهُ آدمَ و طولُه ستّونَ ذراعاً...».

”اللہ پاک نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو ان کو ساٹھ ہاتھ لمبا بنایا۔

 

اسی طرح بخاری نے حضرت سلیمان کے بارے میں وہ بات لکھی ہے کہ جس کو نقل کرنا بھی شرمندگی قلم کا باعث ہے مگر ہم نقل کرنے پر مجبور ہیں تاکہ اپنا مدعی ثابت کریں

وہ روایت کرتا ہے کہ

«عن ابیهریرةَ قال: قال سلیمانُ بنُ داوود علیهما‏السلام: لَأطُوفَنَّ اللیلةَ بِمأةِ إمرأة، تَلِدُ کلُّ إمرأةٍ غلاماً یُقاتل فی سبیل الله. فقال له الملَکُ: قُل إن شاءَ الله، فَلَم یَقُل و نَسِی، فأطافَ بِهنّ، و لم تَلِد مِنهنّ إلا إمرأةٌ نِصفَ انسانٍ».

 

سلیمان بن داؤد علیہاالسلام نے فرمایا کہ آج رات میں اپنی سو بیویوں کے پاس ہو آؤں گا ( اور اس قربت کے نتیجہ میں ) ہر عورت ایک لڑکا جنے گی تو سو لڑکے ایسے پیدا ہوں گے جو اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے۔ فرشتہ نے ان سے کہا کہ ان شاءاللہ کہہ لیجئے لیکن انہوں نے نہیں کہا اور بھول گئے۔ چنانچہ آپ تمام بیویوں کے پاس گئے لیکن ایک کے سوا کسی کے بھی بچہ پیدا نہ ہوا اور اس ایک کے یہاں بھی آدھا بچہ پیدا ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ان شاءاللہ کہہ لیتے تو ان کی مراد بر آتی اور ان کی خواہش پوری ہونے کی امید زیادہ ہوتی۔

 

 

بخاری نے اپنے آپ سے روایت نقل کی ہے۔

یہ تو انتہائی ہی مضحکہ خیز ہے کہ خود روایت نقل کرنے والا اپنے آپ سے روایت نقل کرے ،جیسا کہ جناب بخاری نے یہ کام بھی انجام دیا ہے،

"حدثنا محمد بن سلام: حدثنا محمد بن الحسن الواسطی، عن عوف، عن الحسن قال: لا بأس بالقرائه علی العالم. و اخبرنا محمد بن یوسف الفربری و حدثنا محمد بن اسماعیل البخاری قال: حدثنا عبیدالله بن موسی، عن سفیان، قال: إذا قرئ علی المحدث فلا بأس أن تقول: حدثنی. قال: و سمعت ابا عاصم یقول عن مالک و سفیان: القرائه علی العالم و قرائته سواء."

جناب بخاری کہتے ہیں کہ ہمیں یہ حدیث جناب بخاری نے نقل کی ہے،

اس روایت میں بخاری نے اپنے آپ سے روایت کی ہے ،

یہ روایت دلیل ہے کہ یا تو جناب بخاری علم حدیث سے نااشنا تھے یا بعد والے لوگوں کے ہاتھوں یہ کتاب تحریف شدہ ہے ،

 

 

 

بخاری کی اہل بیت سے دشمنی:

بخاری نے ابوہریرہ سے کہ جو دو یا تین سال رسول کا صحابی رہا ہے، ۴۴۶ احادیث نقل کی ہیں ، عبد اللہ بن عمر سے ۲۷۰ روایات ، عائشہ سے ۲۴۲ روایات، ابوموسی اشعری سے ۵۷ روایات اور انس بن مالک سے ۲۰۰ سے زیادہ روایات نقل کی ہیں جبکہ

مولا علی علیہ السلام کہ جو شہر علم کا دروازہ ہے سے فقط ۱۹ روایات اور بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے صرف ایک روایت نقل کی ہے، جبکہ امام حسن علیہ السلام ، زید بن علی ، امام صادق علیہ السلام ، امام موسی کاظم علیہ السلام ، امام علی رضا علیہ السلام ، امام محمد تقی جواد علیہ السلام ، امام علی نقی ھادی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام [ موخر الذکر تین امام بخاری کے ہم عصر بھی تھے] سے کوئی ایک حدیث بھی نقل نہیں کی ہے۔

اسی لئے بعض غیر متعصب علما اہل سنت کا نظریہ ہے کہ بخاری ناصبیت کی لعنت سے بری نہیں تھا،

 

بخاری میں اسرائیلیات:

 

قال رسول الله (ص) :

 

« لا تخیرونی علی موسی؛ فانّ الناس یصعقون یوم القیامه فاکون اول من یفیق.... فلاادری أکان موسی فیمن صعق فأفاق قبلی او کان ممن استثنی الله.»

رسول اللہ نے فرمایاکہ

مجھے موسی علیہ السلام پر ترجیح نہ دو ۔ لوگ قیامت کے دن بے ہوش کردئیے جائیں گے ، بے ہوشی سے ہوش میں آنے والا سب سے پہلا شخص میں ہوں گا، اب مجھے پتہ نہیں کہ موسی بھی بے ہوش ہونے والوں میں سے ہونگے یا اللہ نے ان کو بے ہوشی سے مستثنی لوگوں میں قرار دیا ہے،

 

اس روایت کے مطابق حضرت موسی ہمارے نبی سے افضل ہے۔

 

 

اسی طرح بارہ مقامت پر بخاری نے لکھا ہے کہ کوئی رسول اللہ کو حضرت یونس علیہ السلام سے بہتر نہ مانے،

« لا ینبغی لعبد أن یقول: انا خیرٌ من یونس بن متی»

ملاحظہ فرمائیں۔

کسی شخص کو یوں نہ کہنا چاہئے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں۔ حدیث نمبر ۳۳۹۵

 

یہ روایت مندرجہ ذیل عبارات کے ساتھ کئی مقامات پر ذکر ہے،

  • کوئی شخص میرے متعلق یہ نہ کہے کہ میں یونس علیہ السلام سے بہتر ہوں۔ حدیث نمبر ۳۴۱۲
  • کسی شخص کے لیے مناسب نہیں کہ مجھے یونس بن متی سے بہتر قرار دے۔ حدیث نمبر ۳۴۱۳
  • اور میں تو یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ کوئی شخص یونس بن متی سے بہتر ہے ۔ حدیث نمبر ۳۴۱۵
  • کسی کے لئے یہ کہنا لائق نہیں کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں ۔ حدیث نمبر ۳۴۱۶
  • کسی کے لئے مناسب نہیں کہ مجھے یونس بن متی سے بہتر قرار دے ۔ حدیث نمبر ۴۶۰۳

اور حدیث نمبر ۴۶۰۴، ۴۶۳۰، ۴۶۳۱،۴۸۰۴، ۴۸۰۵، ۷۵۳۹ میں بھی بالکل یہ مطلب بیان ہے،

 

پس اہل سنت کے صحیح ترین کتاب کے مطابق رسول اللہ کو حضرت یونس علیہ السلام سے افضل اور بہتر ماننا جائز نہیں ،

حالانکہ مسلمانوں کے تمام فرقے اس بات پر متفق ہے کہ نبی اکرم ﷺ تمام انبیائ سے افضل ہیں اور ان کے سردار ہیں۔

وما علینا الا البلاغ

 

موافقین ۰ مخالفین ۰ 20/03/11

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی