صحیح بخاری میں ناصبی راوی
صحیح بخاری میں ناصبی راوی
مولا علی علیہ السلام سے بغض و کینہ رکھنے والے وہ راوی جن سے جناب بخاری نے روایات لی ہیں۔
سید ابوعماد حیدری
واٹس اپ نمبرز
989365958155+
+923149736712
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درود و سلام ہو محمد مصطفی اور ان کی پاک آل پر
محترم قارئین کرام
ہم اہل سنت کے معتبر ترین کتاب صحیح بخاری کے ان راویوں کے نام اس مختصر سی تحقیق میں پیش کررہے ہیں کہ جن کی ناصبیت اور خارجیت پر اہل سنت کے بڑے بڑے علمائ نے اقرار کیا ہے،
حریز بن عثمان
جناب بخاری نے اس راوی سے کتاب المناقب باب صفۃ النبی میں روایت لی ہے،
3353 - حدثنا عصام بن خالد حدثنا حریز بن عثمان۔۔۔۔۔۔۔۔[1]
حریز بن عثمان کے بارے میں ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ
حریز صحیح الحدیث إلا أنه یحمل على علی....
حریز مولا علی سے بغض کرتا تھا
وقال عمرو بن علی کان ینتقص علیا وینال منه
عمرو بن علی نے کہا کہ حریز مولا علی کی عیب جوئی کرتا تھا اور ان سے نفرت کرتا تھا
ثبت شدید التحامل على علی
حریز شدید قسم کی دشمنی رکھتا تھا مولا علی
کان حریز یقول لا أحب علیا قتل آبائی
حریز کہا کرتا تھا کہ میں علی سے محبت نہیں کرتا کیونکہ اس نے میرے ابا و اجداد کو قتل کیا ہے۔
وقال غنجار قیل لیحیى بن صالح لم لم تکتب عن حریز فقال کیف اکتب عن رجل صلیت معه الفجر سبع سنین فکان لا یخرج من المسجد حتى یلعن علیا سبعین مرة
غنجار کہتا ہے کہ یحیی بن صالح سے پوچھا گیا کہ تم حریز سے روایت کیوں نقل نہیں کرتے تو یحیی بن صالح نے کہا کہ میں کیسے اس شخص سے روایات نقل کروں کہ جس کے ساتھ میں سات سال فجر کی نماز پڑھی ہے وہ اس وقت تک مسجد سے نہیں نکلتا تھا جب تک علی پر ستر دفعہ لعنت نہ کرتا،
وقال بن حبان کان یلعن علیا بالغداة سبعین مرة وبالعشی سبعین مرة فقیل له فی ذلک فقال هو القاطع رؤوس آبائی وأجدادی وکان داعیة إلى مذهبه[2]
ابن حبان کہتا ہے کہ حریز مولا علی پر صبح بھی ستر دفعہ لعنت کرتا تھا اور رات کو بھی ستر دفعہ لعنت کرتا تھا، اس سے پوچھا گیا کہ تم یہ لعنت کیوں کرتے ہو تو اس نے جواب دیا کہ علی میرے اباواجداد کو قتل کرنے والا ہے اور لوگوں کو اپنے مذھب کی طرف بلانے والا ہے،
اگر کوئی کہے کہ ناصبی ہو تو اس کی ثقہ ہونے سے منافات نہیں رکھتا ،
جواب یہ ہے کہ عجیب بات ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام جیسے شخص سے کوئی روایت نہ لی جائے اور جاکر علی علیہ السلام کو گالیاں دینے والوں سے روایات لی جائیں۔
عمران بن حطان:
عمران بن حطان سے بخاری کی روایات
5497 - حدثنی محمد بن بشار حدثنا عثمان بن عمر حدثنا علی بن المبارک عن یحیى بن أبی کثیر عن عمران بن حطان قال سألت عائشة[3].......
5608 - حدثنا معاذ بن فضالة حدثنا هشام عن یحیى عن عمران بن حطان أن عائشة رضی الله عنها حدثته[4].........
عمران بن حطان تو وہ راوی ہے کہ جس نے مولا علی علیہ السلام کے قاتل ابن ملجم ملعون کی شان میں ایک قصیدہ کہا ہے کہ اہل سنت کے مشہور و معروف عالم دین علامہ شمس الدین ذھبی لکھتے ہیں کہ
وفی ابن ملجم یقول عمران بن حطان الخارجی.
یا ضربة من تقى ما أراد بها .......... إلا لیبلغ من ذی العرش رضوانا
کیا تقوی کی وہ ضربت تھی کہ جس کی وجہ سے صاحب عرش [خدا] اس سے [ ابن ملجم] سے راضی ہوا
إنی لأذکره حیناً فأحسبه .......... أوفى البریة عند الله میزانا[5]
جب میں ابن ملجم کو یاد کرتا ہوں تو اس کو اللہ کی مخلوفات میں سب سے وفادار ترین شخص تصور کرتا ہوں،
اسحاق بن سوید
1813 - حدثنا مسدد حدثنا معتمر قال سمعت إسحق عن عبد الرحمن بن أبی بکرة عن أبیه عن النبی صلى الله علیه و سلم[6].....
وکان یحمل على علی ......وقال أبو العرب الصقلی فی الضعفاء کان یحمل على علی تحاملا شدیدا وقال لا أحب علیا[7]
اسحاق بن سوید مولا علی سے دشمنی کرتا تھا ۔۔۔۔ ابوالعرب الصیقلی نے اس کو ضعیف راوی کہا ہے، یہ مولا علی سے سخت ترین دشمنی رکھتا تھا اور کہتا تھا کہ میں علی سے محبت نہیں کرتا،
ثور بن یزید
2766 - حدثنی إسحاق بن یزید الدمشقی حدثنا یحیى بن حمزة قال حدثنی ثور بن یزید عن خالد بن معدان أن عمیر بن الأسود العنسی[8]......
5143 - حدثنا أبو عاصم عن ثور بن یزید عن خالد بن معدان عن أبی أمامة[9].......
علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ
وکان جده قتل یوم صفین مع معاویة فکان ثور إذا ذکر علیا قال لا أحب رجلا قتل جدی.[10]
ثور بن یزید کا دادا جنگ صفین میں معاویہ کے لشکر میں قتل ہوا تھا [ مولا علی کے ہاتھوں] ۔ ثور بن یزید جب بھی علی کا تذکرہ کرتا تو کہتا کہ میں اس شخص سے محبت نہیں کرتا جس نے میرے دادا کو قتل کیا ہے،
حصین بن نمیر واسطی
3229 - حدثنا مسدد حدثنا حصین بن نمیر عن حصین بن عبد الرحمن عن سعید بن جبیر عن ابن عباس رضی الله عنهما قال[11]
5420 - حدثنا مسدد حدثنا حصین بن نمیر عن حصین بن عبد الرحمن عن سعید بن جبیر عن ابن عباس رضی الله عنهما قال[12]
علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ
قال أتیته فإذا هو یحمل على علی فلم أعد إلیه[13]
راوی کہتا ہے کہ میں حصین بن نمیر کے پاس گیا دیکھا کہ وہ مولا علی کی عیب جوئی کررہا تھا پھر میں نے اس کے پاس جانا چھوڑ دیا
زیاد بن علاقہ
58 - حدثنا أبو النعمان قال حدثنا أبو عوانة عن زیاد بن علاقة قال سمعت جریر بن عبد الله یقول یوم مات المغیرة بن شعبة قام[14].....
996 - حدثنا عبد الله بنن محمد قال حدثنا هاشم بن القاسم قال حدثنا شیبان أبو معاویة عن زیاد بن علاقة عن المغیرة بن شعبة قال[15].....
2565 - حدثنا أبو نعیم حدثنا سفیان عن زیاد بن علاقة قال سمعت جریرا رضی الله عنه یقول[16].......
علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ
وقال الأزدی سیء المذهب کان منحرفا عن أهل بیت النبی صلى الله علیه وآله وسلم[17]
ازدی نے کہا کہ اس کا مذھب فاسد تھا، یہ نبی کے اہل بیت سے منحرف تھا،
زیاد بن جبیر
1627 - حدثنا عبد الله بن مسلمة حدثنا یزید بن زریع عن یونس عن زیاد بن جبیر قال[18]......
1892 - حدثنا محمد بن المثنى حدثنا معاذ أخبرنا ابن عون عن زیاد بن جبیر قال[19]......
6328 - حدثنا عبد الله بن مسلمة حدثنا یزید بن زریع عن یونس عن زیاد بن جبیر قال[20].......
علامہ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ
کان زیاد بن جبیر یقع فی الحسن والحسین[21]
زیاد بن جبیر امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کی عیب جوئی اور بدگوئی کرتا تھا،
سائب بن فروخ ابوالعباس الشاعر
1876 - حدثنا عمرو بن علی أخبرنا أبو عاصم عن ابن جریج سمعت عطاء أن أبا العباس الشاعر أخبره[22]
اہل سنت عالم یاقوت حموی اپنی کتاب معجم الادبائ میں لکھتے ہیں کہ
وکان منحرفاً عن آل أبی طالبٍ مائلاً إلى بنی أمیة مادحاً لهم،[23]
ابوالعباس الشاعر آل ابی طالب سے منحرف تھا اور بنی امیہ کی طرف مائل تھا اور بنی امیہ کی تعریفیں کرنے والا تھا،
قیس بن ابی حازم
57 - حدثنا مسدد قال حدثنا یحیى عن إسماعیل قال حدثنی قیس بن أبی حازم عن جریر بن عبد الله قال [24].....
علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ
کان یحمل على علی[25]
قیس بن ابی حازم مولا علی کی دشمنی کرتا تھا
ابوھریرہ
یہ وہ راوی ہے کہ جس سے جناب بخاری نے سینکڑوں روایات لی ہیں،
اہل سنت عالم ابن ابی الحدید المعتزلی لکھتے ہیں کہ
أن معاویة وضع قوما من الصحابة وقوما من التابعین على روایة أخبار قبیحة فی علی ع تقتضی الطعن فیه والبراءة منه .....منهم أبو هریرة[26]
معاویہ نے صحابہ اور تابعین میں کچھ لوگوں کو مقرر کیا تاکہ وہ لوگ مولا علی کے بارے میں قبیح اخبار کو وضع کرے کہ جس کا تقاضا مولا علی پر طعن ہو اور مولا علی سے برائت ہو، ان میں سے ایک ابوھریرہ تھا۔
ہم دلیل کے طور پر اہل سنت کی کتابوں سے ایک روایت ذکر کرتے ہیں اگر چہ اس باب میں روایات زیادہ ہیں کہ جو دلالت کرتی ہیں کہ ابوھریرہ مولا علی سے بغض کرتا تھا،
مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے کہ
32092 - حدثنا شریک عن أبی یزید الأودی عن أبیه قال دخل أبو هریرة المسجد فاجتمعنا إلیه فقام إلیه شاب فقال أنشدک بالله أسمعت رسول الله صلى الله علیه و سلم یقول من کنت مولاه فعلی مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه فقال نعم فقال الشاب أنا منک برئ أشهد أنک قد عادیت من والاه ووالیت من عاداه.[27]
جب ابوھریرہ مسجد میں جاتا تو لوگ جمع ہوتے تھے ایک جوان نے ابوھریرہ سے پوچھا کہ تجھے اللہ کی قسم دلاتا ہوں کیا تم نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے اے اللہ تو ان سے محبت کر جو علی سے محبت کرے اور تو ان سے دشمنی کر جو علی سے دشمنی کرے، ابوھریرہ نے کہا کہ ہاں میں نے یہ رسول اللہ سے سنا ہے، جوان نے کہا کہ میں تجھ سے بیزاری کرتا ہوں تو گواھی دیتا ہوں کہ تم نے علی کے حبداروں سے دشمنی کی ہے اور علی کے دشمنوں سے دوستی اور محبت کی ہے،
مروان بن حکم
730 - حدثنا أبو عاصم عن ابن جریج عن ابن أبی ملیکة عن عروة بن الزبیر عن مروان بن الحکم قال[28]......
2466 - حدثنا یحیى بن بکیر حدثنا اللیث عن عقیل عن ابن شهاب عن عروة أن مروان بن الحکم والمسور بن مخرمة أخبراه[29]
مروان بن حکم وہی شخص ہے جس کے باپ کو رسول اللہ نے مدینہ سے نکالا تھا اور اس پر مدینہ آنے کی پابندی لگائی تھی ، یہ حضرت عثمان کا داماد تھا، حضرت عثمان کے قتل میں اس کا مرکزی کردار تھا، جنگ جمل میں مولا علی علیہ السلام کے خلاف لڑنے والوں میں سے سرفہرست لوگوں میں ایک مروان تھا،
مروان کے بارے میں اہل سنت عالم دین شمس الدین ذھبی لکھتے ہیں کہ
وروی ابن عون عن عمیر بن اسحاق قال کَانَ مَرْوَانُ أَمِیْراً عَلَیْنَا، فَکَانَ یَسُبُّ رَجُلاً کُلَّ جُمُعَةٍ، ثُمَّ عُزِلَ بِسَعِیْدِ بنِ العَاصِ، وَکَانَ سَعِیْدٌ لاَ یَسُبُّهُ، ثُمَّ أُعِیْدَ مَرْوَانُ، فَکَانَ یَسُبُّ. فَقِیْلَ لِلْحَسَنِ: أَلاَ تَسْمَعُ مَا یَقُوْلُ؟ فَجَعَلَ لاَ یَرُدُّ شَیْئاً...،
عمیر بن اسحاق کہتا ہے کہ جب مروان ہم پر گورنر تھا تو وہ ہر جمعہ ایک شخص کو گالیاں دیتا تھا ، جب سعید بن عاص امیر ہوا تو وہ اس شخص کو گالیاں نہیں دیتا تھا، پھر مروان دوبارہ امیر بنا تو وہ پھر سے گالیاں دینے لگا، امام حسن علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ مروان کیا کہتا ہے؟ [ یعنی مروان مولا علی کو سب و شتم کرتا ہے] امام حسن علیہ السلام نے کوئی توجہ نہیں کی،
آگے علامہ ذھبی لکھتے ہیں کہ
قَالَ عَطَاءُ بنُ السَّائِبِ: عَنْ أَبِی یَحْیَى، قَالَ: کُنْتُ بَیْنَ الحَسَنِ وَالحُسَیْنِ وَمَرْوَانَ، وَالحُسَیْنُ یُسَابُّ مَرْوَانَ، فَنَهَاهُ الحَسَنُ. فَقَالَ مَرْوَانُ: أَنْتُم أَهْلُ بَیتٍ مَلْعُوْنُوْنَ. فَقَالَ الحَسَنُ: وَیْلَکَ قُلْتَ هَذَا! وَاللهِ لَقَدْ لَعَنَ اللهُ أَبَاکَ عَلَى لِسَانِ نَبِیِّهِ وَأَنْتَ فِی صُلْبِهِ[30]
ابو یحیی کہتا ہے کہ میں امام حسن ، امام حسین اور مروان کے پاس تھا کہ امام حسین ع مروان کو برا بلا کہہ رہے تھے ، امام حسن نے امام حسین کو روک لیا، تو مروان نے کہا کہ تم اہل بیت سب کے سب ملعون ہو، امام حسن علیہ السلام نے کہا کہ وائے ہو تجھ پر ، تم ایسی بات کرتے ہو ، اللہ کی قسم ۔ اللہ نے اپنے نبی کی زبان سے تیرے باپ پر لعنت کی ہے اور تم اس وقت اپنے باپ کے صلب میں تھے،
اسی طرح ابن تیمیہ کے شاگرد ابن کثیر لکھتے ہیں
کان یسب علیا کل جمعة على المنبر وقال له الحسن بن على لقد لعن الله أباک الحکم وأنت فى صلبه على لسان نبیه فقال لعن الله الحکم وما ولد[31]
مروان منبر سے ہر جمعہ کو مولا علی ع پر لعن طعن کرتا تھا ، امام حسن علیہ السلام نے مروان کو کہا کہ اللہ نے اپنے نبی کی زبان سے تمھارے باپ اور تم پر لعنت کی ہے ، نبی نے فرمایا ہے کہ اللہ کی لعنت ہو حکم اور اس کے بیٹے پر [ مروان پر]
سید ابوعماد حیدری
متعلم حوزہ علمیہ قم المقدسہ
فیس بک پیج: http://www.facebook.com/quaidhaidari
[1] صحیح البخاری ج 3 ص 1302 الناشر : دار ابن کثیر ، الیمامة - بیروت
الطبعة الثالثة ، 1407 - 1987تحقیق : د. مصطفى دیب البغا أستاذ الحدیث وعلومه فی کلیة الشریعة - جامعة دمشق
[2] الکتاب : تهذیب التهذیب ج 2 ص 208 باب من اسمه حریض ۔ المؤلف : أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی الناشر : دار الفکر – بیروت الطبعة الأولى ، 1404 – 1984
[3] صحیح البخاری ج ۵ ص ۲۱۹۴
[4] صحیح البخاری ج ۵ ص 2220
[5] الکتاب: تاریخ الإسلام ووفیات المشاهیر والأعلام. ج ۳ ص ۶۵۴،// ج ۶ ص ۱۵۶ تألیف: شمس الدین محمد بن أحمد بن عثمان الذهبی. دار النشر: دار الکتاب العربی. مکان النشر: لبنان/ بیروت. سنة النشر: 1407هـ - 1987م. الطبعة: الأولى. تحقیق: د. عمر عبد السلام تدمری.
[6] صحیح البخاری ج ۲ ص ۶۷۵
[7] الکتاب : تهذیب التهذیب ج 1 ص 206 المؤلف : أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی الناشر : دار الفکر – بیروت الطبعة الأولى ، 1404 - 1984
[8] صحیح البخاری ج 3 ص 1069
[9] صحیح البخاری ج 5 ص 2078
[10] الکتاب : تهذیب التهذیب ج 2 ص 30 المؤلف : أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی الناشر : دار الفکر – بیروت الطبعة الأولى ، 1404 - 1984
[11] صحیح البخاری ج 3 ص 1251
[12] صحیح البخاری ج5 ص 2170
[13] الکتاب : تهذیب التهذیب ج 8 ص 268 تألیف: أحمد بن علی بن محمد ابن حجر العسقلانی
ت: 852هـ الناشر: مطبعة دائرة المعارف النظامیة، الهند الطبعة الأولى، 1326هـ
[14] صحیح البخاری ج 1 ص 31
[15] صحیح البخاری ج 1 ص 354
[16] صحیح البخاری ج 2 ص 967
[17] الکتاب : تهذیب التهذیب ج 13 ص 80 تألیف: أحمد بن علی بن محمد ابن حجر العسقلانی الناشر: مطبعة دائرة المعارف النظامیة، الهند الطبعة الأولى، 1326هـ
[18] صحیح البخاری ج۲ ص ۶۱۲
[19] صحیح البخاری ج۲ ص 702
[20] صحیح البخاری ج۶ ص ۲۴۶۵
[21] الکتاب : تهذیب التهذیب ج 3 ص 308 المؤلف : أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی الناشر : دار الفکر – بیروت الطبعة الأولى ، 1404 - 1984
[22] صحیح البخاری ج۲ ص 698
[23] الکتاب : معجم الأدباء ص 475 المؤلف : یاقوت الحموی
[24] صحیح البخاری ج۱ ص 31
[25] الکتاب : تهذیب التهذیب ج 8 ص 347 المؤلف : أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی الناشر : دار الفکر – بیروت الطبعة الأولى ، 1404 - 1984
[26] الکتاب : شرح نهج البلاغة ج 1 ص 1012 المؤلف : أبو حامد عز الدین بن هبة الله بن محمد بن محمد بن أبی الحدید المدائنی دار النشر : دار الکتب العلمیة - بیروت / لبنان - 1418هـ - 1998م الطبعة : الأولى تحقیق : محمد عبد الکریم النمری
[27] الکتاب : المصنف فی الأحادیث والآثار ج 6 ص 369 المؤلف : أبو بکر عبد الله بن محمد بن أبی شیبة الکوفی الناشر : مکتبة الرشد – الریاض الطبعة الأولى ، 1409 تحقیق : کمال یوسف الحوت
[28] صحیح البخاری ج۱ ص 245
[29] صحیح البخاری ج2 ص 920
[30] سیر أعلام النبلاء ج 5 ص 476 المؤلف : شمس الدین أبو عبد الله محمد بن أحمد الذَهَبی المحقق : مجموعة محققین بإشراف شعیب الأرناؤوط الناشر : مؤسسة الرسالة
[31] البدایة والنهایة ج8 ص 259 المؤلف : إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی أبو الفداء الناشر : مکتبة المعارف - بیروت