فاطمہ بضعۃ منی کی روایت پر اشکال کا جواب
فاطمہ بضعۃ منی کی روایت پر اشکال کا جواب
فدک کا مسئلہ اہل سنت کی کتابوں سے روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ نہ فقط کسی تاریخی کتاب سے بلکہ اہل سنت کے ہاں سب سے معتبرترین کتاب صحیح بخاری میں ذکر ہے کہ بی بی فاطمہ زھرائ سلام اللہ علیہا خلیفہ اول کے پاس فدک کا مطالبہ کرنے گئیں مگر خلیفہ نے فدک دینے سے انکار کیا ، اس پر بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا ناراض ہوئی، روایت کے الفاظ ہے کہ
فوجدت فاطمہ علی ابی بکر ،
بی بی فاطمہ حضرت ابوبکر سے ناراض ہوئی،
اہل سنت کے ہاں یہ مسلم روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے فاطمہ کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا،
نتیجہ : حضرت ابوبکر نے رسول اللہ کو ناراض کیا ،
اسی نتیجے سے جان چھڑانے کے لئے اہل سنت ایک ایسی روایت کی طرف جاتے ہیں جس کو جناب بخاری بڑے شد و مد سے نقل کی ہے، اور وہ امام علی علیہ السلام کی ابوجھل کی بیٹی سے شادی کا معاملہ
ہم ذیل میں اس روایت کی حقیقت بیان کرینگے، روایت ملاحظہ فرمائیں،
430 - حدثنا قیبة بن سعید قال حدثنا عبد العزیز بن أبی حازم عن أبی حازم عن سهل بن سعد قال
: جاء رسول الله صلى الله علیه و سلم بیت فاطمة فلم یجد علیا فی البیت فقال ( أین ابن عمک ) . قالت کان بینی وبینه شیء فغاضبنی فخرج فلم یقل عندی فقال رسول الله صلى الله علیه و سلم لإنسان ( انظر أین هو ) . فجاء فقال یا رسول الله هو فی المسجد راقد فجاء رسول الله صلى الله علیه و سلم وهو مضطجع قد سقط رداؤه عن شقه وأصابه تراب فجعل رسول الله صلى الله علیه و سلم یمسحه عنه ویقول ( قم أبا تراب قم أبا تراب )
البخاری ج 1 ص 169 الناشر : دار ابن کثیر ، الیمامة – بیروت الطبعة الثالثة ، 1407 – 1987 تحقیق : د. مصطفى دیب البغا
رسول اللہ ﷺحضرت فاطمہ کے گھر تشریف لے گئے دیکھا کہ علی ع گھر میں موجود نہیں ، آپ ﷺ نے دریافت کیا کہ تمھارے چچا کے بیٹے کہاں ہیں ؟ انہوں نے[حضرت فاطمہ ع] کہا کہ میرے اور ان کے درمیان کچھ ناگواری پیش آگئی اور وہ مجھ پر خفا ہوکر کہیں باہر چلے گئے ہیں اور میرے یہاں قیلولہ بھی نہیں کیا ہے اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے کہا کہ علی ع کو تلاش کرو کہ کہاں ہیں ؟ وہ آئے اور بتایا کہ مسجد میں سو رہے ہیں ، پھر نبی کریم ﷺ تشریف لائے ، علی ع لیٹے ہوئے تھے مٹی لگ گئی تھی ۔ رسول اللہ ﷺ جسم سے دھول جھاڑ رہے تھے اور فرما رہے تھے اٹھو ابوتراب، اٹھو ابو تراب۔
اس روایت سے اخذ کئے گئے کچھ نکات۔
۱۔ حضرت علی ع بی بی فاطمہ پر خفا ہوگئے تھے،
۲۔ بی بی فاطمہ کو پتہ نہیں تھا کہ حضرت علی کہاں ہیں،
۳۔ حضرت علی کو ڈھونڈنے کے لئے نبی اکرم نے ایک شخص کو بھیجا۔
۴۔ ڈھونڈنے والے شخص نے آکر خبر دی کہ حضرت علی مسجد میں ہیں،
اب بخاری کی دوسری روایت کی طرف رجوع کرتے ہیں وہاں دیکھتے ہیں کہ کیا یہ چار نکات ثابت ہوتے ہیں یا نہیں ،
بخاری کی دوسری روایت ملاحظہ ہو،
3500 - حدثنا عبد الله بن مسلمة حدثنا عبد العزیز بن أبی حازم عن أبیه
: أن رجلا جاء إلى سهل بن سعد ..........
قال دخل علی على فاطمة ثم خرج فاضطجع فی المسجد فقال له النبی صلى الله علیه و سلم ( أین ابن عمک ) . قالت فی المسجد فخرج إلیه فوجد رداءه قد سقط عن ظهره وخلص التراب إلى ظهره فجعل یمسح التراب عن ظهره فیقول ( اجلس یا أبا تراب ) . مرتین
ایک دفعہ حضرت ع حضرت فاطمہ کے ہاں آئے اور پھر باہر آکر مسجد میں لیٹ رہے ، پھر آپ ﷺ نے [ حضرت فاطمہ ع] سے دریافت کیا ، تمھارے چچا کے بیٹے کہاں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ مسجد میں ہیں ۔ آپ ﷺ مسجد میں تشریف لائے دیکھا تو علی ع کی چادر [ عبا] پیٹھ سے نیچے گرگئی ہے اور ان کی کمر پر اچھی طرح سے خاک لگ چکی ہے۔ آپ ﷺ مٹی ان کی کمر سے صاف فرمانے لگے اور بولے اٹھو اے ابوتراب ، [ دو دفعہ کہا]
البخاری ج 3 ص 1358 الناشر : دار ابن کثیر ، الیمامة – بیروت الطبعة الثالثة ، 1407 – 1987 تحقیق : د. مصطفى دیب البغا
پہلی روایت کے چار نکات ، دوسری روایت کی نظر میں،
۱۔ دوسری روایت میں یہ کہیں بھی ذکر نہیں کہ مولا علی ع بی بی فاطمہ پر خفا ہوئے تھے،
۲۔ دوسری روایت کے مطابق حضرت فاطمہ کو پتہ ہے کہ مولا علی مسجد میں ہیں ،
۳۔ دوسری روایت میں کہیں بھی ذکر نہیں کہ رسول اللہ نے مولا علی کو ڈھونڈنے کے لئے کسی کو بھیجا ہو،
۴۔ دوسری روایت میں یہ بھی موجود نہیں کہ ڈھونڈنے والے شخص نے آکر مولا علی کے مسجد میں ہونے کی خبر رسول کو دی ہو،
ثابت یہ ہے کہ صحیح بخاری کی یہ دونوں روایتیں ایک دوسرے کے متعارض ہیں،
ہم بخاری کی کونسی روایت مان لیں پہلی والی یا دوسری والی،
جب کہ سچ تو یہ ہے کہ یہ ٹوٹل واقعہ سراسر جھوٹ پر مبنی ہے، چونکہ اہل بیت کے فضائل والی روایات میں جھوٹ ملا کر پیش کرنا جناب بخاری کی عادتوں میں سے ایک عادت تھی تاکہ بظاہر فضیلت والی روایت اہل بیت کی شان میں نقص بیان کرنے سے خالی نہ ہو،
جب کہ درست روایت کو جناب بخاری نے بالکل پیش ہی نہیں کی کہ جو اہل سنت کے باقی کتابوں میں موجود ہے کہ مولا علی ع کو ابوتراب کا لقب کب رسول اللہ نے دیا ہے،
علامہ ابن ابی عاصم المتوفی ۲۷۸ ھجری نے اپنی کتاب الاحاد والمثانی میں روایت نقل کی ہے کہ
175- حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الأَقْطَعِ ، شَیْخٌ قَدِیمٌ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَزِیدَ بْنِ خُثَیْمٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ الْقُرَظِیِّ ، حَدَّثَنِی أَبُو بَکْرٍ یَزِیدُ بْنُ خُثَیْمٍ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ قَالَ : کُنْتُ أَنَا وَعَلِیٍّ رَفِیقَیْنِ فِی غَزْوَةِ الْعُسْرَةِ ، فَنَزَلْنَا مَنْزِلا فَرَأَیْنَا أُنَاسًا مِنْ بَنِی مُدْلِجٍ یَعْمَلُونَ فِی نَخْلٍ لَهُمْ ، فَقُلْتُ : لَوِ انْطَلَقْتُ إِلَى هَؤُلاءِ فَنَظَرْنَا إِلَیْهِمْ ، کَیْفَ یَعْمَلُونَ ؟
فَأَتَیْنَاهُمْ فَنَظَرْنَا إِلَیْهِمْ سَاعَةً ثُمَّ غَشِیَنَا النُّعَاسُ ، فَعَمَدْنَا إِلَى صَعِیدٍ ، فَنِمْنَا تَحْتَهُ فِی دَقْعَاءَ مِنَ التُّرَابِ ، فَقَالَ : مَا أَیْقَظَنَا إِلا رَسُولُ اللهِ صلى الله علیه وسلم ، أَتَانَا یَغْمِزُ عَلِیًّا بِرِجْلِهِ وَقَدْ تَرِبْنَا فِی ذَلِکَ التُّرَابِ ، فَقَالَ : قُمْ أَبَا تُرَابٍ ،
حضرت عمار بن یاسر فرماتےہیں کہ میں اور علی ع ساتھ تھے ہم ایک جگہ پر بنی مدلج کے کچھ لوگوں کو نخلستان میں کام کرتے ہوئے دیکھا ، میں نے کہا کہ اگر ہم ان لوگوں کے پاس گئے تو ہم ان لوگوں کو دیکھیں گے کہ یہ کیسے کام کرتے ہیں؟ ہم گئے اور ہم نے کچھ وقت تک ان لوگوں کو دیکھا پھر ہم پر نیند کی غنودگی ہوئی تو ہم وہاں مٹی پر ٹیک لگا بیٹھے [ لیٹ گئے] اور اسی مٹی والی جگہ پر ہم سو گئے، ہمیں رسول اللہ نے جگایا حضور نے اپنے پاوں سے مولا علی کی طرف اشارہ کیا اس حالت میں کہ ہمارے بدن خاک آلود ہوگئے تھے، اور کہا کہ اٹھو اے ابوتراب اٹھو اے ابو تراب
الآحاد والمثانی ج1 ص 119 أبو بکر بن أبی عاصم (المتوفى : 287هـ) المحقق : د. باسم فیصل أحمد الجوابرة الناشر : دار الرایة – الریاض الطبعة : الأولى ، 1411 - 1991