مولا حسین ع کے غم میں نوحہ پڑھنا ، حضرت زھرا کا حکم
مولا حسین ع کے غم میں نوحہ پڑھنا ، حضرت زھرا کا حکم
اہل سنت عالم ابو علی تنوحی لکھتے ہیں کہ
حدّثنی أبی قال:
خرج إلینا یوما، أبو الحسن الکاتب، فقال: أتعرفون ببغداد رجلا یقال له: ابن أصدق؟
قال: فلم یعرفه من أهل المجلس غیری، فقلت: نعم، فکیف سألت عنه؟
فقال: أی شیء یعمل؟
قلت: ینوح على الحسین علیه السلام.
قال: فبکى أبو الحسن، وقال: إنّ عندی عجوزا ربّتنی من أهل کرخ جدّان عفطیة اللسان، الأغلب على لسانها النبطیة، لا یمکنها أن تقیم کلمة عربیّة صحیحة، فضلا عن أن تروی شعرا، وهی من صالحات نساء المسلمین، کثیرة الصیام والتهجّد.
وإنّها انتبهت البارحة فی جوف اللیل، ومرقدها قریب من موضعی، فصاحت بی: یا أبا الحسن.
فقلت: ما لک؟
فقالت: الحقنی.
فجئتها، فوجدتها ترعد، فقلت: ما أصابک؟
فقالت: إنّی کنت قد صلّیت وردی فنمت، فرأیت الساعة فی منامی، کأنّی فی درب من دروب الکرخ، فإذا بحجرة نظیفة بیضاء، ملیحة الساج، مفتوحة الباب، ونساء وقوف علیها.
فقلت لهم: من مات؟ وما الخبر؟ فأومأوا إلى داخل الدار.
فدخلت، فإذا بحجرة لطیفة، فی نهایة الحسن، وفی صحنها امرأة شابّة لم أر قط أحسن منها، ولا أبهى ولا أجمل، وعلیها ثیاب حسنة بیاض مرویّ لیّن، وهی ملتحفة فوقها بإزار أبیض جدّا، وفی حجرها رأس رجل یشخب دما.
فقلت: من أنت؟
فقالت: لا علیک، أنا فاطمة بنت رسول الله، صلى الله علیه، وهذا رأس ابنی الحسین، علیه السلام، قولی لابن أصدق عنّی أن ینوح:
لم أمرّضه فأسلو ... لا ولا کان مریضا
فانتبهت فزعة.
قال: وقالت العجوز: لم أمرّطه، بالطاء، لأنّها لا تتمکّن من إقامة الضاد، فسکّنت منها إلى أن نامت.
ثم قال لی: یا أبا القاسم مع معرفتک الرجل، قد حمّلتک الأمانة، ولزمتک، إلى أن تبلّغها له.
فقلت: سمعا وطاعة، لأمر سیدة نساء العالمین.
قال: وکان هذا فی شعبان، والناس إذ ذاک یلقون جهدا جهیدا من الحنابلة، إذا أرادوا الخروج إلى الحائر.
فلم أزل أتلطّف، حتى خرجت، فکنت فی الحائر، لیلة النصف من شعبان.
فسألت عن ابن أصدق، حتى رأیته.
فقلت له: إنّ فاطمة علیها السلام، تأمرک بأن تنوح بالقصیدة [التی فیها] :
لم امرّضه فأسلو ... لا ولا کان مریضا
وما کنت أعرف القصیدة قبل ذلک.
قال: فانزعج من ذلک، فقصصت علیه، وعلى من حضر، الحدیث، فأجهشوا بالبکاء، وما ناح تلک اللیلة إلّا بهذه القصیدة، وأوّلها:
أیّها العینان فیضا ... واستهلّا لا تغیضا
وهی لبعض الشعراء الکوفیّین.
وعدت إلى أبی الحسن، فأخبرته بما جرى.
التنوخی البصری، ابوعلی المحسن بن علی بن محمد بن أبی الفهم (المتوفى 384هـ)، نشوار المحاضرة وأخبار المذاکرة، ج2، ص230-232، تحقیق: عبود الشالجی، الناشر: دار صادر.
میرے والد نے مجھے کہا کہ ایک دن ابو الحسن کاتب آیا اور کہا کہ کیا بغداد میں ابن اصدق نامی شخص کو جانتے ہو،
میرے والد نے کہا کہ اس محفل میں میرے علاوہ کوئی بھی اس شخص کو نہیں جانتا تھا میں نے کہا ہاں میں جانتا ہوں ، کیوں تم نے اس کے بارے میں پوچھا؟
ابوالحسن کاتب نے کہا کہ وہ کیا کام کرتا ہے؟
میرے والد نے جواب دیا کہ وہ مولا حسین کے نوحے پڑھتا ہے۔
ابوالحسن کاتب نے رونا شروع کیا اور کہا کہ ایک بوڑھی عورت کرخ میں میرے پاس ہے جس نے میرئ تربیت کی ہے اور لہجہ نہ رکھنے کی وجہ سے وہ کلمات کا تلفظ درست نہیں ادا کرسکتی تو شعر تو دور کی بات ہے۔ یہ عورت صالح عورتوں میں سے ہے اور اہل تہجد اور اہل صوم ہے،
اس کے سونے کا کمرہ میرے قریب ہے کل رات اس نے مجھے اواز دی اور کہا کہ میرے پاس آو
میں اس کے پاس گیا ناگہاں دیکھا کہ وہ لرز رہی ہے ، میں نے کہا کہ کیا ہوا ؟
کہا کہ ایک پارہ قرآن کا پڑھ کر سوگئی خواب دیکھا ایسا کہ میں کرخ کے ایک دروازے کے سامنے ہوں ایک صاف کمرہ دیکھا کہ جس کا دروازہ کھلا تھا اور عورتیں اس دروازے کے سامنے کھڑی تھیں
میں نے ان کو کہا کہ کون انتقال کرگیا ہے ؟ انہوں نے اندر کمرہ کی طرف اشارہ کیا
میں نے دیکھا کہ کمرہ انتہائی خوبصورت ہے اس کے وسط میں ایک جوان عورت ہے کہ ان تمام سے نیکوتر اور زیباتر تھی سفید لباس زیب تن تھا
میں نے پوچھا تم کون ہو
کہا میرا تجھ سے کوئی واسطہ نہیں میں رسول اللہ کی بیٹی فاطمہ ہوں اور یہ میرے بیٹے حسین ع کا سر ہے ، میری طرف سے ابن اصدق کو کہو کہ نوحہ میں یہ شعر پڑھ لے،
لم أمرّضه فأسلو ... لا ولا کان مریضا
ابوالحسن کاتب کہتا ہے کہ وہ بوڑھی عورت لم امرضہ کی جگہ پر لم امرطہ پڑھتی تھی کیونکہ وہ درست تلفظ نہیں کرسکتی تھی ،
ابو الحسن نے کہا کہ اے ابو القاسم اب جب کہ تم ابن اصدق کو جانتے ہو تو اس کو یہ پیغام پہنچادو، میں نے کہا کہ میں عورتوں کی سردار کی خاطر یہ کام کرلوں گا،
ابو القاسم تنوحی کہتے ہیں کہ یہ واقعہ شعبان میں پیش آیا جب لوگ امام حسین ع کی زیارت پر جارہے تھے اور حنبلیوں کی طرف سے بہت تکالیف برداشت کرنے پڑھتے تھے،
من کافی کوشش کے بعد نیمہ شعبان کو امام حسین کے حرم پہنچا
ابن اصدق کو دیکھا اور ان کو کہا کہ
فاطمہ س نے تجھے حکم دیا ہے کہ اس شعر کو نوحے کے طور پر پڑھا کرو
لم امرّضه فأسلو ... لا ولا کان مریضا
سب کے سامنے پورا ماجرا سنایا سب نے ساری رات گریہ و زاری کی