حضرت عمر کی موت پر ایک صحابی کی خوشی
حضرت عمر کی موت پر ایک صحابی کی خوشی
اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ سارے صحابہ عادل ہیں اور سب میں بڑے اچھے تعلقات تھے،
اب ذرا دیکھیں کہ حضرت عمر کی موت کی خبر سن کر صحابہ نے کیا کیا ہے۔
ا
وَکَانَ اسْمُ أَبِی جَهْمٍ عُبَیْدًا. وَأَسْلَمَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّةَ، وَقَدِمَ الْمَدِینَةَ بَعْدَ ذَلِکَ فَابْتَنَى بِهَا دَارًا، وَکَانَ شَدِیدَ الْعَارِضَةِ، فَکَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَدْ أَشْرَفَ عَلَیْهِ وَأَخَافَهُ حَتَّى کَفَّ مِنْ غَرْبِ لِسَانِهِ عَلَى النَّاسِ، فَلَمَّا مَاتَ عُمَرُ سُرَّ بِمَوْتِهِ.
البصری الزهری، محمد بن سعد بن منیع أبو عبدالله (المتوفى230 هـ)، الطبقات الکبیر،ج6، ص 103، تحقیق : علی محمد عمر، الناشر : مکتبة الخانجی - القاهرة، الطبعة : الأولى، 1421 هـ - 2001 م.
اس کا نام ابو جهم تھا غلام تھا اور فتح مکہ کے دن اسلام لایا اور پھر مدینہ آیا اور مدینہ میں اپنا گھر بنایا اس کا کلام فصیح صریح اور تند تھا ، حضرت عمر نے اس کو اپنی نظروں میں رکھا اور اس کو ڈرایا یہاں تک کہ اس نے اپنے کلام کو چھوڑ دیا جب حضرت عمر اس دنیا سے چل بسا تو ابو جھم حضرت عمر کی موت پر بہت خوش ہوئے.
وَکَانَ قَوِیَّ النَّفْسِ، سُرَّ بِمُصَابِ عُمَرَ، لِکَوْنِهِ أَخَافَهُ، وَکَفَّ مِنْ بَسْطِ لِسَانِهِ -رَضِیَ اللهُ عَنْهُ-.
الذهبی الشافعی، شمس الدین ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى748 هـ)، سیر أعلام النبلاء، تحقیق: شعیب الأرنؤوط، محمد نعیم العرقسوسی، ناشر: مؤسسة الرسالة - بیروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ .
ابو جهم قوی النفس تھا اور عمر بن الخطاب کی موت پر خوش ہوا کیونکہ حضرت عمر نے اس کو ڈرایا تھا
کیا ابوجھم نے اس کام میں اجتھاد کیا تھا اور اللہ سے ایک اجر لیا تھا؟
یا پھر یہ سنت صحابہ مان لیں کہ حضرت عمر کی موت کے دن خوشی منائیں