یہ ہے صحیح ترین کتاب کی حالت
1️⃣ من گھڑت اور جعلی روایات کو معلوم کرنے کا ایک طریقہ روایت کو صحیح تاریخ کے ساتھ موازنہ کرنا ہے۔ اگر مسلمہ تاریخ کی مخالفت کررہی ہو تو اس روایت کو جعلی و من گھڑت تصور کی جائے گی۔ مثلا اگر کسی روایت میں ہو کہ حضرت عائشہ کے چار بیٹے تھے تو چاہے یہ روایت صحیح ترین سند کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو پھر بھی من گھڑت روایت شمار کی جائے گی۔
2️⃣ اب اسی قانون کو مد نظر رکھ کر بخاری کی اس روایت کا ملاحظہ فرمائیں۔
🔸حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَقْبَلَ نَبِیُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَدِینَةِ وَهُوَ مُرْدِفٌ أَبَا بَکْرٍ، وَأَبُو بَکْرٍ شَیْخٌ یُعْرَفُ وَنَبِیُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شَابٌّ لَا یُعْرَفُ، قَالَ: فَیَلْقَى الرَّجُلُ أَبَا بَکْرٍ فَیَقُولُ: یَا أَبَا بَکْرٍ، مَنْ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِی بَیْنَ یَدَیْکَ ؟ فَیَقُولُ: هَذَا الرَّجُلُ یَهْدِینِی السَّبِیلَ،
ترجمہ:
🛑 انس بن مالک نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم جب مدینہ تشریف لائے تو ابوبکر آپ کی سواری پر پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ ابوبکر بوڑھے ہوگئے تھے اور ان کو لوگ پہچانتے بھی تھے لیکن نبی کریم ابھی جوان تھے اور آپ کو لوگ عام طور سے پہچانتے نہ تھے۔ بیان کیا کہ اگر راستہ میں کوئی ملتا اور پوچھتا کہ اے ابوبکر! یہ تمہارے ساتھ کون صاحب ہیں؟ تو آپ جواب دیتے کہ یہ مجھے راستہ بتاتے ہیں۔
📓صحیح بخاری حدیث نمبر: 3911
3️⃣ شیعه و سنی کے ہاں یہ تاریخ کے مسلمات میں سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ اور حضرت ابوبکر دونوں کی عمریں ھجرت کے وقت 50 سال سے زیادہ تھی۔ پیغمبر اکرم(ص) کی عمر ھجرت کے وقت 53 سال اور ابوبکر کی عمر 51 سال تھی۔
اب جھوٹ کا تو یہیں پر پتہ چلتا ہے کہ جس کی عمر زیادہ تھی وہ جوان اور جس کی کم تھی وہ بوڑھا۔
تیرہ سال سے نبی اکرم ص کی نبوت کی باتیں عربوں میں رائج تھیں اور لوگ ابوبکر کو پہچانتے تھے۔
ایسی جھوٹی روایات کو اھل سنت صحیح روایات کہتے ہیں۔ فیاللعجب
✅ ایسی جھوٹی باتوں سے راویوں کا ھدف کیا تھا؟ حضرت ابوبکر کی مدح میں ایسی جھوٹی روایات بیان کرنا؟ یا نبی کی شان میں تنقیص؟؟
✧❁سید ابوعماد حیدری❁✧